تحریر: مولانا سید علی ہاشم عابدی
حوزہ نیوز ایجنسی । ماہ رمضان کے چوتھے دن کی دعا میں پڑھتے ہیں۔ ’’اَللّهُمَّ قَوِّني فيہ عَلى اِقامَة اَمرِكَ وَاَذِقني فيہ حَلاوَة ذِكْرِكَ وَاَوْزِعْني فيہ لِأداءِ شُكْرِكَ بِكَرَمِكَ وَاحْفَظْني فيہ بِحِفظِكَ و َسَتْرِكَ يا اَبصَرَ النّاظِرينَ‘‘
اے معبود! آج کے دن مجھے اپنے حکم کی تعمیل کی طاقت عطا فرما اور مجھے اس دن اپنے ذکر کی لذت عطا کر اور آج کے دن مجھے اپنا شکر ادا کرنے کی توفیق دے اور مجھے اپنی پردہ پوشی اور نگہداری میں محفوظ رکھ۔ اے دیکھنے والوں میں سب سے بہتر دیکھنے والے۔
انسان کے لئے سب سے اہم یہ ہے کہ اس کا معبود اس سے راضی ہو۔ معبود کی رضا، بغیر اس کے احکام کی تعمیل اور اس کے اوامر کے قیام کے ممکن نہیں ہے۔ یہ تعمیل احکام بھی بغیر اس کی مدد کے ممکن نہیں ۔
رسول اللہ صلی علیہ و آلہ وسلم نے اس دعا میں سب سے پہلے اسی اہم مدد کا مطالبہ کیا ہے اور آپ نے اس دعا سے رہتی دنیا تک بتا دیا کہ اللہ کی اطاعت اسی وقت ممکن ہے جب وہ اطاعت کی قوت عطا کرے۔’’اَللّهُمَّ قَوِّني فيہ عَلى اِقامَة اَمرِكَ ‘‘ خدایا: مجھے اپنے امر کے قیام کی طاقت عطا فرما۔ اس طاقت سے صرف ظاہری اور جسمانی طاقت نہیں بلکہ اس سے مراد روحانی طاقت اور توفیق ہے۔ ممکن ہے کہ ایک انسان جسمانی لحاظ سے کمزور ہو اور سن رسیدہ ہو لیکن وہ منزل اطاعت میں طاقتور جوان سے آگے ہو۔
امیرالمومنین علیہ السلام نے جب باب خیبر کو دو انگلیوں پر اٹھایا جسے دیکھ کر لوگ حیرت میں پڑ گئے کیوں کہ اسے بعد میں چالیس آدمی مل کر بھی ہلا نہیں سکے اسے تنہا امیرالمومنین ؑ نے اپنی دو انگلیوں پر اٹھا لیا تھا۔ جب آپ سے پوچھا گیا تو فرمایا کہ ہم نے یہ کام بشری قوت سے نہیں بلکہ الہی قوت سے انجام دیا ہے۔
مذکورہ روایت تو صرف ایک مثال ہے ورنہ امیرالمومنین علیہ السلام کی شجاعت تاریخ اسلام کا اہم باب ہے کہ اگر آپ کی شجاعت نہ ہو تی اسلام کا قیام ممکن نہ تھا۔ آپ ؑ نے اپنے جلیل القدر صحابی جناب کمیل کو جو دعا تعلیم کی دعائے کمیل، اس میں بھی اسی جانب اشارہ ہے ’’ یارَبِّ ، یارَبِّ! قَوِّ عَلى خدمتک جَوارِحی ‘‘ اے رب، اے رب! میرے جسم کے اعضا کو اپنی خدمت کی طاقت عطا فرما۔ ’’وَاَذِقني فيہ حَلاوَة ذِكْرِكَ ‘‘ اور ہمیں اپنے ذکر کی شیرینی کا ذائقہ نصیب فرما۔
عبادت و مناجات میں لذت محسوس کرنا بندہ اور خدا کے درمیان بہتر اور عمیق رابطے کی علامت ہے ۔ عبادات و مناجات میں لذت اسی وقت محسوس ہو گی جب انسان کی عبادتیں اخلاص پر ہوں۔ ریاکاری سے دور ہوں ۔ انبیاء و اولیاء کی تاریخ میں اس کے عملی نمونے موجود ہیں۔ جناب موسیٰ علیہ السلام چالیس دن تک کوہ طور پر دعا و مناجات میں ایسا مشغول تھے کہ آپ کو ان چالیس دنوں میں بھوک و پیاس کا کوئی احساس نہیں ہوا۔
حالت نماز میں امیرالمومنین علیہ السلام کے پیروں سے تیر نکل گیا لیکن آپ کو احساس نہ ہوا۔صرف انبیاء و اولیاءعلیہم السلام ہی نہیں بلکہ اگر عام انسان بھی اپنے اندر اخلاص پیدا کر لے تو اسے بھی ذکر خدا کی لذت کا احساس ہو جائے گا اور وہ دنیا اور اس کی ضرورتوں سے بے نیاز ہو جائےگا، جیسے شام میں جب امام حسین علیہ السلا م کی دختر نیک اختر کی قبر مبارک کی تعمیر کا کام چل رہا تھا تو جس بندہ مومن و مخلص کے ہاتھوں پر ان کا جنازہ تھا انہیں بھی تین دن کا نہ بھوک و پیاس کا احساس ہوا اور نہ کسی دوسری دنیوں ضرورت کا۔
حدیث قدسی میں ہے کہ جو عالم یا طالب علم اپنے علم پر عمل نہیں کرے گا تو خدا کا اس پر سب سے کم عذاب یہ ہو گا کہ وہ مناجات کی لذت سے محروم ہو جائے گا۔’’وَاَوْزِعْني فيہ لِأداءِ شُكْرِكَ بِكَرَمِكَ ‘‘ اور اپنے کرم سے اپنے شکر کی توفیق عطا فرما۔
صرف زبان سے شکر کرنا کافی نہیں ہے بلکہ اللہ نے جو نعمتیں ہمیں دی ہیں اس کا صحیح مصرف کریں ۔ نہ آنکھ سے گناہ کریں، نہ کان سے گناہ کریں، نہ ہاتھ پیر سے حتیٰ دل میں مالک کی نافرمانی کا خیال نہ آئے۔ کیوں کہ انسان گناہ بعد میں کرتا ہے، پہلے غیر ارادی طور پر شکر خدا سے انکار کرتا ہے۔
قرآن کریم میں اللہ تبارک و تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے ’’لَئِنْ شَكَرْتُمْ لَأَزِيدَنَّكُمْ ۖ وَلَئِنْ كَفَرْتُمْ إِنَّ عَذَابِي لَشَدِيدٌ‘‘ البتہ اگر تم شکر گزاری کرو گے تو اور زیادہ دوں گا، اور اگر ناشکری کرو گے تو میرا عذاب بھی سخت ہے۔( سورہ ابراہیم، آیت ۷) رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ کے اہلبیت علیہم السلام کی سنت بھی یہی تھی۔ منقول ہے کہ ایک شب حضورؐ عبادات و مناجات میں مصروف تھے تو جناب عایشہ نے کہا کہ یارسول اللہ ! اللہ نےتو آپ کو معاف کر ہی دیا ہے ۔ آپؐ اس کے رسول ہیں۔ حضورؐ نے فرمایا: کیا میں اللہ کا شاکر بندہ نہ بنوں۔ (اصول کافی، جلد ۳، صفحہ ۲۴۴)
’’وَاحْفَظْني فيہ بِحِفظِكَ و َسَتْرِكَ يا اَبصَرَ النّاظِرين‘‘ اور مجھے اپنی پردہ پوشی اور نگہداری میں محفوظ رکھ۔ اے دیکھنے والوں میں سب سے بہتر دیکھنے والے۔
انسان یہ دعا تو کرتا ہے لیکن اس کے معنیٰ کی جانب متوجہ نہیں ہوتا۔ روایت میں ہے کہ اگر گناہ کی بدبو محسوس ہوتی تو دو لوگ بھی ایک ساتھ نہیں بیٹھ سکتے تھے اور اگر لوگ ایک دوسرے کے عیوب سے آگاہ ہوتے تو کوئی کسی کو دفن نہیں کرتا۔
جس طرح گناہ میں بدبو ہے اسی طرح ایمان اور اطاعت میں خوشبو ہے۔ جیسے رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم جب گھر میں داخل ہوئے تو فرمایا: میں اویس کی خوشبو محسوس کر رہا ہوں۔’’ اَبصَرَ النّاظِرين‘‘ یعنی اللہ سے کوئی بات یا کوئی چیز چھپی ہوئی نہیں ہے۔ ہمارے اعمال اس کے پیش نظر ہیں۔ وہ ہمارے اعمال کا گواہ ہے۔ شاید اسی لئے روایت میں ہے کہ اس دن (قیامت) سے ڈرو ! جس دن جو (خدا) فیصلہ کرے گا وہی گواہ بھی ہو گا۔