۱۵ آبان ۱۴۰۳ |۳ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 5, 2024
مولانا سید شمیم الحسن 

حوزہ/ مولانا سید شمیم الحسن نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حدیث بیان کرتے ہوئے فرمایا: کل ایمان محبت علی ابن ابی طالب علیہ السلام ہے، لہذا قرآن کریم میں "اے ایمان والو!" کا خطاب ہے تو اس سے مراد "اے علی والو" ہے۔ 

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،اعظم گڑھ/ فرزند ظفر الملت حکیم سید خوشنود حسن رضوی مرحوم کے فرزند اکبر، حجۃ الاسلام والمسلمین مولانا سید روح ظفر رضوی (امام جماعت خوجہ جامع مسجد ممبئی) کے برادر بزرگ شاعر اہل بیت سید فیض ظفر رضوی رزمی مرحوم کی مجلس چہلم قدیمی امام بارگاہ، مٹھن پور، نظام آباد میں منعقد ہوئی جسے مرحوم کے چچا شمیم الملت حجۃ الاسلام والمسلمین مولانا سید شمیم الحسن نے خطاب فرمایا۔

مجلس کا آغاز جناب مہدی جونپوری نے مرحوم رزمی اعظمی کے کلام سے کیا۔ بعدہ جناب نصیر اعظمی، جناب مائل چندولوی، مولانا ذہین حیدر دلکش غازی پوری، مولانا محسن جونپوری اور مولانا در الحسن اختر اعظمی نے منظوم نذرانہ عقیدت پیش کیا۔

شمیم الملت مولانا سید شمیم الحسن نے حدیث قدسی "تعجب ہے جسے موت کا یقین ہے وہ کیسے خوش ہوتا ہے۔" کو سرنامہ کلام قرار دیتے ہوئے فرمایا: موت و حیات کو اللہ نے خلق کیا تو یہ بھی اعلان کر دیا کہ یہ ہم نے بندوں کی آزمائش کے لئے خلق کیا ہے اور جسکی جیسی سخت آزمائش ہوگی، جیسا سخت امتحان ہوگا مالک حقیقی سے اسے ویسی ہی جزا ملے گی۔

شمیم الملت مولانا سید شمیم الحسن نے حدیث قدسی "ہم نے تمہیں بقا کے لئے خلق کیا ہے فنا کے لئے نہیں۔" کو بیان کرتے ہوئے فرمایا: توجہ رہے کہ جو موت و حیات کا خالق ہے وہی ہمارا بھی خالق ہے۔ تو ذہن میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب سب کو بقا ہوگی، چاہے جنت میں جائیں یا جہنم میں، تو خدا ہماری فطرت سے واقف ہے، ہماری حقیقت سے آشنا ہے تو اسے ہمارے امتحان یا آزمائش کی کیا ضرورت ہے؟ تو جس طرح استاد جانتا ہے کہ کون طالب علم پڑھنے لکھنے میں اچھا ہے اور کون نہیں اچھا ہے لیکن امتحان لیا جاتا ہے تاکہ کسی کو اعتراض کا حق نہ رہے۔ اسی طرح خداوند عالم نے بندوں کے لئے امتحان اور آزمائش رکھا ہے تاکہ سب پر حجت تمام ہو جائے اور کسی کو اعتراض کا حق نہ رہے۔

مولانا سید شمیم الحسن نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حدیث بیان کرتے ہوئے فرمایا: کل ایمان محبت علی ابن ابی طالب علیہ السلام ہے، لہذا قرآن کریم میں "اے ایمان والو!" کا خطاب ہے تو اس سے مراد "اے علی والو" ہے۔

شمیم الملت مولانا سید شمیم الحسن نے سوره آل عمران کی آیت نمبر 102 "ایمان والو اللہ سے اس طرح ڈرو جو ڈرنے کا حق ہے اور خبردار اس وقت تک نہ مرنا جب تک مسلمان نہ ہوجاؤ۔" کو بیان کرتے ہوئے فرمایا: انسان کا کمال یہ ہے کہ اس کو وہ موت آئے جو خدا کو پسند ہے۔ جیسے موت دین پر آئے، انسان مسلمان اس دنیا سے رخصت ہو، اسی طرح "مھاجر الی اللہ" اور "راہ خدا میں قتل ہونے والے۔"

مولانا سید شمیم الحسن نے سوره بقره آیت 154 "اور جو لوگ راہ خدا میں قتل ہوجاتے ہیں انہیں مردہ نہ کہو بلکہ وہ زندہ ہیں لیکن تمہیں ان کی زندگی کا شعور نہیں ہے." اور سورہ آل عمران آیت 169 "اور خبردار راہ خدا میں قتل ہونے والوں کو مردہ خیال نہ کرنا وہ زندہ ہیں اور اپنے پروردگار کے یہاں رزق پارہے ہیں۔" کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: شہید راہ خدا کی موت کا دل میں بھی خیال نہ آئے اور نہ ہی زبان پر مصلحتا موت کا تذکرہ ہو۔ یعنی خدا چاہتا ہے کہ شہید کی زندگی کو منافقت کی ہوا بھی نہ لگے۔

مجلس عزا میں علماء، افاضل، خطباء، شعراء اور مومنین نے کثیر تعداد میں شرکت کی۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .