بدھ 26 فروری 2025 - 23:58
آہ؛ خطابت کے جوہر مولانا سید نعیم عباس نوگانوی

حوزہ/آفتاب خطابت مولانا سید نعیم عباس عابدی نوگانوی طاب ثراہ ابنِ مولانا محمد سبطین عابدی مرحوم کی وفات حسرت آیات پر مولانا سید غافر رضوی فلک چھولسی نے گہرے دکھ اور افسوس کا اظہار کرتے ہوئے تعزیت پیش کی ہے۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، انہوں نے آفتاب خطابت کے سانحہء ارتحال پر غم کا اظہار کچھ اس انداز سے کیا ہے: وہ شخصیت جس کی خطابت کے جوہر زبان زد خاص و عام تھے، جس کی زبان سے ادا ہونے کے لئے جملے بیقرار رہتے تھے، جس کو دنیا آفتاب خطابت کے لقب سے یاد کرتی تھی، وہ آفتاب ۲۵ فروری ۲۰۲۵ بمطابق ۲۶ شعبان ۱۴۴۶ بروز منگل کی صبح صادق نسیم صبح کی آغوش میں ہمیشہ ہمیشہ کے لئے آرام کی نیند سو گیا۔

مولانا غافر نے گہرے دکھ کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وہ صبح کتنی اداس تھی جو آفتاب خطابت پر گریہ کناں تھی! وہی مولانا نعیم عباس عابدی جن کی شخصیت بلبل ہزار داستان تھی، ان کی زبان ایسی بند ہوئی کہ کوئی جملہ ادا نہ ہو سکا۔
منگل کی وہ غمگین فضا جس نے حلقہ علماء و مومنین کو مغموم کردیا، اس صبح نے دہلی کے مشہور اسپتال "ہولی فیملی" سے آواز بلند کی کہ نوگانواں سادات کی معروف شخصیت دار فانی سے دار بقا کی جانب کوچ کر گئی۔

مولانا غافر رضوی نے اپنی گفتگو جاری رکھتے ہوئے کہا کہ احقر کی ناچیز تحقیق کے مطابق، مولانا نعیم عباس صاحب حلقہء علماء میں واحد ایسی شخصیت تھی جن کی تجلیل ان کی زندگی میں خود انہی کے شاگردوں کی کاوشوں سے جامعہ المنتظر نوگانواں سادات میں انجام پائی، اس بزم میں مجھے بھی شرکت کا شرف حاصل ہوا، تا حد نظر علماء کا جم غفیر مولانا مرحوم سے انسیت کا منہ بولتا شاہکار تھا۔

مولانا موصوف میدان خطابت میں بے نظیر نہیں تو کم نظیر ضرور تھے، مجھے ان کی متعدد مجالس میں شرکت کا شرف حاصل رہا ہے۔ مولانا کی ایک خصوصیت یہ بھی تھی کہ آپ کم الفاظ میں بڑی بات کہہ دیا کرتے تھے جو میدان خطابت میں ایک بہترین فن کہلاتا ہے۔

مولانا غافر نے آنکھوں دیکھا حال بیان کرتے ہوئے کہا کہ مولانا میں ایک صفت یہ بھی تھی کہ اگر کہیں آپ مجلس خطاب کرنے جاتے تھے، اپنے ساتھ اپنے کسی شاگرد کو ضرور لے جایا کرتے تھے۔
یوں تو مولانا موصوف ہندوستان کے گوشہ گوشہ میں اپنی خطابت کا لوہا منوا چکے تھے لیکن میں نے موصوف کی جن مجالس میں شرکت کی ان میں سے چھولس، جارچہ، نورپور، نوگانواں، مظفر نگر، بڈولی اور جولی میں خطاب کی ہوئی مجالس قابل ذکر ہیں۔

مولانا نعیم عباس صاحب ایک بہترین خطیب ہونے کے علاوہ بانی مدرسہ، مدرس اور مدیر بھی رہے؛ آپ کے شاگرد ملک اور بیرون ملک میں بڑی بڑی شخصیات کے عنوان سے پہچانے جاتے ہیں؛ آپ کے مدرسہ کے پروردہ افراد دور دور تک مدرسہ کا نام روشن کئے ہوئے ہیں۔

مولانا غافر نے کہا کہ مولانا مرحوم کی باتیں اتنی زیادہ دلچسپ ہوتی تھیں کہ ہم جیسے طالب علم ان سے ملاقات کے مشتاق رہتے تھے، کبھی مجلس کے بہانہ تو کبھی محفل، کبھی جلسہ تو کبھی خصوصی ملاقات گویا جس طرح ممکن ہوا ہم ان کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کسب فیض کیا۔
ایسی ہر دل عزیز شخصیت کے بارے میں اگر اچانک یہ خبر ملے کہ وہ جہان فنا سے جہان بقا کی جانب چل بسے تو دل قبول کرنے میں ہچکچاتا ہے لیکن قضائے الٰہی کے سامنے سر تسلیم خم کرنا پڑتا ہے۔
سن ۱۹۵۱ کا یہ مولود سن ۲۰۲۵ میں عروس اجل سے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے بغل گیر ہوگیا اور تمام عزیزوں کو روتا بلکتا چھوڑ کر اپنی حقیقی منزل کی جانب گامزن ہوگیا۔

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha