جمعہ 31 جنوری 2025 - 14:05
حضرت زینب کا اطمینان نفس اور استقامت

حوزہ/ خاندان عصمت و طہارت میں یوں تو ہر ذات کمالات و فضائل کا محور و مرکز رہی ہے مگر خانہ علی و فاطمہ (ع) میں ایک ذات ایسی بھی ہے جو باپ کی زینت ہے تو ماں کے لیے سیرت فاطمی کا حقیقی ائینہ روئے زمین پر اگر جناب زہرا س کی کوئی ثانی ہے تو وہ ثانی زہرا جناب زینب سلام اللہ علیہا ہیں۔

تحریر: مولانا گلزار جعفری

حوزہ نیوز ایجنسی | خاندان عصمت و طہارت میں یوں تو ہر ذات کمالات و فضائل کا محور و مرکز رہی ہے مگر خانہ علی و فاطمہ (ع) میں ایک ذات ایسی بھی ہے جو باپ کی زینت ہے تو ماں کے لیے سیرت فاطمی کا حقیقی ائینہ روئے زمین پر اگر جناب زہرا س کی کوئی ثانی ہے تو وہ ثانی زہرا جناب زینب سلام اللہ علیہا ہیں جنہوں نے عصمتوں کی آغوش تربیت میں چشم حیات وا کی طہارتوں کے حصار میں پروان چڑھی چادر تطہیر کے سائبان میں پلی بڑھی غرضکہ ہر رشتہ اپنے ارتقائی منزل سرداری پر فائز نظر آتا تھا۔

باپ ولیوں کا سردار، ماں عالمین کی خواتین کی سردار، نانا نبیوں کا سردار، بھائی جوانان جنت کے سردار، دادا سید البطحاء سید العرب ، تو ایک بھائی وفاؤں کا سردار، جہاں ہر طرف سرداری ہی سرداری ہو اس مقدس گھرانے کی تربیت یافتہ بیٹی کا نام عقیلہ بنی ہاشم حضرت زینب علیا مقام ہے جس نے اپنے کردار کے حصار میں امامت و ولایت کو رکھ کر حفاظت کا حقیقی حق ادا کیا جس کے اطمینان نفس اور استقامت کی کیفیتوں کو ملاحظہ کرنا ہو تو واقعہ کربلا کے نشیب و فراز پر غور و خوض کیا جائے جہاں بڑے بڑے سورماؤں اور طلیق اللسان افراد کے لب و لہجہ میں ارتعاش ہوتا ہے وہاں خطیب منبر سلونی کی دختر نیک اختر کی خطابت کے جوہر نکھر کے سامنے آتے ہیں جہاں جبر و ستم کا طوفان اپنے عفان پر آنے کے بعد بھی اپنی کشتی خطابت و فصاحت کو کھینپنے کا ہنر جس ذات میں وقوع پذیر ہو اسے زینب علیا مقام کہتے ہیں صبر و استقامت کی انتہاء ہیکہ جب چاروں طرف آگ کے شعلے لپک رہے ہیں نسل حسین ابن علی مٹائی جا رہی ہو وہاں شہزادی زینب بھڑکتے ہوئے شعلوں سے اپنے نحیف و ناتواں کاندھوں پر عصمت و ولایت کا بار گراں اٹھا کر بچا رہی ہیں۔

بھڑکتے شعلوں سے یتیموں بیواؤں اور بے سہارا خواتین کو بچانے کی استقامت کے ساتھ ساتھ اطمینان نفس کا یہ عالم ہے کہ حضرت سید سجاد س سے پوچھ رہی ہیں بیٹا کیا خیموں میں جل جائیں یا باہر نکل کر جان بچائیں امام وقت علیہ السلام نے فرمایا پھوپھی اماں جان کا بچانا واجب ہے۔

اس مشہور روایت کے پس منظر میں مجھے ایک واقعہ یاد اتا ہے جو مرحوم رضا سرسوی ص نے سنایا تھا؛

کسی زمانے میں ہندوستان کے ایک سیاسی رہنما اشوک سنگل نامی شخص کسی شیعہ عالم دین کے ساتھ ہم سفر ہوا جبکہ اشوک سنگل کا تعلق یہاں کی ایک متشدد سیاسی تنظیم آر ایس ایس سے تھا اشوک سنگل نے مختصر سے تعارف کے بعد ایک سوال کیا جس میں ان کا کہنا تھا کہ اپ شیعوں نے حضرت زینب سلام اللہ علیہا پر بڑا ظلم کیا ہے شیعہ عالم دین نے حیرت سے پوچھا وہ کیسے تو اشوک سنگل نے ان سے اس روایت کا حوالہ دیا کہ اپ کہتے ہیں کہ جناب زینب بزبان عصمت و طہارت عالمہ غیر معلمہ ہیں اغوش فاطمہ میں پلی بڑھی ہیں جس کی دہلیز پر جاروب کشی کرنے والی کنیز 20 سال زبان قران میں گفتگو کرتی ہے ملائکہ جس کے در اقدس پر گہوارہ جنبانی کرتے ہیں جو تاجدار انبیاء کی نواسی ہے سورہ ہل اتی جن کی شان میں نازل ہوا آیت انما یرید اللہ جن کا قصیدہ پڑھتی ہے اسی گھر کی چشم و چراغ جو بذات ہے وہ خود بھی عالمہ, فاضلہ, کریمہ،صابرہ، شاکرہ ، مفسرہ ،ادیبہ فصیحہ بلیغہ ہیں تو کیا اپ کو اتنا سا مسئلہ معلوم نہیں تھا جو آپ نے امام وقت حضرت سید سجاد سے جو اس وقت بیمار بھی تھے اور بظاہر ناتواں بھی اور ان کو بچانے کی ضرورت بھی تھی تو ان سے پوچھنے کا کیا مطلب ہے اتنے سامنے کا ظاہری مسئلہ تو اپ خود بھی جانتی تھی پھر ان سے پوچھنے کی روایت کا باکثرت مشہور ہونا اپ کے خطباء ذاکرین واعظین کا منبر سے با بانگ دہل دہرانا کیا شخصیت جناب زینب س پر ظلم نہیں ہے ؟

شیعہ عالم دین نے فرمایا اپ نے روایت سنی مگر اس کے پس منظر میں جو حکمت کا چشمہ جاری ہے اس کے فیض و کرم سے محروم رہ گئے شہزادی جناب زینب علیا مقام جہاں عالمہ فاضلہ ہیں وہیں حکیمہ بھی ہیں اور ناشرہ مقصد حسینی بھی ہیں کربلا کی شہادتوں کی تشہیر کی مکمل ذمہ داری حکم خدا سے آپ ہی کے نحیف کاندھوں پر رکھی گئی ہے جناب زینب س نے صرف مسئلہ نہیں پوچھا ہے بلکہ پوری یزیدی قوت و طاقت حکومت و سلطنت کو متوجہ کیا ہے کہ ابھی ابھی حسین ابن علی کربلا کے ریگزار پر ذبح کئے گئے ہیں اور فورا خیموں میں آگ لگائی گئی ہے جہاں زینب علیہ السلام نے مسئلہ پوچھ کر دنیائے یزیدیت کو بتایا کہ ابھی بھی امامت زینب س کے حصار میں ہے ابھی امام وقت اگ کے شعلوں میں ہے مگر رہنمائی کا فریضہ انجام دے رہا ہے امامت کو منتقل ہوئے ابھی لمحات گزرے ہیں مگر فرائض منصبی ہر حال میں سنبھال لیا جاتا ہے سامنے کا مسئلہ تو شہزادی کو معلوم تھا مگر حیات امام اور فریضہ و منصب امامت انھیں کو تو ادا کرنا تھا تاکہ جناب زینب کا اطمینان نفس اور استقامت کی یہ تصویر اگ کے بھڑکتے ہوئے شعلوں میں بھی دیکھی جا سکے۔

اس مقام پر جناب سید سجاد (ع) کا سکوت اختیار کرنا اور جواب میں برہان و علت کا بیان کرنا کہ جان بچانا واجب ہے دلیل ہیکہ اتنے مصائب و الام کے بعد بھی ذہنی توازن اور علمی نظریات میں کوئی اس اضمحلال نہیں ہے بلکہ ایسے وقت اور ایسے حالات میں بھی عالم کی طرح مسئلہ بیان نہیں کیا ہے بلکہ صاحب شریعت معصوم کی طرح دلیل و برہان کے ساتھ مسئلہ بتاکر شرعی ذمہ داری کو بیان کیا ہے جناب زینب علیہ السلام نے صرف مسئلہ شرعی نہیں پوچھا بلکہ عظمت شریعت سے واقف کیا جس طرح جنگ میں نماز کا وقت اگیا تو حضرت علی نے مصلے عبادت بچھا لیا اور جب کسی نے کہا کہ یا علی برستے تیروں میں لچکتے نیزوں میں کھنچی ہوئی تلواروں میں چمکتے ہوئے خنجروں میں نماز پڑھنے کی کیا ضرورت ہے تو اپ نے فرمایا "انما نقاتلھم للصلاة"

ہم اسی نماز کے لیے تو جنگ کر رہے ہیں بروقت فریضہ کی ادائیگی ہی تو اطمینان نفس اور استقامت عمل کا ثبوت ہے شہزادی جناب زینب سلام اللہ علیہا اسی باپ کی بیٹی ہیں لہذا بھڑکتے ہوئے شعلوں میں اعزا و اقارب کی قربانی کے بعد بھی شریعت کے مسئلہ حجاب کو فراموش نہیں کیا بلکہ پوچھ کر واضح کر دیا کہ جس شریعت کی بقا کے لیے میدان شہادت گرم کیا گیا ہے اگر اس کے قوانین کو حالات کے خوف و ہراس سے پس پردہ ڈال دیا گیا تو پھر ان قربانیوں کا مقصد کیا رہ جائے گا لہذا انقلاب کربلا کی بقا اور تشہیر شہادت میں ان اقدار کا خیال رکھنا تو ضروری تھا اور کربلا سے کوفہ کوفہ سے شام اور شام سے مدینہ واپسی تک اس قافلہ حسینی کی میر کارواں بن کر رہیں اور اس طرح سے رہیں کہ امام وقت کو بچایا بھی اور جب بھی انہوں نے مشورہ طلب کیا اپ نے شمع مشورہ روشن کر دی اور پھو پھی اور بھتیجے کے رشتہ کی عظمت کا بھی خیال رکھا جب رہائی ملی تو امام سجاد علیہ السلام نے فرمایا کہ ہم پھو پھی اماں سے پوچھ کر بتائیں گے اس مقام پر غور طلب بات یہ ہے کہ شام میں رکنے یا نہ رکنے کا فیصلہ امام (ع) وقت خود لینے کے بجائے اس کی تحویل اپنی پھو پھی کی جانب کر رہے ہیں تاکہ دنیا کو معلوم ہو کے جہاں شریعت کی عظمت بتانا تھی وہاں پھو پھی نے امام (ع) سے پوچھا اور جہاں رشتہ کی عظمت بتانی تھی وہاں بھتیجے نے پھو پھی سے پوچھا اطمینان نفس اور استقامت عمل کا پہلو یوں تو زندگی کے ہر مرحلہ میں تھا مگر اس مفہوم کے مصداق کے لیے ضروری ہیکہ ان واقعات و حادثات کا جائزہ لیا جائے جہاں اطمینان نفس اور استقامت کی اشد ضرورت تھی 10 محرم بوقت شہادت سے قیام حسینی کے جلنے تک واقعات دلیل استقامت بھی ہیں اور اطمینان نفس کی علامت بھی مگر شام غریباں کے ہولناک سناٹے میں جلتے ہوئے خیموں کی قناتوں پر شکر کے سجدہ اور قناعت کی تصویر حقیقت کسی ذی شعور سے پوشیدہ نہیں گزشتہ شب یعنی شب عاشورہ اور شام غریباں میں کتنا فرق ہے کوئی زینب علیا مقام کے جگر سے پوچھے اس مختصر سے وقت میں چشم فلک نے وہ مناظر دیکھے جو آدم سے خاتم ص تک اور خاتم ص سے اب تک نہیں دیکھے گئے اب شام غریباں کی تصویر کھینچنے کے لیے کسی زبان کے کاسہ ادب میں وہ الفاظ نہیں جو اس وقت کے احساسات کی زبان ترجمان بن کر اظہار کر سکے لفظوں میں وہ کیفیت تو ادا نہیں ہو سکتی مگر رسم ادا کی جا سکتی ہے کہاں سے وہ لفظ لائیں کے جو زینب س کے جگر کی کیفیت رقم کر سکیں یتیموں اور بیواؤں کے آنسوؤں اور صبر کے پیمانوں کی پیمائش کر سکیں مگر اتنے مصائب و الام کے بعد بھی سب کی حفاظت سب کی پاسداری سب کی پاسبانی کا خیال رکھنا یا بقول ڈاکٹر پیام اعظمی تنہا حضرت زینب ہے جو نہ جانے کتنے ارمانوں کی چتا پر کھڑی ہو کر حفاظت کی ذمہ داری نبھا رہی ہیں نہ جانے کتنے کنبوں اور قبیلوں کی کفیل بنی ہوئی ہیں جناب سکینہ کی تلاش میں دشت نینوا کے ہولناک سناٹے میں لاشوں کے درمیان شب کی تاریکی میں اپنوں کا غم گودی کا اجڑ جانا گھر کا جل جانا بھائیوں کا شہید ہو جانا گود کے پالے انکھوں کے تارے سارے میدان کربلا میں جام شہادت نوش کر چکے اس عالم میں جہاں انکھوں سے آنسوؤں کا سیلاب خون بن کر امنڈ رہا ہو شدت غم سے جگر میں آگ لگ رہی ہو جہاں مصائب و الام کے بعد عقل و خرد کام کرنا چھوڑ دیتی ہے مگر اللہ رے عظمت حضرت زینب سلام اللہ علیہا اس شب کی خاموشی میں اس رات کی تاریکی میں اس گھٹا ٹوپ اندھیرے میں دشت نوا کے لق و دق صحرا میں خوف و ہراس سے بھرے ہوئے ماحول میں بھی جناب سکینہ کی تلاش اور لاشہ بے سر سے لپٹی ہوئی چار سالہ بچی کو دلاسہ دیتے ہوئے جلے ہوئے خیام کی راکھ پر لا کر سلا دینا کیا اس سے بڑی کوئی اطمینان نفس توکل علی اللہ اور صبر و شکیبائی کی منزل ہو سکتی ہے شاید اسی لیے کسی انگریز رائٹر نے لکھا تھا کہ اتنے مصائب و الام کے ٹوٹ جانے کے بعد کسی خاتون کی دو ہی کیفیتیں ہو سکتی ہیں۔

یا تو روح قفس عنصری سے پرواز کر جائے گی یا اس کا ذہنی توازن بگڑ جائے گا مگر اللہ رے اسد اللہ کی شیر دل بیٹی کا کمال کہ اس نے اپنی روح تو کجا بھڑکتے ہوئے شعلوں میں کسی یتیم بچے کی بھی روح کو نکلنے نہ دیا اور شام غریباں کے بھیانک سناٹے میں اپنے ذہنی توازن کو اس قدر برقرار رکھا کہ جن کی حفاظت کے ذمہ داری تھی انہیں اعداد و شمار میں لا کر ان بچے کچے بچوں کو ان کی ماؤں تک پہنچا کر اور مختصر سا بچا ہوا کھانا انھیں کھلا کر علی ع کی بیٹی خود بھوکی پیاسی رہی مگر کسی بھی طور سے مقصد کی استقامت سے سر منہ انحراف نہیں کیا جبکہ ایک ہی وقت اور ایک ہی شب میں زینب س اپنے کنبہ قبیلہ اور عصمتوں کی ورثہ دار بن گئی ہدایت و رہبری رسول ص مقبول جیسی سخاوت و ایثار فاطمہ (ع) جیسا شجاعت و شہامت ،فصاحت وبلاغت علی مرتضی ع جیسی خاموشی کے ساتھ حفاظت حسن ع جیسی میر کارواں حسین (ع) جیسی پہرے داری عباس جیسی محمد ع وقت کی حفاظت ابو طالب جیسی سارا مال و متاع لٹا کر بھی آئین اسلام کی پاسداری خدیجہ جیسی ایک ہی وقت میں ایک ہی شب میں آل محمد کے جداگانہ کمالات کو جس شخصیت میں قدرت نے سمو دیا اس ذات عالی وقار کو عقیلہ بنی ہاشم قرار دیا گیا تھا تو اس نے بنی ہاشم کی باقی ماندہ نسل کو شام غریباں میں بکھرنے نہیں دیا ایک ہی وقت میں علی محمد ع کی حفاظت کرتی نظر آئیں وقت کے علی بھی علی ابن حسین اور اس وقت کے محمد بھی یعنی امام محمد باقر علیہم السلام دونوں کو بچایا اسی منظر کو جناب رضا سرسوی مرحوم و مغفور نے اپنے دو مصرعوں میں اس طرح ضم کیا ہے۔

علی کی بیٹی کو جھک کر سلام کر اسلام

یہ دو اماموں کو زندہ بچا کے لائی ہے

یا بقول ڈاکٹر پیام اعظمی اپنی کتاب زینب زینب ہے میں فرماتے ہیں۔

جس وقت پنجتن کی اخری کڑی لہو لوہان کردی گئی نسل ذبیح و خلیل کو صحرائے نینوا میں تہ تیغ کر دیا گیا ذریت ابراہیم کا چراغ گل کر دیا گیا اس وقت نبض تاریخ پر ہاتھ رکھ کر پوچھو مفسرین سے مبصرین سے اہل ادب سے اہل بصیرت سے اہل بصارت سے اہل شجاعت و حکمت سے اہل تبصرہ و تنقید سے کہ اب اسلام کا کیا ہوگا ؟جبکہ محافظ اسلام اپنے ساتھیوں سمیت قتل کر دیا گیا چراغ وحی کے اجالے ختم کر دیے گئے اب مسجدوں کا کیا ہوگا عظمتوں کا کیا ہوگا اسلامی اقدار ائین و قوانین کا کیا ہوگا اب مسجد نبوی میں گھوڑے باندھے جائیں گے مدینۃ الرسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو تاراج کیا جائے گا اب عفتوں اور عصمتوں کا کیا ہوگا یہ چند بچے کچے یتیم بچے اور بے سہارا خواتین یہ بیوائیں، بےکس و مظلوم بے بس و مجبور کیا کریں گے یہ بیمار و ناتواں کیا کرے گا مگر دیدہ تاریخ نے حیرت سے یہ منظر دیکھا کہ عاشور کا ڈوبتا ہوا سورج اس کا پھیکا پڑتا ہوا رنگ دنیا انسانیت کو ایک شجاع و بہادر کا عکس بھڑکتے ہوئے شعلوں میں دکھا رہا تھا جس نے اپنے نحیف کاندھوں پر بار امامت اٹھائے ہوئے تھا جو عالم انسانیت کو اس پر خطر ماحول میں بھی اپنی ذمہ داریوں کو کیسے نبھایا جاتا ہے یہ سکھا رہی تھی ایک ہی وقت میں جناب زینب شریعت کی ذمہ دار بھی تھی اور عزادار بھی 72 کی سوگوار تھی شہدائے کربلا کی غم گسار تھی مگر شریعت کی جانب سے بیواؤں اور یتیموں کی کفالت کی ذمہ دار تھی بے سہارا قافلے کی میر کارواں تھی اور شہزادی نے اپنی ذمہ داری پہلے نبھائی اور عزاداری کو اگے کے مرحلے کے لیے چھوڑ کر دنیا کے ہر عزادار کو یہ سبق پڑھایا کہ پہلے تم شریعت کے ذمہ دار بنو جس کے لیے ہم نے بھرا گھر لٹا دیا پھر ہماری مظلومیت کے عزادار بنو کربلا ذمہ داریاں نبھانے کے لیے منتخب کی گئی اور ظلم و جبر کے طوفانوں میں کوفہ و شام کو عزاداری کے لیے منتخب کیا گیا جس کا لازمہ یہ ہے کہ جب تلواریں کھنچی ہوں تو شریعت میں شہادت کی راہ ہے اور جب سیاست کا بازار گرم ہو اور مظلومیت ہو کو پس پردہ ڈالا جائے تو پرچم عزا کو بلند کرو اب یہ مجلسیں ماتم جلوس عزاداری ایسے ادا کیا جائے کہ جہاں سے عزاداری بھی ادا ہو اور ذمہ داری بھی نبھائی جا سکے حقیقی عزائے سید الشہداء یہی ہے کہ شریعت کی پاسداری ہو اور شوق شہادت کا جذبہ بھی بلند رہے اور حمایت مظلوم میں ہمیشہ پرچم عزا بلند کیا جاتا رہے جناب زینب سلام اللہ علیہا اس وحشت ناک ماحول میں بھی اطمینان نفس کے ساتھ راہ استقامت پر باقی رہتے ہوئے پیغام عقیدت و محبت دے رہی ہیں اور پاسداری شریعت کا سبق بھی پڑھا رہی ہیں جس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ کردار زینبی کس بلندی پر تھا اور کس طرح شہزادی نے ہر محاذ پر اطمینان نفس کا ثبوت دیا اور راہ استقامت پر قائم رہیں صراط صبر پر چل کر حق و حقانیت کی حفاظت کرتی رہی۔

شام غریباں کے سمٹے ہوئے سناٹے کے بعد جب 11 محرم کی صبح نمودار ہوئی تو شہزادی زینب کی شب بھر کی بیداری و پہرہ داری کے بعد ایک نئے دن کا اغاز ہو رہا ہے گویا یہ مطلع الفجر کی نوید ہے جو کربلا کی کامیابی کا اب اعلان شروع کرے گی ایک نیا عہد اور نیا دور ہے جس میں زینب علیا مقام قدم زن ہونے جا رہی ہیں امتحانات کا طویل سفر ہے جس کا اغاز یوں تو عصر عاشور سے ہو چکا ہے مگر اب یہ صبح حلقہ وصل ہے گزشتہ اور پیوستہ میں فوج یزید کی جانب سے قافلہ کی روانگی کا پیغام آیا مصائب کی متعدد روایات پیش نظر ہیں جن میں حکمتوں کا سمندر موجزن ہے عقل و خرد کے دریچے وا ہونا شرط ہے ایک مضبوط جگر کی خاتون اپنے نحیف کاندھوں پر انقلاب حسینی کا بار گراں اٹھانے کی تیاری میں مصروف ہے میر کارواں یوں تو امام معصوم ہیں مگر 11 محرم سن اکسٹھ ہجری کی صبح میں زینب علیا مقام امام ع وقت کے لیے بھی میر کارواں ہیں بیواؤں اور یتیموں کو جمع کیا اونٹ لائے گئے جنہوں نے اپنی زبان بے زبانی میں ایک دوسرے کو متوجہ کیا اہستہ چلنا ہم پر مخدرات عصمت و طہارت سوار ہیں ہم پر یتیمان آل محمد ص مسافران کربلا سوار ہیں مقام حیرت ہے کہ جانوروں کو مظلومیت آل محمد ص کا احساس ہے مگر ہائے امت مسلمہ کی بدبختی جانور نما انسانوں کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔

مگر اس سفر سے سفر استقامت کا تسلسل بھی چلا اور اطمینان نفس کے مراحل بھی اگے بڑھے جس کو یہ مختصر سا مقالہ متحمل نہیں کر سکتا لہذا بس اس دعا پر ختم کرتا ہوں کہ رب ذوالجلال ہمیں استقامت اور اطمینان نفس کی توفیق عنایت فرمائے۔

ولادت باسعادت عقیلہ بنی ہاشم حضرت زینب سلام اللہ علیہا بہت بہت مبارک ہو۔

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha