تحریر: ڈاکٹر سید شہوار حسین نقوی
حوزہ نیوز ایجنسی| افسوس صد افسوس کہ آج ہمارے درمیان مصلح قوم مولانا سید نعیم عباس جیسی ہر دلعزیز شخصیت نہیں رہی جو اپنے خطاب وبیان سے قوم وملت کو بیدار کرتی تھی، جن کی ساری زندگی تبلیغ دیں، اصلاح قوم اور ذکر محمد وآل محمد میں گزری، آپ بیباک خطیب اور نڈر مقرر تھے، کبھی پبلک کی خوشنودی کو پیشِ نظر نہیں رکھا، بلکہ ہمیشہ رضائے پروردگار کے لئے مجلس کو خطاب کیا، آپ نے ذاکری کو مصلحت پسندی کا شکار نہ ہونے دیا؛ آپ کے سامنے آیت اللہ شہید مرتضی مطہری کا یہ جملہ رہتا تھا: جب مصلحت پسندی زیادہ ہو جاتی ہے تو حق بیانی کی قوت سلب ہو جاتی ہے۔"
یہی وجہ تھی کہ آپ بلا خوف وخطر قوم کو اس کی خامیوں کی طرف متوجہ کرتے تھے ۔آپ کا کہنا تھا کہ جب تک خامیوں کا ذکر نہیں ہوگا اس وقت تک اصلاح نہیں ہو سکتی ۔قوم کی بیجا تعریف کرنا اس کے ساتھ خیانت ہے ۔
آپ کو عہد طالب علمی ہی سے خطابت کا شوق تھا، آپ نے سب سے پہلا عشرہ 1971 میں ہلوانہ ضلع سہارنپور میں پڑھا جو بہت کامیاب رہا، ہمت بڑھی پھر کیا تھا کبھی پیچھے مڑکر نہیں دیکھا۔
آپ نے بیرون ہند مختلف ممالک میں مجالس کو خطاب کیا؛ 12 سال لندن میں خطابت کے جوہر دکھائے، کینیا، تنزانیہ، کویت، مسقط، دوبی اور پاکستان میں یادگار مجالس کو خطاب کیا؛ آپ کا انداز بیان نہایت سادہ اور سلیس تھا رواں زبان میں علمی واصلاحی مطالب سامعین کے ذہن نشین کر دیتے تھے ۔آپ مجلس میں شور شرابے کے قائل نہیں تھے ۔آپ کا کہنا تھاکہ شور شرابے سے بات سر سے گزر جاتی ہے اور جو بات آہستہ اور نرمی سے کہی جا تی ہے وہ دل میں اتر جاتی ہے ۔آپ کی یہی نصیحت تھی کہ مجلس پڑھتے وقت احترام منبر ملحوظ خاطر رہنا چاہیے جو بھی بیان ہو وہ مستند و معتبر ہو اور بے مقصد گفتگو سے پرہیز کرنا چاہیے۔
آپ کی ولادت ٢٥ فروری ١٩٥٠ کو نوگانواں سادات ضلع امروہہ میں ہوئی۔
آپ کے والد ماجد مولانا حکیم سید محمد سبطین صاحب نہایت نیک اور صالح عالم دین تھے ۔
مولانا سید نعیم عباس صاحب نے ابتدائی تعلیم والد ماجد کے علاوہ مولانا سید محمد طاہر، مولانا سید عاقل حسین، مولانا محمد یوسف وغیرہ سے حاصل کی۔
١٩٦٧ میں آپ میرٹھ گیے اؤر منصبیہ عربی کالج میں زیر تعلیم رہ کر مولانا سید ابرار حسین امروہوی، مولانا سید شبیہ محمد ، مولانا سخی احمد ، مولانا سید افضال حسین اور مولانا رفعت حسین وغیرہ سے کسب علم کیا ۔
١٩٧١ میں آپ عازم لکھنو ہوئے اور جامعہ ناظمیہ میں داخلہ لے کر اکابرین مدرسہ مولانا سید رسول احمد گوپال پور ی ، مولانا سید ایوب حسین سرسوی ، مولانا سید مرتضیٰ نقوی ، مولانا سید محمد شاکر امروہوی، مولانا محمد حسین نجفی طاب ثراھم سے فیض یاب ہو کر درجہِ فضل وکمال پر فائز ہوئے۔
١٩٨٠ میں آپ تبلیغ کی غرض سے منگلور ضلع ہری دوار تشریف لے گیے اؤر وہاں قیام کے دوران محسوس کیا کہ یہاں رہ کر تبلیغ کرنا ضرور ی ہے چنانچہ آپ نے وہاں قیام کے دوران ایک مدرسہ علم الہدی کے نام سے قایم کیا ۔ اس مدرسہ کے تعلیم یافتہ طلباء نے کافی ترقی کی اور آج بھی ان کی خدمات کا سلسلہ جاری ہے ۔
پانچ سال وہاں قیام کر کے آپ نوگانواں سادات تشریف لائے اور حجت الاسلام مولانا سید سلمان حیدر صاحب طاب ثراہ کے ساتھ ملکر ١٣ مارچ ١٩٨٥ کو جامعہ المنتظر قایم کیا اس مدرسہ نے بہت کم مدت میں بہت تیزی سے ترقی کی۔
١٩٩٣ میں مولانا سید سلمان حیدر صاحب کی وفات کے بعد آپ مدرسہ کے پرنسپل منتخب ہوۓ آپ نے اپنے دور میں مدرسہ کو ترقی کی اس منزل پر پہونچا دیا کہ اس کا شمار ہندوستان کے ممتاز مدارس میں ہونے لگا ۔ طلباء کی تعلیم و تربیت کی طرف آپ نے بھرپور توجہ کی جس کے نتیجے میں بڑی تعداد میں طلباء فارغ التحصیل ہو کر عراق ، ایران اور سیریا میں مشغول تحصیل ہوئے ۔
اب جب تک ان حضرات کی خدمات کا سلسلہ جاری رہے گا، اس کا ثواب مولانا سید نعیم عباس صاحب طاب ثراہ کے نامۂ اعمال میں لکھا جاتا رہے گا۔
افسوس ایسی عظیم المرتبت شخصیت ٢٥ فروری ٢٠٢٥ بروز منگل ہمیشہ کے لیے ہم سے جدا ہو گئی اور آپ کا مدرسہ ہی آپ کی آخری آرام گاہ قرار پایا؛ پرور دگار عالم مرحوم کے درجات کو عالی فرمائے اور پسماندگان کو صبر جمیل عطا فرمائے۔
08:28 - 2025/03/09









آپ کا تبصرہ