۱ آذر ۱۴۰۳ |۱۹ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 21, 2024
صلح امام حسن علیہ السلام

حوزه/ ممکن ہے بعض ذہنوں میں یہ شبہہ پیدا ہو کہ آخر اس صلح کا کیا نتیجہ ہوا کہ جسکی کسی بھی شرط پر عمل نہیں ہوا؟

تحریر: مولانا سید علی ہاشم عابدی 

حوزہ نیوز ایجنسی | اللہ تبارک و تعالیٰ نے نہ انسان کو بیکار پیدا کیا اور نہ ہی پیدا کر کے اسے لاوارث چھوڑا ہے۔ بلکہ جہاں انسانی خلقت میں اس نے حکمتیں رکھیں اور خاص اہتمام کیا وہیں اس کی ہدایت کا بھی خاص انتظام کیا اور انبیاء و مرسلین کی بعثت اور کتب و صحف آسمانی کا نزول اہتمام ہدایت کے سلسلہ کی کڑیاں تھیں۔ ختم نبوت کے بعد بھی رحمٰن و رحیم پردوردگار نے انسان کو بے سہارا نہیں چھورا بلکہ سلسلۂ امامت کے ذریعہ اس کی ہدایت کا بندوبست کیا۔ اور یہ مبالغہ نہیں بلکہ حقیقت ہے کہ غیبت معصوم میں بھی اس نے ہدایت کا اہتمام اپنے ایسے بندوں کے سپرد کیا جو نہ فقط علوم ائمہ علیھم السلام کے عالم بلکہ انکا کردار بھی کردار معصوم سے اتنا قریب ہے کہ معصوم امام نے فرمایا صیانت نفس و پرهیزگاری، دین کی حفاظت، خواہشات نفسانی کی مخالفت اور مولا کی اطاعت ان فقہاء کا طرہ امتیاز ہے یعنی یہ میدانِ جہادِ اکبر کے غازی و مجاہد ہیں۔   
لیکن یاد رہے کہ اللہ معبود ہے اور ہم اس کے عبد ہیں۔ یعنی ہم اللہ کے بندے اور اس کے مطیع و فرمانبردار ہیں۔ منزل اطاعت میں عبد پر لازم ہے کہ مولا کی بغیر چوں و چرا اطاعت کرے ، عبد کو حق نہیں کہ وہ مولا کے فیصلہ پر اعتراض کرے ۔ وہ بھی اگر مولا خود قادر مطلق پروردگار ہو ۔
 ممکن ہے بعض اوقات ہم وجہ نہ سمجھ سکیں کہ آخر اللہ نے شیطان کو مہلت کیوں دی؟ فرعون کی رسّی کیوں ڈھیلی رکھی؟ اسی طرح نمرود و شداد و ہامان وغیرہ۔۔۔  لیکن جب اللہ نے رسّی کسی تو خود ان لوگوں کی بھی سمجھ میں آ گیا کہ قادر مطلق خدا کون ہے اور اسی طرح سب کی سمجھ میں آ گیا کہ حقیقی معبود وہی خدائے واحد و احد ہے۔ 
اللہ نےجس طرح اپنی اطاعت بندوں پر واجب کی ہے اس طرح اپنے رسول (صلی اللہ علیہ و آلہ) اور اولی الامر کی بھی اطاعت بندوں واجب کی ہے :یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَطِیْعُوا اللّٰهَ وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَ اُولِی الْاَمْرِ مِنْكُمْۚ  (سورہ نساء آیت ۵۹) 
اس آیت کی روشنی میں جس طرح اللہ کی بغیر کسی قید وشرط کے اطاعت واجب ہے اسی طرح رسول و اولی الامر کی بھی اطاعت واجب ہے اور جب اللہ نے ان کی اطاعت کو اپنی اطاعت کے ہمراہ رکھا ہے تو ان ذوات مقدس کی عصمت بھی ثابت ہوتی ہے کہ وہ قادر و حکیم کبھی گنہگار کو نہ اپنا قرب عطا کرے گا اور نہ اس کی اطاعت فرض کرے گا تا کہ بندے کو نافرمانی کا بہانہ نہ رہے۔ 
اللہ و رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) تو سب جانتے ہیں لیکن یہ اولی الامر کون ہیں جنکی اطاعت ہم پر فرض ہے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ سے پوچھا گیا کہ یہ اولی الامر کون ہیں؟ آپ نے فرمایا میرے بعد ائمہ جن میں اوّل علی (علیه السلام) ہیں اس کے حسن مجتبی (علیہ السلام) پھر حسین (علیہ السلام) ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور آخری امام مھدی قائم (علیہ السلام) ہیں۔ (طوسی، محمد بن حسن، التبیان فی تفسیر القرآن،‌ بیروت، داراحیاء التراث العربی) رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:’’  الحسن والحسين إمامان قاما أو قعدا‘‘ یعنی امام حسن و امام حسین علیہما السلام امام ہیں چاہے قیام کریں چاہے صلح کریں۔ (بحار الانوار 43/291 و 44/2 ) اس ارشاد نبوی کے بعد سبطین مصطفی (علیہماالسلام) کی  بلا قید و شرط اطاعت سب پر واجب ہے۔ چاہے ہمیں صلح و جنگ کے اسرار سمجھ میں آئیں یا نہ آئیں۔ 
انہیں عدم فہمی کے مسائل میں سے ایک اہم مسئلہ امام حسن علیہ السلام کی صلح ہے ۔ جو کل بھی بہت سوں کو ہضم نہ ہوئی اور آج بھی یہ مسئلہ اکثر کے لئے قابل فہم نہیں ۔عوام تو عوام خود خواص کے لئے یہ مسئلہ قابل حل نہ تھا اور کتنوں نے خود امام عالی مقام سے ہی پوچھ لیا کہ آپ نے صلح کیوں کی؟ !
آپؑ نے فرمایا: اگر رسول اللہ ﷺ کوئی حکم دیں تو مانو گے؟ انھوں نے کہا: ہاں تو امامؑ نے فرمایا : رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ’’حسن ؑ و حسینؑ امام ہیں چاہے صلح کریں یا جنگ کریں ‘‘ یہ سننا تھا کہ سوال کرنے والے خاموش ہو گئے۔ 
حقیقت ہے اگر ہم اپنے عقائد پر توجہ رکھیں کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنی اطاعت کی طرح ہم پر رسولؐ و ائمہؐ کی بھی اطاعت بلا قید و شرط ہم پر واجب کی ہے نہ فقط امام حسن علیہ السلام بلکہ کسی بھی معصوم کے سلسلہ میں کبھی ہمارے ذہن میں کوئی شبہہ پیدا ہی نہیں ہو گا۔ 
لیکن آخر کیوں امام حسن مجتبیٰ علیہ السلا م نے صلح فرمائی ، صلح کے اسباب و وجوہات کیا تھے؟ 
تو تاریخی کتب سے چند باتیں سامنے آتی ہیں کہ امام حسن علیہ السلام نے کیوں صلح فرمائی۔جن کی جانب ہم صرف اشارہ کر رہے ہیں: 
دین کی بقا، اپنی اور شیعیان آل محمدؐ کا جانی تحفظ، عوامی حمایت کا فقدان جیسا خود امام علیہ السلام نے اس جانب اشارہ فرمایا، لوگوں کا جنگ سے اُکتا جانا، لشکر کی بے وفائی، لشکر کے کمانڈروں کی خیانتیں، جنگ و خونریزی سے بچنا، خوارج کے خطرات کو روکنا۔ وغیرہ۔۔۔
مذکورہ وجوہات کے سبب امام حسن علیہ السلام نے صلح فرمائی لیکن ایسے موقع پر بھی دشمن اتنا خوف زدہ تھا کہ اس نے آپ کے ہی شرائط پر صلح کی  اگر چہ بعد میں سب کا انکار کیا اور کسی بھی شرط پر عمل نہیں کیا۔ 
صلح کے شرائط جو آپ نےقرار دئیے وہ مندرجہ ذیل ہیں: 
حاکم شام کتاب خدا اور سنت رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر عمل کرے گا۔ 
حضرت امیرالمومنین امام علی علیہ السلام پر سب و شتم بند کیا جائے۔ 
حاکم شام اپنے بعد کے لئے کسی کو جانشین معین نہیں کر سکتا۔ اس کے بعد امام حسن علیہ السلام امت کے امیر ہوں گے۔ اگر وہ نہ ہوئے تو امام حسین علیہ السلام امت رسولؐ کے امیر ہوں گے۔  (اس شرط کے مطابق یزید کو مطالبہ بیعت کا حق نہ تھا بلکہ اسے خود امام حسین علیہ السلام کی بیعت کرنا چاہیئے تھی )
ہر انسان ہر جگہ امن و امان سے رہے گا۔ 
حاکم شام امام علیہ السلام کے اصحاب و انصار کو مکمل تحفظ دے گا۔
وغیرہ ۔۔۔۔۔۔ 
ممکن ہے بعض ذہنوں میں یہ شبہہ پیدا ہو کہ آخر اس صلح کا کیا نتیجہ ہوا کہ جسکی کسی بھی شرط پر عمل نہیں ہوا؟ تو جیسا کہ ابتدائے کلام میں ذکر کیا گیا کہ اس ڈھیل سے حاکم شام کی حقیقت لوگوں پر اور واضح ہو گئی ۔ اگر چہ اس کے سیاہ کارناموں سے کتنی بے گناہ جانیں چلی گئیں لیکن صاحبان بصیرت کے لئےاس کی حقیقت کاملا آشکار ہو گئی۔ 
یاد رہے ائمہ معصومین علیہم السلام اللہ کی جانب سے اس کی مخلوقات پر حجت اور امام و رہبر ہیں جو کسی بھی صورت قابل عزل و نصب نہیں لیکن دنیوی حکومت لوگوں کی حمایت سے ہی قائم ہو سکتی ہے ۔ لہٰذا امام حسن علیہ السلام حکم خدا و نص نبوی سے امام و رہبر تھے کوئی مانے یا نہ مانے۔ لیکن جب لوگوں نے برحق امام کی اطاعت و حمایت نہیں کی تو انھوں نے اسلام کی بقا کی خاطر صلح فرمائی۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .