تحریر: مولانا سید علی ہاشم عابدی
حوزہ نیوز ایجنسی | چوتھی اور پانچویں صدی ہجری کے مشہور و معروف شیعہ عالم، ادیب، مفسر، فقیہ اور متکلم جن کا نام سید علی بن حسین بن موسی رحمۃاللہ علیہ ، کنیت ابوالقاسم اور لقب علم الہدیٰ تھا اور سید مرتضیٰ ؒکے نام سے مشہور ہوئے۔آپ جامع نہج البلاغہ جناب سید رضی ؒ کے بڑے بھائی تھے۔
سید مرتضیٰؒ ۳۵۵ھ کو بغداد میں پیدا ہوئے، آپ کے والدین سید تھے اس لئے آپ کو ’’شریف‘‘ کہتے ہیں۔لقب ’’علم الہدیٰ‘‘ کے سلسلہ میں بیان کیا گیا ہے کہ سید مرتضیؒ کے معاصر ایک بزرگ نے حضرت امیرالمومنین علیہ السلام کو خواب میں دیکھا کہ آپؑ سید مرتضیٰ کو ’’علم الہدی‘‘ کے لقب سے پکارتے تھے۔ اس طرح آپ کو اس لقب سے نوازا گیا۔
جناب سید مرتضی ؒاور ان کےبھائی جناب سید رضیؒ نے ادبیات اور مبادی کی تعلیم اس دور کے ادیب وشاعر ابن نباتہ سعدی سے حاصل کی۔ علم فقہ و علم اصول کے لئے اس دور کے بزرگ عالم تشیع جناب شیخ مفید علیہ الرحمہ کے سامنے زانوئے ادب تہ کیا ۔ اس کے علاوہ آپ کے اساتذہ میں شیخ صدوقؒ کے بھائی جناب حسین بن علی بن بابویہؒ، أبوالحسن أحمد بن محمد بن عمران معروف بہ ابن جندی بغدادیؒ،أبوالحسن أو (أبوالحسین) علی بن محمد کاتبؒ، سہل بن أحمد دیباجیؒ اور أحمد بن محمد بن عمران کاتبؒ وغیرہ ہیں۔
جناب شیخ مفید ؒ سے کسب فیض کے سلسلہ میں وہ مشہور خواب جو زباں زد خاص و عام ہے کہ جناب شیخ مفیدؒ نے خواب دیکھا کہ خاتون جنّت حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا اپنے دونوں بیٹوں حسنین کریمین سلام اللہ علیہما کے ہمراہ تشریف لائیں اور فرمایا: اے شیخ! تم میرے ان دونوں بیٹوں کو تعلیم دو۔
صبح میں جب آپ اپنے شاگردوں کو تعلیم دے رہے تھے اسی وقت جناب سید مرتضیؒ و جناب سید رضیؒ کو لے کر ان کی والدہ تشریف لائیں اور فرمایا: اے شیخ! میرے بیٹوں کو آپ تعلیم دیں ۔
یہ سننا تھا کہ شیخ مفیدؒ کو شب کا خواب یاد آگیا ۔ ظاہر ہے کہ جسے بضعۃالمصطفی حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا اپنا بیٹا کہیں اور ان کی تعلیم و تربیت کا اہتمام فرمائیں تو ان کے سلسلہ میں لب کشائی کرنا سورج کو چراغ دکھانے کے مترادف ہوگا۔
جناب شیخ مفید ؒنے جناب سید مرتضیؒ اور جناب سید رضیؒ کو اس طرح زیور تعلیم و تربیت سے آراستہ کیا کہ یہ حضرات استاد کی زندگی ہی میں مسند تدریس کی زینت بن گئے بلکہ جناب سید مرتضیؒ اپنے استاد کے جانشین ہو گئے اور ان کے علمی و فقہی آثار کو پایۂ تکمیل تک پہنچایا۔
آپ علم کلام، فقہ، اصول، تفسیر، فلسفہ، نجوم، فلکیات اورادبیات کے ماہر اور اس میں نئی جہت اور ترقی عطا فرمائی۔
دینی اور علمی خدمات کے علاوہ آپ نے سماجی و سیاسی خدمات بھی انجام دی۔آپ کی نظر میں ظالم حکمران کے ساتھ تعاون کرنا اگر عقلاً اور شرعاً کسی فائدہ کا حامل ہو جیسے ظلم کو روکا جا سکتا ہو یا عدل و انصاف قائم کیا جا سکتا ہو یا احکام الٰہیہ کا نفاذ کیا جاسکتا ہو تو جائز ہے۔
جناب سید مرتضی ؒ نے جس طرح علوم کو نئی جہت دی اور انھیں ترقی کے راستوں پر گامزن کیا اسی طرح طلاب علوم دینیہ کی معیشت پر بھی خاص توجہ دیتے اور انھیں وظیفہ و مشاہرہ دیتے تا کہ وہ دنیوی الجھنوں سے آزاد ہو کر علمی مدارج طے کرسکیں۔ شاید طلاب کو وظیفہ دینے کی سنت آپ ہی نے قائم کی۔
آپ نے اپنے شاگردوں کہ جنکی علمی استعداد اور صلاحیت اچھی ہے اگر ان کی مدد کی جائے تو وہ دین کے لئے مزید مفید واقع ہوں گے تو ایک کو ۱۲ ؍دینار اور دوسرے کو ۸ ؍دینار ماہانہ شہریہ دیتے ۔ جسکی کو ۱۲ ؍دینار ماہانہ شہریہ دیتے وہ شیخ الطائفہ جناب شیخ طوسی ؒ تھے جنھوں نے بعد میں دو ایسی قیمتی کتابیں لکھیں جو مذہب تشیع کی چار اہم اور بنیادی کتابوں یعنی کتب اربعہ میں شامل ہوئیں۔
دوسرے شاگرد جناب ابن البرّاجؒ تھے۔ اگر آپ نے شاگردوں کی اس طرح تربیت نہ کی ہوتی تو آج ہم شیخ طوسیؒ جیسے عالم و فقیہ سے محروم ہوتے ۔ نہ ان کی کتابیں ہوتیں اور نہ ان کا قائم کردہ عظیم حوزۂ علمیہ نجف اشرف ہوتا۔
منقول ہے کہ ایک بار قحط پڑا اورلوگ بھوکوں مرنے لگے تو ایک یہودی وظیفہ کی لالچ میں آپ کے درس میں شامل ہونے لگا آپ اسے علم نجوم کے ساتھ دینی تعلیم و تربیت سے بھی آراستہ کرتے نیز وظیفہ دیتے تا کہ وہ اور اس کے گھر والے بھوکے نہ رہیں اور یہی تعاون اور تعلیم و تربیت کا نتیجہ تھا کہ وہ بعد میں مسلمان ہو گیا۔ اسی طرح آپ نے فقہاء کے لئے جائیداد وقف کی تا کہ علم و اجتہاد کاسلسلہ رکنے نہ پائے۔
لیکن افسوس صد افسوس یہ پرچم ہدایت اورپاسبان دین ۲۵ ربیع الاول ۴۳۶ھ کو بغداد میں غروب ہو گیا۔
آپ نے وصیت فرمائی کہ آپ کی تمام نمازیں دوبارہ پڑھی جائیں ۔ یہ سن کر لوگوں کو بہت تعجب ہوا اور سبب پوچھا تو آپ نے فرمایا :بیشک میں نماز کا عاشق ہوں اور مجھے نماز پڑھنا پسند ہے لیکن یہ خیال بھی آتا ہے کہ کہیں کوئی نماز فقظ اپنے سکون کے لئے نہ پڑھی ہو کہ جس میں محبت معبود کم ہو لہٰذا میری تمام نمازیں دوبارہ پڑھی جائیں۔