۶ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۶ شوال ۱۴۴۵ | Apr 25, 2024
مولانا سید علی ہاشم عابدی

حوزہ/ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی حدیث "علماء کے قلم کے روشنائی شہدا کے خون سے افضل ہے" شہید اول نے بتا دیا کہ میرے قلم کی روشنائی اور خون میں فرق نہیں۔ اور شہدا کے خون پر علماء کے قلم کی روشنائی کو فضیلت حاصل ہے لیکن میرا خون ہی میرے قلم کی روشنائی ہے۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، لکھنو/ مسجد کالا امام باڑہ میں شب جمعہ کی مجلس میں مولانا سید علی ہاشم عابدی صاحب نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حدیث "علماء کے قلم کی روشنائی شہدا کے خون سے افضل ہے۔" کو سرنامہ کلام قرار دیتے ہوئے بیان کیا کہ روایات کے مطابق "شھید کے خون کا پہلا قطرہ جب زمین پر گرتا ہے تو اللہ اس کے سارے گناہ معاف کر دیتا ہے۔" اور اللہ نے قرآن کریم میں شہید کے مرتبے کو انبیاء اور صدیقین کے بعد بیان کیا ہے۔" لہذا شھادت بقا ہے فنا نہیں ہے۔ 

مولانا سید علی ہاشم عابدی نے شہید اول رضوان اللہ تعالی علیہ کا ذکر کرتے ہوئے بیان کیا کہ شہید اول حضرت ابوعبداللہ محمد شمس الدین رہ جبل عامل لبنان کے ایک دیندار اور علمی خانوادہ میں پیدا ہوئے، آپ کی زوجہ جناب ام علی عالمہ اور فقیہا تھیں، آپ کے تینوں بیٹے عالم اسلام کے عظیم اور نامور عالم و فقیہ تھے۔ اور آپ کی بیٹی جناب فاطمہ بھی فقیہ و عالمہ تھیں کہ انھیں "ست المشائخ" یعنی فقہاء کی استاد کہا جاتا تھا۔

مولانا نے بیان کیا کہ شہید اول نہ فقط فقہ جعفری کے عالم تھے بلکہ اہلسنت کی بھی چاروں فقہوں کے عالم تھے ظاہر ہے یہ اس در سے وابستہ تھے جو باب مدینہ العلم تھا جس طرح چودہ سو برس پہلے مولا نے دعوی فرمایا تھا کہ اگر مسند قضا بچھا دی جائے تو تورات والوں کو تورات سے، زبور والوں کو زبور سے، انجیل والوں کو انجیل سے اور قرآن والوں کو قرآن سے فیصلہ سناووں گا۔ اسی طرح شہید اول بھی فقہ جعفری کے ساتھ چاروں فقہوں کے ایسے ماہر تھے کہ جو جس فقہ کا ماننے والا ہوتا اس کو اسی کے مطابق فیصلہ سناتے تھے۔ 

مولانا عابدی نے بیان کیا کہ 9 جمادی الاول سن 786 ہجری کو ایک سال کی قید با مشقت کے بعد دردناک طریقے سے دمشق میں شہید اول کو شہید کیا گیا کہ پہلے سر و تن میں جدائی کی گئی، پھر لاش کو سولی پر چڑھایا گیا اور لوگوں کو جمع کر کے عصر تک سنگبارانی کی گئی اور آخر میں لاش کو اتار کر جلا دیا گیا دشمن یہ سمجھ رہا تھا کہ اس طرح وہ شہید کو ختم کر دے گا لیکن جب تک حوزات و مدارس علمیہ ہیں تب تک آپ کی کتاب "لمعہ" پڑھی جاتی رہے گی آپ کا نام اور ذکر زندہ و جاوید رہے گا۔ اسی طرح جو بھی اللہ کے لئے کوشش کرتا ہے تو اللہ اسے ہمیشہ باقی رکھتا ہے۔ 
مولانا سید علی ہاشم عابدی نے بیان بیان کیا کہ شہید اول کی کتاب لمعہ جو آج حوزات علمیہ کے نصاب تعلیم میں شامل ہے اسے آپ نے اذیت ناک قید خانہ میں فقط سات دن میں لکھا۔ اور بعض روایات کے مطابق شہید اول نے یہ کتاب اپنے خون سے لکھی۔  اب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی حدیث "علماء کے قلم کے روشنائی شہدا کے خون سے افضل ہے" یعنی شہید اول نے بتا دیا کہ میرے قلم کی روشنائی اور خون میں فرق نہیں۔ اور شہدا کے خون پر علماء کے قلم کی روشنائی کو فضیلت حاصل ہے لیکن میرا خون ہی میرے قلم کی روشنائی ہے۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .