۷ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۷ شوال ۱۴۴۵ | Apr 26, 2024
ماہ رمضان المبارک کے دوسرے دن کی دعا

حوزہ/ خدایا! مجھے (اس مہینے میں) اپنی خوشنودی سے قریب فرما اور مجھے اپنی ناراضگی اور انتقام سے دور رکھ، اور مجھے اپنی آیات (قرآ­ن) کی تلاوت کی توفیق عطا فرما، اپنی رحمت سے اے سب سے زیادہ رحم کرنے والے۔ 

تحریر: مولانا سید علی ہاشم عابدی

حوزہ نیوز ایجنسیماہ رمضان کے دوسرے دن کی دعا "اَللّهُمَّ قَرِّبْني فيہ اِلى مَرضاتِكَ وَجَنِّبْني فيہ مِن سَخَطِكَ وَنَقِماتِكَ وَوَفِّقني فيہ لِقِرائَة اياتِِكَ بِرَحمَتِكَ يا أرحَمَ الرّاحمينَ"

خدایا! مجھے (اس مہینے میں) اپنی خوشنودی سے قریب فرما اور مجھے اپنی ناراضگی اور انتقام سے دور رکھ، اور مجھے اپنی آیات (قرآن) کی تلاوت کی توفیق عطا فرما، اپنی رحمت سے اے سب سے زیادہ رحم کرنے والے۔

جب بندے نے خدا سے حقیقی روزہ داروں اور نمازیوں میں شامل ہونے کی دعا مانگ لی۔ خواب غفلت سے بیداری اور اپنے کئے گناہوں اور جرائم کو معاف کرا لیا تو اس منزل پر پہنچ گیا کہ اللہ کی رضا اور خوشنودی سے قریب ہو جائے اور اسکی ناراضگی اور انتقام سے دور ہو جائے۔ لیکن یہ توفیق بھی اسی وقت میسر ہوگی جب اس ارحم الراحمین کا رحم شامل حال ہو جائے۔
کوشش کرنی ہو گی کہ وہی عمل انجام دیں جس سے خدا راضی ہو اور ان کاموں سے دور رہیں جس سے اللہ ناراض ہوتا ہے۔
روایت میں ہے کہ اگر یہ جاننا چاہتے ہو کہ خدا تم سے راضی ہے یا نہیں تو یہ دیکھو کہ تم خود اس سے راضی ہو یا نہیں۔
اللہ کی رضا پر راضی ہونے کا مطلب یعنی ہر حال میں چاہے مسرت کے لمحات ہوں یا غم کی گھڑیاں ہوں، انسان اپنے پروردگار سے راضی رہے۔ نہ خوشی میں تکبر کا شکار ہو جائے اور نہ غموں کا سیلاب اس کے ایمان کو بہا سکے۔ تفسیر "روض الجنان و روح الجنان" میں روایت نقل ہوئی کہ اولیائے خدا میں سے ایک ولی تیس برس تک شدید بیمار رہے۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا آپ نہیں چاہتے کہ صحتیاب ہو جائیں؟ کیا آپ اس بیماری سے رنجیدہ نہیں ہیں؟ تو انہوں نے ناراضگی کا کوئی اظہار نہیں۔ کیوں کہ انہوں نے اللہ کی مرضی کو معیار بنایا تھا اس لئے کوئی ایسی بات نہیں کہی جس سے ناراضگی کا اظہار ہو۔ اگر کوئی اور ہوتا تو اتنے گلہ و شکوے کرتا کہ سننے والے پر بار ہو جاتا۔
اسی طرح روایت ہے کہ ایک دن امام محمد باقر علیہ السلام نے جلیل القدر صحابی جناب جابر جن کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، امیرالمومنین علیہ السلام ، امام حسن علیہ السلام، امام حسین علیہ السلام ، امام زین العابدین علیہ السلام اور امام محمد باقر علیہ السلام کی بزم میں رہنے کا شرف حاصل تھا۔ امام علیہ السلام نے ان سے پوچھا۔ اب آپ کا کیا کہنا ہے؟ جناب جابر نے عرض کیا فرزند رسول! اب میں تنگدستی کو مالداری پر فوقیت دیتا ہوں، بیماری کو صحت پر اور موت کو حیات پر ترجیح دیتا ہوں۔ امام باقر علیہ السلام نے فرمایا: لیکن میرے نزدیک معیار اللہ کی رضا ہے۔ تنگدستی ہو یا مالداری، بیماری ہو یا صحت، موت ہو یا حیات، ہم ہر حال میں اللہ کا شکر ادا کرتے ہیں۔
معصومین علیہم السلام کی احادیث و سیرت عالم بشریت کے لئے اسوہ حسنہ ہے۔ ان کے نزدیک ہر حال میں اللہ کی رضا ہی معیار رہی ہے۔ اسی لئے جہاں فضیلتوں پر اللہ کا شکر ادا کیا وہیں مصیبتوں پر بھی شکر خدا کیا۔ اشارہ پر سورج پلٹا تب بھی مولا علی علیہ السلام نے اللہ کا شکر کیا اور جب سر پر ضربت لگی تب بھی اسی معبود کی حمد کی کہ رب کعبہ کی قسم میں کامیاب ہو گیا۔
مقاتل کی روایت ہے کہ جیسے جیسے عاشور کا دن ڈھل رہا تھا مولا حسین علیہ السلام کا چہرہ مبارک منورتر ہوتا جا رہا تھا اور آخر جب تمام قربانیاں پیش کر دیں تو سجدہ آخر میں سر رکھ فرمایا: خدایا! میں تیری رضا پر راضی ہوں۔ ائے مصیبت زدہ لوگوں کی فریاد سننے والے۔
امام حسین علیہ السلام نے کربلا میں اپنے عمل سے جو آخری پیغام دیا وہ ہر حال میں خدا کی رضا پر راضی رہنا ہے۔
روایت میں ہے کہ خدا کو تین لوگوں پر تعجب ہوتا ہے۔ پہلے وہ لوگ ہیں جو نماز پڑھتے اور یہ جانتے ہیں کہ خدا کے سامنے کھڑے ہیں لیکن پھر بھی ان کے دلوں میں غیر اللہ کا خیال آتا ہے اور دل نماز میں نہیں لگتا.
دوسرے وہ لوگ ہیں جو ہر روز خدا کی دئیے رزق کو کھاتے ہیں لیکن انہیں کل کی فکر رہتی ہے۔ تیسرے وہ لوگ ہیں جو ہنستے ہیں لیکن انہیں نہیں معلوم کہ خدا ان سے راضی ہے بھی کہ نہیں۔

بندے کے لئے صرف مالک کی خوشنودی کافی نہیں بلکہ اس کے غضب اور انتقام سے اجتناب بھی لازم ہے۔ یعنی جہاں قدم پر قدم پر، لمحہ بہ لمحہ اللہ کی خوشنودی ہمارے پیش نظر ہو وہیں دوسری جانب ہم ہر لمحہ متوجہ رہیں کہیں کوئی ایسا کام انجام نہ پا جائے، ایسی کوئی بات زبان سے جاری نہ ہو جائے جس سے پروردگار ناراض ہو جائے اور اس بات کا خیال صرف زبان اور عمل تک نہیں بلکہ اشارہ و کنایہ میں بھی ضروری ہو گا۔
ہمیں ہمیشہ متوجہ رہنا ہوگا کہ کس کام میں اللہ کی رضا ہے اور کس میں اس کی ناراضگی اور غضب ہے۔ معصومین علیہم السلام نے اس سلسلہ میں بشریت کی رہنمائی کرتے ہوئے مختلف اسباب بیان فرمائے ہیں۔ جیسے حضرت امام محمد تقی علیہ السلام نے فرمایا: بندے کے تین کام ایسے ہیں جس سے رب راضی ہوتا ہے۔ استغفار، تواضع و انکساری اور کثرت سے صدقہ دینا۔
اسی طرح اللہ کی ناراضگی اور غضب کے اسباب بھی معصومین علیہم السلام کی احادیث میں بیان ہوئے ہیں۔ جنمیں سے ایک انتہائی اہم ہے کہ انسان دوسرے انسان کو خوش کرنے کے لئے اللہ کی نافرمانی کرے اور بندے کو خوش کرنے کے لئے اللہ کو غضبناک کرے۔ جیسے شام میں یزید پلید کے درباری مقرر نے اہلبیت علیہم السلام خصوصا امام حسین علیہ السلام اور اسیران کربلا کی شان میں گستاخی کی اور یزید اور اس کے ساتھیوں کی تعریف کی تو حجت کبریاء حضرت امام زین العابدین علیہ السلام نے فرمایا: تجھ پر وائے ہو۔ تو نے مخلوق کی خوشی کے لئے خالق کو ناراض کیا۔تیرا ٹھکانہ جہنم ہے۔
"وَوَفِّقني فيہ لِقِرائَة اياتِِكَ بِرَحمَتِكَ يا أرحَمَ الرّاحمينَ"
اور مجھے اپنی آیات (قرآن) کی تلاوت کی توفیق عطا فرما، اپنی رحمت سے، اے سب سے زیادہ رحم کرنے والے۔
تقرب خدا کے اسباب میں سے ایک اہم سبب تلاوت قرآن کریم ہے اور معصومین علیہم السلام کی روایات میں اس کے مختلف فواید ذکر ہوئے ہیں۔جنمیں سے کچھ مندرجہ ذیل ہیں۔ گناہوں کا کفارہ، ایمان میں استحکام، خدا سے گفتگو، تلاوت قرآن سے گھر نورانی ہوتے ہیں، دلوں پر لگا زنگ ختم ہو جاتا ہے، قرآن انسان کو فتنوں سے بچاتا ہے۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .