تحریر: مولانا ڈاکٹر ذوالفقار حسین
حوزہ نیوز ایجنسی | مدینہ کی ٹھنڈی ٹھنڈی شعاعیں بنی ہاشم کے کوچہ کا طواف کر رہی تھیں۔ ریگستانی ذرے حجاز کے تپتے صحراؤں کی ہواؤں کے دوش پر یہ نغمے گنگنا رہے تھے کہ امامت کے گھر میں ایک چمکتا ستارہ نمودار ہوا ہے۔ حضرت فاطمہ کا گھر روشن اور منور ہوگیا، ستاروں کی انجمن اس در سے ضیاء کی بھیک مانگ رہی تھی۔ نیلگوں آسمان پر ستاروں کے قمقمے خوبصورت انداز میں تبریک و تہنیت پیش کر رہے تھے۔ سبزے کی لہک، پھولوں کی مہک، غنچوں کی چٹک، اور پرندوں کی چہک، سب رب العزت کی اس مولود کی عظمت اور منزلت کی گواہی دے رہے تھے کہ علی کے گھر میں ایک چاند جیسا نورانی وجود آیا ہے جس کی تلاوت پنجتن پاک علیہم السلام کر رہے ہیں۔ لوحِ محفوظ پر اس شخصیت کا نام لکھا ہوا ہے، جس کی آمد پر خاندانِ عصمت و طہارت بارگاہِ احدیت میں سجدہ ریز ہے۔
جب جناب زینب سلام اللہ علیہا کی ولادت کا وقت قریب آیا، تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مدینہ میں موجود نہ تھے۔ جب صدیقۂ کبریٰ حضرت فاطمہ الزہرا سلام اللہ علیہا کے گھر میں جناب زینب سلام اللہ علیہا کی ولادت ہوئی، تو حضرت فاطمہ نے نومولود کو امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام کے پاس لے جا کر عرض کیا: "اے ابوالحسن! آپ اس نومولود کے والد ہیں اور چونکہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سفر میں ہیں، لہذا آپ اس کا نام رکھ دیجئے۔" آپ نے فرمایا: "میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر سبقت نہیں کروں گا؛ ہم ان کا انتظار کریں گے۔"
تین دن بعد رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم واپس آئے، اور حسبِ معمول سب سے پہلے حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا کے بیت الشرف میں تشریف لے گئے۔ جب آپ تشریف لائے تو امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام نے عرض کیا: "یا رسول اللہ! اللہ تعالیٰ نے ہمیں ایک بیٹی عنایت فرمائی ہے، آپ اس کا نام رکھ دیجئے۔" رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: "میں اس بارے میں اللہ تعالیٰ کے حکم کا انتظار کروں گا۔" اس وقت جبرئیل امین نازل ہوئے اور عرض کیا: "یا رسول اللہ! حق تعالیٰ آپ کو سلام پیش کرتا ہے اور فرماتا ہے کہ اس نومولود کا نام 'زینب' رکھا جائے، اور یہ نام لوحِ محفوظ پر لکھا ہوا ہے۔" (ناسخ التواریخ، حضرت زینب سلام اللہ علیہا، ص44)
آپ کی ولادت باسعادت مدینہ منورہ میں پانچ یا چھ ہجری قمری میں ہوئی۔ (عقیلۂ بنی ہاشم، ص5؛ زینب الکبری، ص17)
آپ کے مختلف القاب ہیں، جن میں سے چند یہ ہیں: عقیلۂ بنی ہاشم، عقیلۃ الطالبیین، صدیقۂ صغریٰ، عصمت صغریٰ، ولیۃ اللہ، الراضیۃ بالقدر والقضاء، امینۃ اللہ، عالمۃ غیر معلمہ، فھمۃ غیر مفھمۃ، محبوبۃ المصطفی، ثانیۃ الزہرا سلام اللہ علیہا، الشریفہ، وغیرہ۔ (ریاحین الشریعہ، ج3، ص 48)
آپ کی بہت سی خصوصیات ہیں جن میں سے چند کا ذکر یہاں کیا جا رہا ہے۔ آپ عابدہ آلِ علی علیہ السلام تھیں، آپ صبر و استقامت میں بے مثال تھیں، اور آپ کا صبر کوہ گراں جیسا تھا۔ آپ نے کوفہ میں تعلیم اور تفسیر قرآن کی تعلیم دی، آپ ایثار و قربانی کی تصویر تھیں، شجاعت میں حیدر کرار جیسی بے مثال تھیں، اور آپ کی فصاحت و بلاغت کے گواہ شام اور کوفہ میں آپ کے خطبات ہیں۔ ولایت محور ہونا آپ کا بنیادی مقصد تھا۔
ستم کے شعلوں سے عابد کو جاکے لائی ہے
کمر پہ بار امامت اٹھاکے لائی ہے
علی کی بیٹی کو جھک کر سلام کر اسلام
یہ دو اماموں کو گھر تک بچا کے لائی ہے۔