حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،مدیر مدیر حوزہ علمیہ آیت اللہ خامنہ ای، بھیک پور بہار حجۃ الاسلام و المسلمین مولانا مولانا سبط حیدر اعظمی نے اپنی تقریر میں کہا کہ شکریہ یعنی خداوند متعال کی نعمتوں کو یاد کرنا اور ان کا اظہار کرنا ہے انسان کو ہمیشہ اپنے مولا کی نعمتوں کا شکر گذار ہونا چاہیے جیسا کہ قرآن نے بھی متعددبارذکرکیاہے شکر کرنے والے کبھی شیطان کے جال میں نہیں پھستے اور بہترین راستہ شکر گزاری کا زبان سےشکر کرنا نہیں بلکہ اس کی اطاعت میں ہے جیسے نماز کا پڑھنا ،روزہ کے رکھنا ،لوگوں کی خدمت کرنا ہے ۔ناشکرے لوگ تو پست لوگ ہیں اور حق یہ بنتا ہے کہ ان سے نعمتیں سلب کر لی جائیں جیسا کہ قرآن نے بھی ان کا ٹھکانا جہنم بتایا ہے کیونکہ ایسے لوگ نہ فقط خود نہ شکرے ہوتے ہیں بلکہ اپنے آس پاس کے لوگوں کو بھی اپنا ساتھی بنا لیتے ہیں ۔ بہترین راستہ شکر کرنے کا یہ ہے کہ ایمان کا مضبوط ہونا معاد پر یقین اور اپنی پہچان کیونکہ یہ چیزیں ہمیں نعمتیں عطا کرنے والے کی پہچان کراتی ہیں اور اسی طرح گناہ کی کثرت اور نفس کی پیروی اس خدا کی معرفت ہم سے چھین لیتی ہے ،جس کی وجہ سے ہم شکر ادا نہیں کرتے ہیں اسےشیطان کی رکاوٹ کہاگیاہے، انسان کو چاہیے کہ ان رکاوٹوں کو دور کرے تاکہ اس کا شمار شکر گزار بندوں میں ہو جائے تا کہ اس پر نعمات کا اضافہ ہو اور ان کی وجہ سے کمال تک جا پہنچے ۔
مولانا وصوف نے عیدالفطر جشن میں اس عنوان پر کہا کہ شکر کی تعریف لغت میں:احسان کی شناخت اور نیکی کرنا اسی طرح دوسروں کو ان کی تشویق کرنے کو شکر کہا جاتا ہے،اصطلاح میں شکر کی تعریف : خدا کی نعمات کو یاد کرنا اور ان کا دل ،زبان ،عمل سے اظہار کرنے کو شکر کہا گیا ہے۔
اسلام میں شکرکرنےکی اہمیت:
قرآن کریم میں شکر کے متعلق بہت سی آیات آئی ہیں جیسے فرمایا کہ تمہیں زندگی دی تاکہ شکر ادا کرو ،کبھی فرمایا کہ : تمہیں آنکھ کان دل دیے لیکن پھر بھی شکر کرنے والے کم ہیں اوصاف خداوندی یہ ہیں کہ وہ شاکر بھی ہے اور مشکور بھی اور کئی بار انسان کو حکم دیا کہ شکر گزار بنے اور جو لوگ شکر نہیں کرتے یا کم شکر کرتے ہیں ان سے ناراضگی کا اظہار بھی کیا اور فرمایا کہ شکر کرنے کا فائدہ یہ ہے کہ تمہیں فائدہ پہنچاتا ہے، شکر کرنے والا انسان کبھی شیطان کے جال میں نہیں پھستا اور شیطان نے خدا سے کہا میں سب کو گمراہ کروں گا اور ہر طرف سے انسان کے پاس آؤں گا سوائے انکے جوشکرخداوندی کرتے ہیں،،،خدا وند متعال نے شکر گزاری کو مختلف نعمات چاہے مادی ہوں یا معنوی انسان کے روحی اور جسمی رشد کے لیے قرار دیا امیر المؤمنین حضرت علی بن ابی طالب علیہ السلام نے فرمایا!شکرگزاری واجب ہے۔
مولانا موصوف پورے ماہ مبارک اس علاقے میں جوانوں کوایک دوسرے کی مدد ،حمایت،لوگوں کی تشویق،ترقی پہ سبحان اللہ کانعرہ وغیرہ کادرس دیتے ہوئے بیان کیا کہ شکرگزاری اور کفران نعمت کے آثار:امام صادق علیہ السلام نے فرمایا: جب بھی خدا وند متعال اپنے بندہ کو کوئی نعمت عطا کرتا ہے تو وہ بندہ تہہ دل سے اس نعمت کی قدر کرے اور زبان سے اس کا شکر ادا کرے اور جب کوئی ایسا کرے تو خدا وند متعال حکم فرماتا ہے کہ اس کی نعمتیں بڑھاو۔
امام باقرعلیہ السلام نے فرمایا: جب انسان خداوند عالمی نعمتوں کاشکریہ اداکرتاہے تواسکی نعمتوں کومنقطع نہیں کرتا بلکہ اوراضافہ کرتاہے۔
شکر کی حقیقت:
راغب اصفہانی نے شکر کی تعریف میں کہا ہے کہ:شکرعبارت ہے اظہارنعمت جسکے مقابلے میں کفران نعمت یعنی ملی ہوئی نعمتوں کوچھپانااوراسے فراموش کرناہے۔ اگر کوئی یہ سوچیں جب ہمیں نعمت کاسمندرملے اس وقت شکرکاسجدہ کریں تویہ اسکاکہناصحیح نہیں بلکہ ہرنفس شکرخداکرنا چاہیے۔
مولانا سبط اعظمی سے جب اسکے اقسام پر پوچھے گئے سوالات کاجواب دریافت کرنا چاہا توآپ کا کہنا تھا کہ اقسام شکر؟:جواب ؎:حقیقت میں شکر کی دو قسمیں ہیں: ایک شکر تکوینی اوردوسری شکر تشریعی،،شكر تكوينى یہ ہے ایک موجود کے پاس یہ اختیار ہے کہ وہ رشد کرے جیسے ایک باغبان جب دیکھتا ہے کہ باغ کا فلاں حصہ بہت اچھے سے رشد کر رہا ہے تو وہ بھی اس کی طرف متوجہ ہوتا ہے اور اس کی حفاظت کرتا ہے اور اس کی طرف نظر کرم بھی زیادہ کرتا ہے کیونکہ وہ درخت اپنی زبان میں فریاد کرتے ہیں ہم محنت کر رہے ہیں اور صحیح طریقے سے رشد کر رہے ہیں اسی لیے تم بھی اپنی نعمات کو ہم پر زیادہ کرو اور باغبان بھی ان کی فریاد کو سنتا ہے اور ان کی نعمات میں اضافہ کرتا ہے۔۔۔لیکن باغبان جب باغ کے ایک طرف دیکھتا ہے تو اسے کچھ درخت خشک نظر آتے ہیں ایسے درخت کہ جن کے نہ تو پتے ہیں اور نہ ہی کوئی پھول اور نہ کوئی سایہ تو نہ کوئی پھل ، یہ کفران نعمت سبب بنتی ہے کہ باغبان انہیں اپنے حال پر ایسے ہی چھوڑ دیتا ہے اور ان کی طرف کوئی توجہ نہیں کرتا اور کبھی کبھی تو ایسا ہوتا ہے کہ باغبان یہ دستور جاری کرتا ہے کہ انہیں کاٹ دیا جائے کیونکہ اب ان کی کوئی ضرورت نہیں؟،،انسانیت کے جہان میں بھی یہی حالت ہے اور یہ بات کہ درختوں کا اپنا کوئی اختیار نہیں تو اسے تسلیم تکوینی کہا گیا ہے لیکن انسان کو اختیار دیا گیا ہے کہ اپنے اختیار سے اور اپنی طاقت سے ایک اچھا راستہ اختیار کر سکتے ہیں کیونکہ انسان کے پاس یہ طاقوت ہے کہ وہ اپنے خالق سے رازو نیاز کر سکتا ہے اور گڑگڑا کےیہ کہہ سکتا ہے کہ بار الہا میں نے غلط کیا تو کریم ہے مجھے بخش دے ۔میں نے ہمیشہ تیری نعمتوں کی قدر نہیں کی اور میں جن نعمتوں کے قابل ہی نہیں تھالیکن تم اپنے لطف وکرم سے وہ مجھے عطا کیں۔
مولانا نے محبان اہلبیتؑ سے خطاب کرتے ہوئے کہا حوزہ علمیہ نے پورے ماہ مبارک ہرطریقے سے فعال لوگوں کی ہمکاری پر انکا شکریہ ادا کرتاہے اورساتھ ساتھ نفیس انعامات سے انلوگوں کا اس عظیم جشن میں بھی خیر مقدم کرتاہے، شکراپنے حقیقی معارف کے ساتھ تین مرحلے رکھتاہے؟پہلانعمتوں کی تصاویرکو دلمیں رکھنا،دوسرا:نعمتوں کی شناخت اوردل [اسے بزرگ سمجھنا،اسکی تعظیم کرنا،خود کوچھوٹا اورحقیرسمجھنا،یہی چیزیں خضوع اور خشوع پیداکرتاہے]سے رحمت،برکت اورلطف خداوندی کوحصول کرنا،،تیسرا؎الحمد للہ رب العالمین زبان سے اسکی نعمتوں کاشکریہ ادا کرنا ،خداوند عالم کی تعریف اوراسکی تسبیح وتہلیل کرنا۔
شکر کے عملی نمو نے:
(۱) رنماز''خداوند عالم نے نبی کریم ص سے فرمایا؛شکراداکرو اسلئے کہ ہم نے تمہیں کوثر عطاکیا لہذا نمازیں اداکرواورشکرکاسجدہ بجالاو(۲)روزہ''چونکہ روزہ میں ہرانسان ہرچیزسے اجتناب کرتاہے اورسختی کوبرداشت کرتاہےلہذااپنی خواہشات پرکنٹرول کرے اوراسی کے ذریعے عملی شکر بجالاتاہے(۳)لوگوں کی خدمت؎''جوبھی طریقہ اپنایے لیکن وہ دینی طریقہ ہواوراس دینی طریقہ سے ضروربالضرور لوگوں کی خدمت کوانجام دیجئے تاکہ عملی طورپرنعمت کاشکریہ اداہوسکے (۴)قناعت'' رسولخداص فرماتے ہیں قناعت اختیارکرو تاکہ تمہاراشمار شکرکرنے والے لوگوں میں ہو(۵)یتیم پروری''قرآن مجید میں ملتاہے کہ اللہ تعالیٰ نے پیغمبراسلام ص سے فرمایا جب تم یتیم تھے اس وقت ہم نے تمہاری پرورش کی(۶)نیازمندوں اورمحروموں کی مددکرنا؎'' قرآن مجید میں ارشادہے کہ جب کوئی فقیرآئے تو اسے خالی ہاتھ نہ لوٹانا (۷)تشویق اورلوگوں کاشکریہ اداکرنا'':ارشادخداوندی ہے زکات دینے والوں کی تشویق یہ ہے کہ ان پر اللہ ورسول کی صلوٰات ہے اورروایت میں یہ ہے کہ جوبھی مخلوق کاشکریہ ادانہیں کرتا وہ خداکابھی شکریہ ادانہیں کرسکتا۔