حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، روایات کے مطابق اگر کوئی مؤمن اپنے ذمہ واجب الادا قرض ادا کرنے میں کوتاہی نہیں کرتا اور اسے ادا کرنے کا ارادہ رکھتا ہے تو اس کی موت کے بعد اللہ تعالیٰ اسے ادا کرے گا اور حقدار کو راضی کرے گا۔ امام جعفر صادق علیہ السلام سے منقول ہے کہ اگر کسی کے ذمہ کوئی چیز واجب الادا ہو بشرطیکہ اس نے اسے حلال طور پر لیا ہو اور اسے ادا کرنے کا ارادہ بھی کر رکھا ہو لیکن ایسا نہ کرسکا اور مر گیا تو خدا اسے عذاب نہیں دے گا۔ (شیخ طوسی، تهذیب الاحکام، ۱۳۶۵ش، ج۶، ص۱۸۸، ح۳۹۵ و ص۱۹۱، ح۴۱۱؛ کلینی، الکافی، ۱۴۰۷ق، ج۵، ص۹۹)
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مروی ہے کہ شہادت سے بالاتر کوئی عمل نہیں (علامه مجلسی، بحارالانوار، ۱۴۰۳ق، ج۹۷، ص۱۰) لیکن بعض روایات بتاتی ہیں کہ شہید کے خون کا پہلا قطرہ گرنے سے صرف حق اللہ والے گناہ بخشے جاتے ہیں جبکہ حق الناس معاف نہیں ہوتے۔ امام باقر علیہ السلام نے بھی فرمایا کہ شہید کے پہلے قطرہ خون سے اس کے تمام گناہ معاف ہو جاتے ہیں، سوائے قرض یا لوگوں کے حقوق کے جو ادا کرنا لازم ہیں۔(شیخ صدوق، من لایحضره الفقیه، ۱۴۱۳ق، ج۳، ص۱۸۳)
امام حسین علیہ السلام نے بھی شبِ عاشورا یاران سے فرمایا کہ اگر کسی کے ذمے لوگوں کے حقوق باقی ہیں تو وہ میرے لشکر میں نہ ٹھہرے۔ (شوشتری، احقاق الحق، ۱۴۰۹ق، ج۱۹، ص۴۳۰)
محققین کے مطابق ان روایات کا مطلب یہ نہیں کہ شہید لازماً حق الناس کی وجہ سے عذاب پائے گا بلکہ مطلب یہ ہے کہ شہادت خود بخود حق الناس کو ختم نہیں کرتی۔
سید عبدالحسین دستغیب شیرازی کے مطابق شہید بہرحال جنت میں داخل ہوتا ہے لیکن حق الناس اپنی جگہ باقی رہتا ہے۔ البتہ اگر کوئی شخص موردِ عنایتِ الٰہی ہوا تو خداوند اپنی بخشش سے صاحبانِ حق کو راضی کرے گا۔ (دستغیب شیرازی، معاد، ۱۳۵۷ش، ص۱۱۷–۱۱۸)
پس واضح ہوا کہ شہادت حقوق اللہ کے گناہوں کو معاف کر دیتی ہے لیکن حق الناس خود بخود ختم نہیں ہوتا۔ یہ یا تو دنیا میں ادا کرنا لازم ہے یا خدا قیامت میں اپنی رحمت سے اہلِ حق کو راضی کرے گا۔









آپ کا تبصرہ