۶ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۶ شوال ۱۴۴۵ | Apr 25, 2024
گلگت بلتستان الیکشن 2020

حوزہ/ صاحبان بصیرت اور فہم کے لئے اب وہ موقع ہے کہ وہ سنجیدگی سے سوچیں کہ گلگت بلتستان جیسے خالص شعیہ علاقے میں جو تشیع پاکستان کا انقلابی، ولائی اور روایتی قلعہ ہے سیکیولر قوتیں وہاں کیا اور کس طرح سے مذہبی اور ثقافتی تبدیلیاں لا سکتی ہیں۔ 

از قلم: جری حیدر

گلگت بلتستان کی علاقائی اور مذہبی اہمیت اور تشیع پاکستان

حوزہ نیوز ایجنسی | گلگت بلتستان پاکستان کے شمال میں واقع  قدرتی اور اور زمینی زخائر اور نعمتوں سے مالا مال علاقہ ہے۔ یہاں پر رہنے والے باسی ہمیشہ سے اپنے دینی، مذہبی اور اعتقادی روایات کے اوپر بھرپور اور اور پختہ عمل کے عنوان سے جانے اور پہچانے جاتے ہیں ہیں۔ اسی طرح یہ علاقہ وہ واحد علاقہ ہے کہ جہاں شیعہ اتنی تعداد میں میں پائے جاتے ہیں کہ کہ تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق انتخابی حلقوں میں 40 فیصد آبادی خالص شیعہ اثناعشری آبادی ہے اور یہ آبادی گلگت بلتستان کے مرکزی علاقوں میں میں بستی ہے نہ کہ متفرق دور دراز علاقوں میں۔
اور صوبہ سے ہٹ کر صرف گلگت بلتستان کے شہروں کو دیکھا جائے تو یہ تناسب 65_70 % تک ہے۔ حالیہ برسوں میں CPEC قرارداد کے باعث اس اور اس کے گیٹ وے قرار پانے کے باعث یہ علاقہ غیر معمولی اہمیت اختیار کال کر چکا ہے۔
یوں یہ علاقہ شیعہ مذہب کے لئے پاکستان کے اندر ایک اسٹریٹجک اور اور تزویراتی گہرائی کے عنوان سے سے سے خالص ترین اور اہم ترین علاقہ ہے۔
یہاں پر بسنے والے شیعہ آپ دیکھ سکتے ہیں کہ پاکستان کے پورے پاکستان کے اندر جس شہر اور جس علاقے میں بھی آپ جائیں وہاں پر مساجد، امام بارگاہیں اور مذہبی مراکز انہی علاقوں کے افراد کے توسط سے سے آباد ہیں اور اگر یوں کہا جائے کہ گلگت بلتستان پاکستان کی تشیع کی مذہبی اور عقیدتی ریڑھ کی ہڈی ہے تو یہ بات بھی شاید حقیقت سے دور نہ ہو۔

الیکشن 2020 اور نتائج
حالیہ الیکشن میں جو نتائج گلگت بلتستان کے کے موصول ہوئے اس کے تحت یہ علاقہ جو کبھی شیعیان پاکستان کے مضبوط ترین قلعے کے عنوان سے سے شناخت رکھتا تھا اور 90 کی دہائی میں یہاں شیعہ حکومت بھی قائم ہوئی اب یہ علاقے آہستہ آہستہ اپنی شیعہ شناخت کھوتے جا رہے ہیں۔
حالیہ الیکشن میں یہ دیکھا گیا کہ مقامی افراد جو ہمیشہ اپنی ولائی اور انقلابی شناخت کے ساتھ جانے اور پہچانے جاتے تھے وہاں اس علاقے پر انہوں نے سیکولر جماعتوں کو مذہبی جماعتوں پر فوقیت دی۔

ماضی سے حال تک کا سیاسی سفر
نوے کی دہائی میں میں جہاں شیعہ حلقوں کی 11 نشستوں پر پر ایک شیعہ مذہبی جماعت نے کلین سویپ کییا۔ 2015 کے الیکشن میں میں اسی طرح دو مذہبی جماعتوں نے کل ملا کر چار نشستیں حاصل کیں کی اب حالت یہ ہے کہ 2020 کے الیکشن میں شیعہ مذہبی جماعتوں کے پاس کل ملا کر ایک نشست ہے وہ بھی ایک سیکیولر جماعت کے ساتھ انتخابی اتحاد کے نتیجے میں حاصل شدہ کامیابی کے تحت موجود ہے۔
مخلص اور مذہبی قوتوں کے لئے لیے یہ لمحہ فکریہ ہے کہ ان کے انتہائی اہم قلعے اور گڑھ پر اب سیکیولر اور بے دین قوتیں حاوی ہوچکی ہیں۔ صاحبان فہم و بصیرت اس بات سے واقف ہیں کہ سیکولر جماعتیں صرف لوگوں سے ووٹ حاصل نہیں کرتیں بلکہ اپنے نامعلوم غیر دینی افکار، نظریات، روایات اور انحرافات بھی مقامی لوگوں کے اندر نافذ کرتی  ہیں۔

جی بی کے آئینی حقوق اور جدوجہد اور مذہبی جماعتیں
گلگت بلتستان کے آئینی حقوق کی جدوجہد کی بات اگر کی جائے تو شیعہ جماعتیں یہ جنگ اپنے اتحاد و اتفاق کے ساتھ بھی لڑ سکتی ہیں۔ اگر مذہبی جماعتیں محنت کریں اور مقامی لوگوں کے ساتھ رابطہ برقرار رکھیں تو ابھی بھی مذہبی جماعتوں کیلئے وہاں بہت پذیرائی موجود ہے۔ از خود آزاد طریقے سے الیکشن لڑ کر اپنی شرائط پر دوسری جماعتوں کے ساتھ سیاسی معاملات کئے جاسکتے ہیں یا اپنے تربیت شدہ افراد سیاسی جماعتوں میں بھیج کر جیسے آپشن پر غور کیا جاسکتا ہے۔ 
افسوس کے ساتھ اس الیکشن میں یہ دیکھا گیا کہ خالص شیعہ حلقوں میں بھی مذہبی جماعتوں کی جانب سے سیکیولر قوتوں کو کندھا دیا گیا اور ان کو اقتدار میں لانے کے لیے مقامی آبادی اور لوگوں میں سیکولر جماعتوں اور انکے افراد کا پرچار کیا گیا اوران کے طور طریقوں اور ثقافت کو مذہبی شیعہ عوام میں ترویج دیا گیا۔

تشیع پاکستان کیلئے لمحہ فکریہ
صاحبان بصیرت اور فہم کے لئے اب وہ موقع ہے کہ وہ سنجیدگی سے سوچیں کہ گلگت بلتستان جیسے خالص شعیہ علاقے میں جو تشیع پاکستان کا انقلابی، ولائی اور روایتی قلعہ ہے سیکیولر قوتیں وہاں کیا اور کس طرح سے مذہبی اور ثقافتی تبدیلیاں لا سکتی ہے۔ 
آگے آنے والی نسلوں کو کو ہم کس طرح شیعہ  مذہب، اسکی راہ اور فکر پر باقی رکھ سکتے ہیں اور اس کو اپنے ایک اسٹریٹجک قلعے کے طور سے محفوظ رکھ اپنی سیاسی، ثقافتی اور مذہبی جدوجہد کو مضبوطی سے پروان چڑھا سکتے ہیں۔
اپنے روایتی علاقوں میں بھی اگر اسی اغیار پر بھروسے کی سیاست کو جاری رکھا گیا تو وہ وقت دور نہیں کہ بہت ہی کم وقت میں تشیع پاکستان اپنا یہ محکم اسٹریٹجک بیس اور گڑھ سیکولر اور بے دین قوتوں کے ہاتھوں گنوا بیٹھے گی۔

نوٹ: حوزہ نیوز پر شائع ہونے والی تمام نگارشات قلم کاروں کی ذاتی آراء پر مبنی ہیں حوزہ نیوز اور اس کی پالیسی کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .