بدھ 26 فروری 2025 - 18:06
نباض ادب ڈاکٹر سید قاسم مہدی شعور اعظمی انتقال کر گئے

حوزہ/ اردو ادب کے درخشاں ستارے، معروف شاعر، ادیب، مفکر اور معلم ڈاکٹر سید قاسم مہدی، جو شاعری کی دنیا میں "شعور اعظمی" کے نام سے معروف تھے، دارِ فانی سے کوچ کر گئے۔ ان کے انتقال کی خبر سے علمی و ادبی حلقوں میں گہرے رنج و غم کی لہر دوڑ گئی ہے۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، اردو ادب کے درخشاں ستارے، معروف شاعر، ادیب، مفکر اور معلم ڈاکٹر سید قاسم مہدی، جو شاعری کی دنیا میں "شعور اعظمی" کے نام سے معروف تھے، دارِ فانی سے کوچ کر گئے۔ ان کے انتقال کی خبر سے علمی و ادبی حلقوں میں گہرے رنج و غم کی لہر دوڑ گئی ہے۔

ادبی اور خاندانی پس منظر

شعور اعظمی کا اصل نام قاسم مہدی تھا، جبکہ ان کا تاریخی نام سید کلیم اختر تھا۔ وہ یکم ستمبر 1957 کو اتر پردیش کے معروف ضلع اعظم گڑھ کے موضع چماواں میں پیدا ہوئے۔ ان کا تعلق علم و ادب میں نمایاں مقام رکھنے والے خانوادے سے تھا۔ اردو کے معروف نقاد اور سیکڑوں عشقیہ و سماجی ناولوں کے خالق پروفیسر سید مجاور حسین، اردو کے استاد پروفیسر سجاد باقر لاہوری، اور ترقی پسند تحریک کے ابتدائی ستونوں میں شامل سید سبط حسن کے خانوادے کے فرد سید غلام مہدی ان کے والد تھے۔ سید غلام مہدی اپنے دور کے استاد شاعر تھے اور مہدی اعظمی کے تخلص سے شاعری کرتے تھے۔

شعری اور تعلیمی خدمات

شعور اعظمی کا شعری شعور ان کے والد کی تربیت کا مرہون منت تھا، جس کی بدولت وہ کم عمری میں ہی شعر و سخن کی جانب راغب ہو گئے۔ انہوں نے طبیہ کالج ممبئی سے ڈی یو ایم ایس کی ڈگری حاصل کی اور پیشے کے اعتبار سے معالج تھے، جو قدیم و جدید دونوں طریقۂ علاج میں مہارت رکھتے تھے۔ تاہم، طبیعت کے لحاظ سے وہ مشکل پسند تھے، اور یہی رجحان انہیں علم عروض جیسے پیچیدہ فن میں مہارت حاصل کرنے کی طرف لے گیا۔

علم عروض اور تصنیفات

شعور اعظمی کا شمار ہندوستان کے استاد الشعراء میں ہوتا تھا۔ وہ علم عروض کے ماہر اور اردو شاعری کے ایک معتبر نام تھے۔ عروض پر ان کی کئی تصانیف منظرِ عام پر آئیں، اور انہوں نے اس فن کے ماہرین عربی عروض کے مشہور عالم خلیل ابن احمد اور فارسی کے علم کلام کے ماہر ناصر الدین الطوسی سے بھی علمی استفادہ کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ عروض پر لکھی گئی کم از کم پچاس کتابوں کے نام انہیں ازبر تھے۔

ان کی تصنیف "عروض شعور" ممبئی یونیورسٹی کے بی اے کے نصاب میں شامل تھی، جبکہ "فرہنگِ شعور" ایم اے اردو کے نصاب میں شامل کی گئی تھی۔ اردو اکادمی اتر پردیش نے ان کی کتاب کو انعام سے نوازا اور منتخب کتاب قرار دیا۔

شعری خدمات اور اثرات

شعور اعظمی کی شاعری میں فارسی، اردو، عربی اور ہندی کے الفاظ کا ایسا حسین امتزاج ملتا ہے جو ان کے کمال فن کا مظہر تھا۔ ان کے نوحے، سلام اور قصائد برصغیر کی معروف انجمنوں میں پڑھے جاتے تھے۔ ان کی اصلاحی شاعری نے کئی نسلوں کو فیض پہنچایا، اور ان کے اصلاحی مشوروں سے سیکڑوں شعراء نے اپنی شاعری کو نکھارا۔

وہ جامعہ امام امیرالمومنین علیہ السلام نجفی ہاؤس ممبئی کے استاد بھی تھے، جہاں انہوں نے کئی شاگردوں کی علمی اور ادبی تربیت کی۔

ادبی دنیا کا ناقابلِ تلافی نقصان

شعور اعظمی کا شمار ان ہستیوں میں ہوتا تھا جو ساری زندگی علم کے متلاشی رہے۔ وہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قول "علم حاصل کرو مہد سے لحد تک" پر عمل پیرا تھے۔ ان کے انتقال سے اردو ادب کو ایک ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا ہے، جسے مدتوں پورا نہیں کیا جا سکے گا۔

اللہ تعالیٰ انہیں جوارِ رحمت میں جگہ عطا فرمائے اور ان کے لواحقین و شاگردوں کو صبر جمیل دے۔ إِنَّا لِلّهِ وَإِنَّـا إِلَيْهِ رَاجِعُون۔

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha