۹ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۹ شوال ۱۴۴۵ | Apr 28, 2024
ماہ رمضان کے ساتویں دن کی دعا

حوزہ/ خدایا! اس مہینے میں روزہ رکھنے اور شب زندہ داری میں میری مدد فرما، اور اس مہینے میں ہونے والے گناہوں اور لغزشوں سے مجھے دور رکھ، اور ہمیشہ اپنے ذکر کی مجھے توفیق عطا کر، اپنی توفیق کے واسطے سے اے گمراہوں کو ہدایت دینے والے۔ 

تحریر: مولانا سید علی ہاشم عابدی

حوزہ نیوز ایجنسی ماہ رمضان کے ساتویں دن کی دعا میں ہم پڑھتے ہیں۔ اَللّهُمَّ اَعِنّي فيہ عَلى صِيامِہ وَقِيامِہ وَجَنِّبني فيہ مِن هَفَواتِہ وَاثامِہ وَارْزُقني فيہ ذِكْرَكَ بِدَوامِہ بِتَوْفيقِكَ يا هادِيَ المُضِّلينَ

خدایا! اس مہینے میں روزہ رکھنے اور شب زندہ داری میں میری مدد فرما، اور اس مہینے میں ہونے والے گناہوں اور لغزشوں سے مجھے دور رکھ، اور ہمیشہ اپنے ذکر کی مجھے توفیق عطا کر، اپنی توفیق کے واسطے سے اے گمراہوں کو ہدایت دینے والے۔

اَللّهُمَّ اَعِنّي فيہ عَلى صِيامِہ وَقِيامِہ
خدایا! اس مہینے میں روزہ رکھنے اور شب زندہ داری میں میری مدد فرما۔

گذشتہ ابحاث میں ذکر ہو چکا ہے کہ اللہ کی بندگی بغیر اس کی مدد کے ممکن نہیں ہے۔ چاہے نماز ہو یا روزہ یا کوئی اور عبادت، سب میں اس کی مدد لازمی ہے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اس دعا میں سب سے پہلے بارگاہ الہی میں روزہ رکھنے اور شب زندہ داری کی درخواست فرمائی۔ حضورؐ کی دعا سے روزہ کی اہمیت کا اندازہ ہوتا کہ یہ عبادت انسان کے لئے کتنی ضروری اور مفید ہے۔ ظاہرا ً روزہ عمل نہیں بلکہ ترک عمل کی دعوت دیتا ہے۔ انسان کو اذان صبح سے اذان مغرب تک نہ کچھ کھانا ہے اور نہ کچھ پینا ہے۔ اسی طرح فقہاء نے جو مبطلات روزہ بتائے ہیں اس میں بھی عمل نہیں ترک عمل ہے۔

حکیم پروردگار کی حکمتوں کا ادراک عقل بشری کے بس کی بات نہیں کہ وہ سمجھ سکے کہ اس نے اگر کسی بات کا حکم دیا ہے تو اس کے کیا فائدے ہیں اور اگر کسی بات سے روکا ہے تو اس کے کیا نقصانات ہیں۔ لیکن جتنا قرآن کے ظواہر اور احادیث معصومین علیہم السلام میں بیان ہوا ہے۔ اگر ہم اسی میں غور کر لیں تو ہمارے لئے بہت سے مسائل کا سمجھنا آسان ہو جائے گا۔

روزہ باعث عزت و کرامت۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے ’’يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّا خَلَقْنَاكُم مِّن ذَكَرٍ وَأُنثَى وَجَعَلْنَاكُمْ شُعُوبًا وَقَبَائِلَ لِتَعَارَفُوا إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِندَ اللَّهِ أَتْقَاكُمْ‘‘ اے لوگو! ہم نے تمہیں ایک مرد (حضرت آدمؑ) اور ایک عورت (جناب حواؑ) سے پیدا کیا اور تمہیں مختلف خاندانوں اور قبیلوں میں قرار دیا تا کہ تم پہچانے جاؤ ۔ تم میں عزت والا اور کرامت والا وہی ہے جو سب سے زیادہ تقویٰ والا ہے۔ (سورہ حجرات، آیت ۱۳) اس آیت میں اللہ نے اسی انسان کو صاحب عزت و کرامت بتایا ہے جس کے پاس تقویٰ زیادہ ہو۔ اور جب ہم روزہ کے سلسلہ میں حکم خدا پر نگاہ کرتے ہیں ’’يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِينَ مِن قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ‘‘ اے ایمان والو! روزہ اسی طرح تم پر لکھ دیا گیا ہے (فرض کر دیا گیا ہے) جس طرح تم سے پہلے والوں پر لکھ دیا گیا تھا۔ تاکہ تم پرہیزگار بن جاؤ۔ (سورہ بقرہ۔ آیت ۱۸۳) مذکورہ آیات کی روشنی میں یہ ہمارے لئے واضح ہو جاتا ہے کہ اگر انسان عزیز و کریم خدا کا با عزت اور با کرامت بندہ بننا چاہتا ہے تو اس کے لئے ایک اہم ذریعہ روزہ ہے ۔ روزہ جہاں ایک عبادت ہے وہیِ انسان کے لئے باعث عزت و کرامت ہے۔

روزہ صبر و استقامت کا حوصلہ دیتا ہے۔ استقامت وہ مرتبہ کہ جسے نصیب ہو جاے تو ملائکہ اس کو سکون و مسرت اور جنت کی بشارت دیتے ہیں۔ ’’إِنَّ الَّذِينَ قَالُوا رَبُّنَا اللَّهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوا تَتَنَزَّلُ عَلَيْهِمُ الْمَلَائِكَةُ أَلَّا تَخَافُوا وَلَا تَحْزَنُوا وَأَبْشِرُوا بِالْجَنَّةِ الَّتِي كُنتُمْ تُوعَدُونَ‘‘ بے شک جن لوگوں نے کہا کہ ہمارا پروردگار اللہ ہے اور پھر اس پر ثابت قدم رہے ان پر فرشتے نازل ہوتے ہیں (ان سے کہتے ہیں کہ) تم نہ ڈرو اور نہ غم کرو اور اس جنت کی بشارت پر خوش ہو جاؤ جس کا تم سے وعدہ کیا گیا ہے۔ (سورہ فصلت ، آیت ۳۰) روزہ ایک ایسی عبادت ہے جو انسان کو صبر و استقامت کا درس دیتی ہے ۔ انسان کے سامنے چاہے جتنی ہی محبوب غذا کیو ں نہ ہو ، جتنی بھی شدید پیاس کیوں نہ لگی ہو لیکن اگر وہ روزہ سے ہے تو اسکی خواہشات مغلوب ہو جائیں گی، اسکی آرزوئیں شکست کھا جائیں گی اور اسے فتح نصیب ہو گی۔ جیسا کہ روایت میں ہے جب پریشانیاں اور مشکلات تمہارے دامن گیر ہوں اور دل مغموم ہو تو روزہ سے ان کا علاج کرو۔

یہ روزہ ہی ہے جو انسان کو درس اخلاص دیتا ہے کہ کیسے اللہ کے لئے انسان کئی گھنٹوں تک بھوکا پیاسا رہ سکتا ہے ، یہ روزہ ہی جو انسان کو دوسرے انسانوں کا درد سکھاتا ہے کہ جہاں بھوک و پیاس سے قیامت کی بھوک و پیاس کی یاد آئے وہیں دوسرے انسانوں کی بھی بھوک و پیاس تمہارے پیش نظر رہے اور انکی مدد کرو۔ خدا ہمیں روزہ رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔

’’وَ جَنِّبْنِی فِیهِ مِنْ هَفَوَاتِهِ وَ آثَامِهِ‘‘ اور اس مہینے میں ہونے والے گناہوں اور لغزشوں سے مجھے دور رکھ۔ یعنی خدایا! ہمیں ہفوات اور آثام سے حفاظت فرما۔ ہفوات جمع ہے ہفوہ کی ۔ ہفوہ وہ بری اور رزیل صفت ہے کہ جو انسان میں ایسے وسوے اور خیالات ڈال دیتی ہے کہ انسان انسانیت سے خارج ہو جاتا ہے۔ یہی ہفوات ، وسوسے اوربرے خیالات ہیں جو وقت بندگی انسان کے ذہن کو بندگی سے موڑ دیتے ہیں ۔ انسان ظاہرا نماز پڑھ رہا ہوتا ہے لیکن اس کا دل نماز میں نہیں ہوتا۔ معصومین علیہم السلام کی روایات کی روشنی میں یہ ہفوات اور وسوسے شیطان کے حربے ہیں جو انسان کو راہ مستقیم سے دور کرتے ہیں ۔ صاحب المیزان علامہ طباطبائی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے استاد آیۃ اللہ العظمیٰ سید علی قاضی رحمۃ اللہ علیہ سے ہفوہ سے بچنے کا طریقہ پوچھا تو انہوں نے فرمایا۔ یہ کام مشکل ضرور ہے لیکن ناممکن نہیں۔ اگر خواب میں وسوسوں سے دوری نہیں کر سکتے تو کم از کم بیداری میں خیال رکھو کہ شیطانی وسوسے تمہارا شکار نہ کریں اور اگر بیداری میں بھی مشکل ہو تو کم از کم عبادات کے وقت اپنے کو ان وسوسوں سے ضرور محفوظ رکھو۔

شیطان انسان کو کسی برے کام پر مجبور نہیں کر سکتا صرف ہفوات اور وسوسوں کے ذریعہ بہکاتا ہے۔ اگر انسان نے ہفوات اور وسوسے سے اپنی حفاظت کر لی تو اثم و گناہ سے بھی محفوظ ہو جائے گا۔
’’ وَارْزُقني فيہ ذِكْرَكَ بِدَوامِہ ‘‘ اور ہمیشہ اپنے ذکر کی مجھے توفیق عطا کر۔

ذکر خدا زبان سے بھی ہوتا ہے اور دل سے بھی ہوتا ہے۔ اگر یہ ذکر دل سے ہو گا تو زبان بھی ذاکر ہو گی ۔ لیکن اگر صرف زبان سے ذکر ہو گا تو یہ ذکر وبال جان بن جاتا ہے۔

اللہ کی جتنی بھی مخلوقات ہیں سب اسکی تسبیح اور ذکر کرتی ہیں ۔ جیسا کہ قرآن کریم میں اعلان ہو رہا ہے ’’يُسَبِّحُ لِلَّهِ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ الْمَلِكِ الْقُدُّوسِ الْعَزِيزِ الْحَكِيمِ‘‘ وہ سب چیزیں جو آسمانوں میں اور زمین میں ہیں اس اللہ کی تسبیح کرتی ہیں جو بادشاہ ہے (اور نقائص سے) پاک ہے ، صاحب عزت اور صاحب حکمت ہے ۔ (سورہ جمعہ ۔ آیت ۱)

’’بِتَوْفِیقِکَ یَا هَادِیَ الْمُضِلِّین‘‘ اپنی توفیق سے اے گمراہوں کو ہدایت کرنے والے۔

بندگی کے لئے سب سے اہم چیز توفیق ہے اور یہ توفیق بھی اللہ ہی سے دستیاب ہوتی ہے۔ یہ توفیق خدا ہی ہے ایک لمحہ کی فکر نے انسان کو حرملہ کے لشکر سے نکال کر دنیا و آخرت میں حرؑ بنا دیا۔ لیکن اگر خدا نخواستہ توفیق سلب ہو گئی تو پوری زندگی اطاعت میں بسر ہونے کے باوجود انسان کا مقدر جہنم بن جاتا ہے۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .