حوزہ نیوز ایجنسی | انتظار صرف ایک جذباتی کیفیت یا وقتی دینی جذبہ نہیں، بلکہ ایک عملی و اجتماعی مشن ہے۔ اس کا تقاضا یہ ہے کہ منتظرین امام، قرآن و سنت اور تعلیمات اہل بیت علیہم السلام کی بنیاد پر معاشرتی ڈھانچہ مضبوط کریں۔ اس مقصد کے لیے سب سے پہلے افراد کی فکری اور اخلاقی تربیت ضروری ہے، تاکہ وہ معاشرتی نظام میں مثبت کردار ادا کر سکیں۔
گفتگو میں واضح کیا گیا کہ "تمدنی تشکیل" سے مراد ایک ایسا ہمہ جہت سماجی و تہذیبی نظام ہے جو انسانی زندگی کے تمام شعبوں میں الٰہی اصول نافذ کرے—چاہے وہ تعلیم ہو، معیشت ہو یا سیاست—تاکہ ایک منصفانہ، باوقار اور معنویت سے لبریز معاشرہ وجود میں آئے۔
ماہرین کے مطابق، موجودہ دور میں مسلمانوں کے سامنے سب سے بڑی ذمہ داری یہی ہے کہ وہ اپنے معاشرتی ڈھانچے کو ظلم، ناانصافی اور بد اخلاقیوں سے پاک کریں، تاکہ ظہور امام مہدی علیہ السلام کے لیے ایک مضبوط اور مخلص امت وجود میں آسکے۔
یہ بھی کہا گیا کہ انتظار کا صحیح مطلب صرف دعا کرنا یا ظالم نظام کے خاتمے کی آرزو رکھنا نہیں، بلکہ ظلم و فساد کے مقابل کھڑے ہونا اور عدل و انصاف کے لیے جدوجہد کرنا ہے۔ ایسے معاشرے کی تشکیل، جو عدل، تقویٰ اور اخوت کی بنیاد پر استوار ہو، ہر سچے منتظر کا عملی فریضہ ہے۔









آپ کا تبصرہ