تحریر : سویرا بتول
حوزہ نیوز ایجنسی। یہ حرم کےپروانوں سے لازوال عشق کی سچی داستان ہے۔راہِ عشق خدا پر گامزن اِس لڑکی کے قدرت نے بہت امتحان لیے مگر شہدإ سے توسل کی بنإپر وہ ہر موڑپر ثابت قدم رہی۔یہ داستان چند اقساط پر مشتمل ہے۔یہاں چشمِ تصورمیں بہشت زہرا کی منظر کشی کی گٸی ہے۔مسلسل اضطراب اور شہدا سے توسل زندگی کو کیسا تبدیل کر کے رکھ دیتا یہ اس داستان سے باخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔عشق کی اس سچی داستان کا ہر حرف اشکوں سےلکھا گیا ہے جس کا اندازہ ہمارے قارئين کو بھی ہوگا۔یہ داستان ہر عاشقِ شہدا کے نام جو شب کی تاریکیوں میں جنابِ سیدہ سلام علہیا سے اپنے لیے گمنامی لکھواتے ہیں۔
سلام بر عاشقانِ خدا
سلام بر مدافعین حرم
شہید نے کلام کرنا شروع کیا : آٸیے آپ کو اک نظر بہشتِ معصومہ کا منظر دیکھاٸیں جہاں ہر طرف زینبیون کے شہدا موجود ہیں۔شہداٸے زینبیون کے حوالے سے بہت سارے سوالات ذہن میں تھے، وہ تمام سوالات جو کسی غیر نے نہیں بلکہ اپنوں نے اٹھاٸے تھے۔شہدا نہ صرف رہنمائی کرتے ہیں بلکہ دلوں کا حال بھی خوب جانتے ہیں اِس کا ادراک شہید کے کلام سے ہوا۔یہ شہید مقداد مہدی کی قبر کا کتبہ تھا جو اپنی انتھک محنت کی وجہ سے مشہور تھے۔خیال آیا کہ وہ تمام زحمتیں جو اس شہیدنے حرم آل رسول کے دفاع میں اٹھاٸیں اب کہی جاکر انہیں پرسکون نیند کا موقع میسر آیا ہوگا۔شہید اکثر کہا کرتے تھے کہ وقت کا حساب گھنٹوں سے نہیں بلکہ منٹ اور سیکنڈز سے رکھوتو وقت میسر آتا ہے۔اگر آپ خدا کی طرف ایک قدم بڑھاٸیں گے تو وہ کٸی قدم آگے بڑھادیتا ہے۔
اگلا کتبہ شہید ثاقب حیدر کا تھا جنہیں شہید دمشق کے نام سے جانا جاتا ہے۔دشمن آج بھی شہید دمشق کے نام سے خوف کھاتا ہے مگر افسوس کہ یہ شہید آج بھی اپنوں کے درمیان گمنامی کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔شہید ثاقب حیدر حقیقی معنوں میں بی بی زینب ع کے سپاہیوں اورامام زمانہ ع کے جانثاروں میں سے تھے۔شہید اول وقت نماز کی بہت تاکید کیا کرتے تھے۔ابھی شہید دمشق کی قبر پہ موجود تھی کہ مسحور کن عطر کی خوشبو نے متوجہ کیا یہ شہید حشمت علی کی قبر کا کتبہ تھاجیسے شہید حشمت علی کو علم ہوا کہ سوریا کے حالات خراب ہیں اور تکفیریوں کی جانب سے مقامات مقدسہ کو نشانہ بنانے کی دھمکی دی گٸی ہے تو انہوں نے فورا کلنا عباسک یا زینب ع کا نعرہ بلند کیا اور عازمِ جہاد ہوٸے۔شہید اکثر کہا کرتے تھے کہ ہر مشکل میں جنابِ سیدہ ع کو پکاریں۔شہید حشمت علی کا ایک جملہ اُن کی شہادت کے بعد بہت مشہور ہوا۔جب شہید کے بھاٸی نے انہیں سوریا جانے سے روکا تو شہید نے جوابا کہا: بھاٸی ہم کہتے ہیں کہ یا زینب ع اگر ہم کربلا میں ہوتے تو کبھی شامِ غریباں نہ آتی یا کبھی آپ کی چادر نہ لٹتی۔آج کی کربلا شام کی گلیوں میں برپا ہے ہم اس کے لیے کیا کر رہے ہیں؟ ابھی شہید حشمت علی کی قبر پہ موجود تھی کہ ایک شہید کی مناجات کی صدا سناٸی دی جیسے وہ شہید اپنی قوم سے مخاطب ہوں:
کربلا آج بھی شام کی گلیوں میں برپا ہے مگر افسوس کہ تم اپنی دنیاداری میں مصروف ہو اور شام میں ایک بار پھر جنابِ زینب ع کی چادر کو لوٹاجارہا ہے ،ایک بار پھر علی ع کا گھر مشکل میں ہے،ایک بار پھر معصومین ع کو شہید کیا جارہا ہے۔خدا کی قسم تیار ہوجاٶ اور اپنے دین کوبچالو اور کہیں ایسا نہ ہو کہ شیطان کے جال میں پھنس جاٶ اور کربلا کے اس جانب آنے سے رہ جاٶ۔اے عاشقانِ اہل بیت ع آٶ اور مکتبِ حسینی کا ساتھ دو آٶ اور زینب ع کی چادر کو بچالو۔خدا کی قسم آج بھی شام کی گلیوں میں صدا آتی ہے کوٸی جو مجھے چادر دے جاٸے؟ ہے کوٸی جو میری مدد کرے،کل چودہ سوسال پہلے حسین ع نے ھل من ناصر کی صدا دی تھی آج یہی صدا زینب بنت علی ع دے رہی ہیں۔
یہ شہید عقیل احمد کی مناجات تھی۔ شہید کے یہ الفاظ اس قدر دردناک تھے کہ مجھ میں مزید آگے بڑھنے کی سکت پیدا نہ ہوسکی اور دل میں خیال آیا کہ اے کاش شہداٸے مدافعینِ حرم پر ہرزہ سراٸی کرنے والے بہشتِ معصومہ میں شہداٸے زینبیون کے کتبوں پہ اک نگاہ ڈالیں، دیارِ غیر میں اپنے وطن سے دور،ہجرت کے زخم سینے میں لیے، سیدہ زینب ع کے حرم کی حفاظت کرتے کس قدر پرسکون انداز میں سو رہے ہیں۔اُن کی روشن پیشانی اور چہرے پہ مسکراہٹ آلِ رسول ع کے عشق کی عکاسی کرتی ہے۔
جاری ہے...
نوٹ: حوزہ نیوز پر شائع ہونے والی تمام نگارشات قلم کاروں کی ذاتی آراء پر مبنی ہیں حوزہ نیوز اور اس کی پالیسی کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔