منگل 18 فروری 2025 - 12:13
امام مہدیؑ کا انتظار، سچے مؤمن کی پہچان

حوزہ/انتظار صرف وقت گزارنے کا نام نہیں، بلکہ ایک بامقصد عمل ہے، جو انسان کے عقیدے، اعمال اور زندگی کے طرزِ فکر سے جُڑا ہوا ہے۔ امام مہدیؑ کا حقیقی انتظار ایک سچے مؤمن کی پہچان ہے، جو صرف زبانی دعوؤں پر مبنی نہیں، بلکہ عملی جدوجہد کا متقاضی ہے۔

تحریر: داؤد حُسین بابا

حوزہ نیوز ایجنسی | انتظار صرف وقت گزارنے کا نام نہیں، بلکہ ایک بامقصد عمل ہے، جو انسان کے عقیدے، اعمال اور زندگی کے طرزِ فکر سے جُڑا ہوا ہے۔ امام مہدیؑ کا حقیقی انتظار ایک سچے مؤمن کی پہچان ہے، جو صرف زبانی دعوؤں پر مبنی نہیں، بلکہ عملی جدوجہد کا متقاضی ہے، جو شخص امام مہدیؑ کا منتظر ہوتا ہے، وہ اپنے اعمال، کردار اور سوچ کو اس نہج پر ڈھالتا ہے جو امامؑ کی حکومت کا حصہ بننے کے قابل ہو۔

انتظار کا مفہوم یہ نہیں کہ انسان ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھا رہے اور سب کچھ خود بخود بدلنے کی امید کرے، بلکہ یہ وہ ذمہ داری ہے جو ہمیں اپنی اصلاح کے ساتھ ساتھ معاشرے میں عدل و انصاف کے قیام کے لیے متحرک کرتی ہے۔ امام مہدیؑ وہ ہستی ہیں جو زمین کو ظلم و جور سے پاک کریں گے اور عدل و انصاف سے بھر دیں گے، مگر ان کے حقیقی منتظر وہی لوگ ہیں جو خود بھی ظلم کے خلاف آواز بلند کریں، نیکی کے فروغ میں کوشاں رہیں اور معاشرتی برائیوں کے خاتمے کے لیے مسلسل جدو جہد کریں۔

حقیقی انتظار کا تقاضا یہ ہے کہ انسان اپنے عقیدے کو مستحکم کرے، اپنی زندگی کو دینِ اسلام کے مطابق ڈھالے، صبر و استقامت کے ساتھ حق کا ساتھ دے، اور ہر قسم کے فتنوں اور آزمائشوں میں ثابت قدم رہے۔ امامؑ کا انتظار کرنے والا شخص ہمیشہ خود کو ان کی نصرت کے لیے تیار رکھتا ہے۔ اس کی فکر، اس کا عمل اور اس کا کردار ایک مہدوی سپاہی جیسا ہوتا ہے جو حق کے لیے ہر قربانی دینے کے لیے تیار ہوتا ہے۔

انتظارِ امامؑ کا ایک اور اہم پہلو یہ ہے کہ انسان ہمیشہ امید اور یقین کی کیفیت میں رہے۔ زمانہ کتنا ہی تاریک کیوں نہ ہو، ایک منتظر مؤمن کبھی مایوس نہیں ہوتا کیونکہ وہ جانتا ہے کہ حق کا سورج طلوع ہو کر رہے گا، اور امامؑ کی آمد کے ذریعے دنیا میں حقیقی انصاف کا نظام قائم ہوگا۔ یہی امید انسان کو حوصلہ دیتی ہے کہ وہ راہِ حق پر ثابت قدم رہے اور اپنی تمام توانائیاں اس مشن کے لیے وقف کرے جس کا عملی مظاہرہ امام مہدیؑ کی حکومت میں ہوگا۔

حقیقی انتظار محض امامؑ کی ذات سے محبت نہیں بلکہ ان کے مشن کو سمجھنے اور اپنانے کا نام ہے۔ ایک سچا منتظر وہ ہے جو اپنی زندگی میں مہدوی صفات پیدا کرے، امامؑ کی اطاعت کے لیے خود کو تیار کرے اور اس دن کے لیے اپنی اصلاح اور معاشرتی بہتری کے لیے مسلسل جدوجہد کرتا رہے۔ یہی وہ انتظار ہے جو انسان کو کامیابی کے قریب لے جاتا ہے اور اسے امامؑ کے حقیقی ساتھیوں میں شامل کر سکتا ہے۔

انتظار ایک ایسی کیفیت ہے جو انسان کے عقیدے، عمل، سوچ اور طرزِ زندگی کو متاثر کرتی ہے۔ امام مہدیؑ کا حقیقی انتظار محض ایک روایتی یا زبانی دعوے کا نام نہیں، بلکہ ایک فکری، روحانی اور عملی جدوجہد ہے جو انسان کو ہر لحاظ سے امامؑ کے ظہور کے لیے تیار کرتی ہے۔ یہ انتظار ایک مؤمن کے لیے ایک زندہ حقیقت ہے، جو اس کی زندگی کے ہر پہلو میں جھلکنی چاہیے۔

حقیقی انتظار کا سب سے اہم پہلو خودسازی ہے۔ جو شخص امام مہدیؑ کا سچا منتظر ہوتا ہے، وہ سب سے پہلے اپنی اصلاح کرتا ہے۔ وہ اپنی شخصیت کو اسلامی تعلیمات کے مطابق ڈھالتا ہے، اپنے اخلاق کو سنوارتا ہے، تقویٰ اور پرہیزگاری اختیار کرتا ہے، اور خود کو ہر اس برائی سے دور رکھتا ہے جو امامؑ کے مشن کے خلاف ہو۔ کیونکہ جو شخص امامؑ کی نصرت کا خواہشمند ہو، اسے پہلے خود کو اس لائق بنانا ہوگا کہ جب امامؑ کا ظہور ہو، تو وہ ان کی صف میں کھڑا ہونے کے قابل ہو۔

انتظارِ امامؑ صرف فردی اصلاح تک محدود نہیں بلکہ یہ ایک اجتماعی ذمہ داری بھی ہے۔ ایک حقیقی منتظر نہ صرف خود کو سنوارتا ہے بلکہ معاشرے میں بھی عدل، انصاف، محبت اور اخوت کو فروغ دینے کی کوشش کرتا ہے۔ وہ ہر طرح کے ظلم، ناانصافی، جھوٹ اور فریب کے خلاف برسرِ پیکار رہتا ہے۔ امام مہدیؑ کی حکومت عدل و انصاف پر مبنی ہوگی، اور ایک سچا منتظر وہ ہے جو ابھی سے اس طرزِ فکر کو اپنا لے، تاکہ جب امامؑ آئیں تو وہ ان کی حکومت کے اصولوں کے مطابق زندگی گزارنے کے لیے تیار ہو۔

انتظار کی ایک اور شرط استقامت اور صبر ہے۔ جو لوگ امامؑ کے ظہور کے منتظر ہوتے ہیں، انہیں مختلف آزمائشوں، مشکلات اور فتنوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ مگر حقیقی منتظر وہ ہے جو ان تمام مشکلات کے باوجود اپنے عقیدے پر قائم رہے اور راہِ حق پر ثابت قدم رہے۔ وہ ہر حالت میں امامؑ سے اپنا تعلق برقرار رکھے اور کبھی مایوسی کا شکار نہ ہو، کیونکہ وہ جانتا ہے کہ حق کا سورج ضرور طلوع ہوگا اور ظلم کا اندھیرا چھٹ جائے گا۔

اس انتظار کا تقاضا یہ بھی ہے کہ انسان اپنے اعمال میں خلوص اور للہیت پیدا کرے۔ امامؑ کے حقیقی پیروکار وہی ہوں گے جو محض ظاہری عبادات پر اکتفا نہ کریں بلکہ اپنی نیتوں کو بھی پاکیزہ بنائیں۔ جو اپنے ہر عمل کو اللہ کی رضا کے لیے انجام دیتے ہیں، وہی امامؑ کے ساتھ کھڑے ہونے کے قابل ہوتے ہیں۔

اس کے علاوہ، حقیقی انتظار کا ایک اور پہلو امام مہدیؑ سے گہرا روحانی تعلق قائم کرنا ہے۔ ایک سچا منتظر ہمیشہ امامؑ کو یاد رکھتا ہے، ان کے ظہور کے لیے دعا کرتا ہے، اور ان کی خوشنودی کے مطابق زندگی گزارنے کی کوشش کرتا ہے۔ وہ امامؑ کو صرف ایک نظریاتی شخصیت نہیں سمجھتا بلکہ ان سے ایک جیتا جاگتا روحانی اور قلبی رشتہ قائم کرتا ہے۔ وہ ہمیشہ اس فکر میں رہتا ہے کہ اس کا ہر قدم امامؑ کی خوشنودی کے مطابق ہو، تاکہ جب امامؑ آئیں تو وہ ان کے سپاہیوں میں شامل ہو سکے۔

لہٰذا، امام مہدیؑ کا حقیقی انتظار ایک بامقصد، متحرک اور ذمہ دارانہ طرزِ زندگی کا نام ہے۔ یہ صرف ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھنے اور وقت گزارنے کا نام نہیں، بلکہ مسلسل جدوجہد، خودسازی، اجتماعی اصلاح، حق و باطل کی پہچان، صبر و استقامت، اور امامؑ سے مضبوط قلبی تعلق پیدا کرنے کا عمل ہے۔ جو شخص امام مہدیؑ کے ظہور کے لیے اپنی زندگی میں ان تمام عناصر کو شامل کر لے، وہی امامؑ کا سچا منتظر ہے اور وہی ان کے سپاہیوں میں شامل ہونے کا مستحق ہے۔

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha