ہفتہ 29 نومبر 2025 - 19:38
شہدا کی وصیتوں سے بے توجہی شہیدوں کے خون سے خیانت ہے

حوزہ / حضرت آیت اللہ نوری ہمدانی نے ایران کے صوبہ مرکزی کے ۸۹۲ بسیجی شہدا کی یادگار تقریب کے لیے جاری اپنے پیغام میں تصریح کی کہ جو شخص بھی کسی مقام یا منصب پر ہو اور شہدا کی وصیت ناموں کی طرف توجہ نہ کرے وہ شہیدوں کے خون سے خیانت کرتا ہے۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، حضرت آیت اللہ نوری ہمدانی کا صوبہ مرکزی کے ۸۹۲ بسیجی شہدا کی یادگار تقریب کے لیے جاری پیغام کا متن اس طرح ہے:

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیم

الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِینَ وَ الصَّلَاةُ وَ السَّلَامُ عَلَی سَیِّدِنا وَ نَبِیِّنَا أَبِی ‌الْقَاسِمِ المصطفی مُحَمَّد وَ عَلَی أهلِ بَیتِهِ الطَّیِّبِینَ الطَّاهِرِینَ سیَّما بَقیَّهَ اللهِ فِی الأرَضینَ و لعنة الله علی أعدائهم أجمعین إلی یوم الدین.

اس باوقار اجتماع کو سلام و تحیت پیش کرتا ہوں

شہدا کی یاد و واقعات کو زندہ رکھنا ایثار اور شہادت کی ثقافت کو احیا کرنے کے اہم ترین طریقوں میں سے ہے۔

قرآن کریم میں بہت کم طبقات کی اتنی مدح کی گئی ہے جتنی راہ خدا میں جان دینے والوں کی:

«وَلَا تَحْسَبَنَّ الَّذِینَ قُتِلُوا فِی سَبِیلِ اللّٰہِ أَمْوَاتًا بَلْ أَحْیَاءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ یُرْزَقُونَ» (آل عمران ۱۶۹)

اور ایک دوسری آیت میں شہدا کے لیے جنت کا وعدہ صراحت کے ساتھ موجود ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ابتدا سے آج تک اسلام کا تحفظ انہی شہیدوں کے خون سے ہوا ہے۔

آج بھی استکبار اور صیہونیت اس روح اور اس ثقافت سے پہلے سے زیادہ خوفزدہ ہیں اسی لیے ضروری ہے کہ عوام کو اس قرآنی ثقافت سے مانوس کیا جائے اور یہ بھی سمجھا جائے کہ ہماری روایات کی رو سے ہر عبادت کی ایک بلند منزل ہے مگر شہادت کی بلندی سے اوپر کوئی مرتبہ نہیں: «فَوْقَ کُلِّ ذِی بِرٍّ بَرٌّ حَتَّی یُقْتَلَ اَلرَّجُلُ فِی سَبِیلِ اَللَّهِ فَإِذَا قُتِلَ فِی سَبِیلِ اَللَّهِ فَلَیْسَ فَوْقَهُ بِرٌّ وَ إِنَّ فَوْقَ کُلِّ عُقُوقٍ عُقُوقاً حَتَّی یَقْتُلَ اَلرَّجُلُ أَحَدَ وَالِدَیْهِ فَإِذَا فَعَلَ ذَلِکَ فَلَیْسَ فَوْقَهُ عُقُوقٌ»

مگر سوال یہ ہے کہ یہ ثقافت کیسے محفوظ رہے؟ اس کے محفوظ رہنے کا ایک اہم طریقہ یہ ہے کہ شہدا کے اہداف، نظریات اور وصیتوں کا مطالعہ کر کے ان پر عمل کیا جائے۔

امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی فرمایا ہے کہ: "سالہا سال عبادت کی ہو خدا قبول کرے لیکن کچھ وقت شہدا کے وصیت ناموں کے لیے بھی نکالیں"۔

حقیقت یہ ہے کہ جب انسان ان وصیت ناموں کا مطالعہ کرتا ہے تو دیکھتا ہے کہ یہ پاکیزہ ہستیاں کم عمری میں ہی ایسے معارف بیان کرتی ہیں جن تک پہنچنے کے لیے سالہا سال حوزہ اور یونیورسٹی میں تعلیم درکار ہے۔

ایک شہید اپنے وصیت نامے میں لکھتا ہے: "مجھے ناکام نہ کہنا، میری کامیابی خدا تک پہنچنا ہے"۔

ایک اور شہید اپنے والدین اور عزیزوں کو وصیت کرتا ہے: "میری شہادت پر گریہ نہ کرنا کہ کہیں اس سے دشمن کے دل خوش نہ ہوں"۔

اکثر وصیت ناموں میں شہیدان اسلام کے تحفظ پر زور دیتے ہیں، ولایت فقیہ کی پیروی، عوام اور وطن کا دفاع، اور عدل کے قیام پر تاکید کرتے ہیں۔

آج تمام طبقات خصوصاً ذمہ داران ان وصیت ناموں کے مخاطب ہیں۔ آج کا ذمہ دار رات کو سونے سے پہلے خود سے پوچھے کہ جو دن گزرا اس میں اس نے ایسا کیا کیا کہ شہدا کے خون کے سامنے شرمندہ نہ ہو۔

آج ہمیں یہ جان لینا چاہیے کہ شہدا نے اسلام کے دفاع میں جان دی۔ ذمہ داران کس حد تک اسلامی اقدار کے پابند ہیں؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ بہانوں کے سہارے اقدار سے غفلت ہو رہی ہو؟

میں نے سینکڑوں وصیت ناموں میں دیکھا کہ شہدا نے حجاب کے تحفظ پر بہت تاکید کی ہے اور سب کو اس واجب الٰہی کی رعایت کی وصیت کی ہے۔ اب ہم میں سے ہر ایک کا فریضہ ہے کہ ان وصیتوں کو بیان کرے اور ان پر عمل کرے۔

شہدا نے ولایت فقیہ کی عملی پیروی پر زور دیا ہے نہ کہ صرف زبانی۔

شہدا نے وحدت، ہم دلی، عوام کی عزت، باوقار زندگی، آسائش اور امن پر تاکید کی ہے۔

شہدا نے دشمن شناسی اور استکبار سے مقابلے کی وصیت کی ہے۔

اور آخر میں شہدا اسلام اور مسلمانوں کی عزت کے خواہاں تھے۔

لہذا کوئی بھی شخص اگر کسی بھی مقام پر ہو اور ان وصیتوں سے غفلت برتے تو وہ شہیدوں کے خون سے خیانت کا مرتکب ہوتا ہے۔

آخر میں میں تمام شہدا، جانبازوں، بسیجیوں اور ان کے محترم گھرانوں کو خراجِ تحسین پیش کرتا ہوں اور اس یادگار تقریب کے منتظمین کا شکریہ ادا کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ سے سب کے لیے توفیقاتِ خیر کی دعا کرتا ہوں۔

حسین نوری ہمدانی

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha