۱ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۱ شوال ۱۴۴۵ | Apr 20, 2024
سانحہ پشاور …! اب کرنا کیا ہے ؟

حوزہ/ آخر سمجھ میں یہ نہیں آتا کہ جب بھی حملہ ہوتا ہے تو شیعوں پر ہی کیوں …؟کبھی کوئی وجہ بھی سامنے نہیں آتی اور نہ ہی کوئی معقول سرچ آپریشن …!عمران خان نے ریاست مدینہ کا نعرہ دیا تھا۔ سچ میں یہ مدینہ ہے جہاں خانوادہ اہل بیت علیہم السلام کاکوئی پرسان حال نہیں اور سچ تو یہ کہ مدینہ کو شہر رسول کہاجاتا ہے جہاں آل رسول کاقتل کیا جاتارہا ہے ۔

تحریر: عظمت علی، لکھنؤ

حوزہ نیوز ایجنسیپاکستان ایک مسلم ملک بن کر دنیا کے سامنے وجود میںآیا مگر وہاں اب مسلمان نہیں رہتے ۔صرف نام لیوا ہیں محمدؐ کے پرستار کسی اور کے ۔ ایک ہاتھ میں اسلحہ دوسرا ہاتھ نعرہ تکفیرمیں بلند۔زبان بدلتی رہتی ہے کبھی سعودی کی زبان کبھی امریکہ کی ،خود کوکوئی زبان نہیں ۔بولنے کو تو دنیا کی پیاری زبان اردو بھی بولتے ہیں مگر زہر آلود۔ مسلمان کو کافرکہتے ہیں اور کافر کو محسن اسلام۔ مذہبی رہنماکی بات کریں تو مقلد ہیں کسی کے ۔ جب وہاں سے پیغا م آئے گاتبھی زبان کھلے گی ورنہ مصلحت عامہ زندہ باد ۔

پاکستانی شیعہ کریں بھی تو کیا کریں،وہاں ہر طرف شیعہ مخالف برسر اقتدار ہیں۔انہیں حکومتی ترقی سے زیادہ گلہ اپنے نفس کی حفاظت کا ہے ۔بذات خودپاکستان،واحداسلامی ملک ہے جہاں ایٹم بم بھی موجود ہیں ۔اس نے پچھلے پچاس برس پہلے ۱۹۷۲ ہی میں اس کی پروگرامنگ شروع کردی تھی، پچا س برس گزرنے کے بعدبھی آج تک کوئی بھی اس درجہ تک نہیں پہونچ سکا جہاں آج پاکستان کھڑا ہے ۔پاکستان میں امن ہوتا تو امن عالم میں سویرا ہوتا اور اگر مسلمانوں میں علمی شمع روشن ہوتی تومغرب میں ڈوب جانے والے سورج کے پجاری نہیں بنتے، نہ ہی سکوں کی جھنکاربہی خواہوتے اورنہ ہی جبہ و دستار کےلالچی،اب تبلیغ دین کا حال یہ ہوچکا ہے کہ نعرہ تکبیر کی جگہ نعرہ تکفیر لگاتے ہیں ۔

پاکستان میں شیعہ ہونا بظاہر جرم ہونے لگا ہے ۔ لکھنؤ میں ایک نوحہ خوان آئے تھے انہوں نے کہا تھا کہ ہم محرم میں سر پرکفن باندھ کر اور آخری ملاقات کی نیت سےگھرسےباہر نکلتے ہیں ۔ آج ہندوستان میں بڑی آزادی سے عزادار ی برپاہوتی ہے۔ پاکستان میں شیعہ مظالم کی تاریخ قیام پاکستان ہی سے شروع ہوجاتی ہے ۔۱۹۴۷ میں مولانا حسین احمد مدنی کے کچھ شاگرد تقسیم ہندو پاک کے ساتھ پاکستان چلے گئے اور پھر انہوں نے اپنی شیطنت پرخوب دنگے کئے ،فسادات کو جنم دینااور سوئے ہوئے فتنے جگانا، ان کا مذہبی فریضہ تھا۔یہ سلسلہ آج بھی اسی نوعیت سے رواں ہے ۔حکومت چاہے جس کی ہو،ظلم کے شکار شیعہ ہی ہوتے ہیں۔حکومت تبدیل ہوتی ہے ، نظام نہیں ،شیعہ نسل کشی بدستوربرقرار ہے۔ موجودہ وزیر اعظم عمران خان نے تحریک انصاف کا دامن تھاما اور حکومت بنالی ، حکومت بدلی مگر شیعہ نسل کشی کہاں رکی…؟تعزیتی بیان تو مجبوری ہے ،کل کو ووٹ بھی لینا ہے ۔سانحہ مچھ،کوئٹہ پر تحریک انصاف کا عملی نمونہ پیش کیا۔تحریک انصاف کادامن اتنی زور سے تھامے ہوئے تھے کہ انصاف کی آس لگائے مظلوم زندہ لاشے بن گئے مگر ظلم کا دامن نہیں چھوڑا۔کہنے لگے چومی دامن کا ساتھ ہے ، کیسے چھوڑ دوں …!

اب آتے ہیں اپنوں کے حال پر ۔پاکستان میں شیعہ نہایت اچھی حالت میں بھی ہیں اور کسمپرسی میں بھی ۔ بڑے بڑے جلوس ، بڑے بڑے علماء اور ذاکرموجود ۔ بڑی بڑی جماعتیں مگرسب اپنے اپنے مفاد تک۔ جہاں اپنی ذات پر آنچ آئی پیادےچھوڑ دیئے جاتے ہیں ۔فتوے بھی تخلیق ہوجاتے ہیں اور لعنت کا جواز بھی پیداہوجاتا ہے۔عزاداری کے معاملہ پر نوکمپرومائز، زندہ دل ہونے کی نشانی ہے مگرساتھ ہی عزاداروں کی حفاظت بھی ضروری ۔ دھرنا احتجاج اپنی جگہ ،قانونی کاروائی اور بل منظور کرانا دیرپانتائج ہیں ۔جذبات وقتی ہوتے ہیں،عقلمندی کا سہارالیں اور دور رس نتائج پر غور کریں ۔دھرنے پر کب تک بیٹھیں گے۔دھرنے پر بیٹھیں گے ،حکومت ناامنی اور بدنظمی کا لیبل لگائے کےہٹابھی سکتی ہے ۔ حکومتی سطح پر بات کریں، عالمی عدالت میں پیروی کریں۔

ہمیشہ اپنی ذات پر یقین کامل رکھیں،صرف ہمسایہ اور اسلامی ملک پر موقف نہ رہے ۔ وہاں آپ کا نہیں، حکومت کا شمار ہوتا ہے ۔وہاں مذہب نہیں سیاست اور مفاد ات کارگر ہوتے ہیں۔پاکستان کی خارجہ پالیسی کہہ سکتی ہے کہ یہ ہمارےگھر کا معاملہ ہے ، باہر والوں کو تبصرہ کرنے کی ضرورت نہیں ، تو کیاآپ ہاتھ پر ہاتھ دھرے رہ جائیں گے…؟مشکل وقت میں سایہ بھی ساتھ چھوڑدیتا ہے،ہمسایہ ممالک تو دور کی بات ۔اس لیے خودحق کی لڑائی خود اپنی گھر سے شروع کریں ۔ایسی بات بھی نہیں ہے کہ پاکستانی شیعوں کی حکومت تک پہونچ نہیں ۔

آخر سمجھ میں یہ نہیں آتا کہ جب بھی حملہ ہوتا ہے تو شیعوں پر ہی کیوں …؟کبھی کوئی وجہ بھی سامنے نہیں آتی اور نہ ہی کوئی معقول سرچ آپریشن …!عمران خان نے ریاست مدینہ کا نعرہ دیا تھا۔ سچ میں یہ مدینہ ہے جہاں خانوادہ اہل بیت علیہم السلام کاکوئی پرسان حال نہیں اور سچ تو یہ کہ مدینہ کو شہر رسول کہاجاتا ہے جہاں آل رسول کاقتل کیا جاتارہا ہے ۔ محققین کا نظریہ ہے کہ پاکستان کے بنیاد گزار شیعہ تھے، اسی لیے وہاں بھی محبان رسول و آل رسول کا قتل کیا جاتا ہے ۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .