حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، حجت الاسلام والمسلمین محمد ملک زاده نے خبرگزاری حوزه سے گفتگو میں رہبر معظم انقلاب کی جانب سے "حوزہ علمیہ قم کی دوبارہ تأسیس کی سویں سالگرہ" پر جاری کردہ اہم پیغام کے بنیادی نکات کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ اس پیغام میں علما کو معاشرتی و سیاسی میدانوں میں مؤثر کردار ادا کرنے، معاشرتی نظامات کو ڈیزائن کرنے، تمدنی اختراعات، تعلیمی ڈھانچے کی تجدید اور اندرونی تبدیلی کے منصوبے بنانے پر زور دیا گیا ہے۔
معاشرتی و سیاسی میدانوں میں بھرپور موجودگی
ملکزاده نے کہا کہ رہبر انقلاب نے دینی گوشہنشینی کے تصور کو رد کرتے ہوئے روحانیت کی تقدّس کو فکری، سیاسی اور عسکری جہاد سے مشروط قرار دیا۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ حوزہ علمیہ کو معاشرے کے بنیادی مسائل سے الگ نہیں رہنا چاہیے اور "جہادِ تبیین" کو ایک ناگزیر ذمہ داری قرار دیا۔
ان کا کہنا تھا کہ "جہاد تبیین" صرف وضاحت یا روشنی ڈالنے تک محدود نہیں، بلکہ اس میں غربت، سماجی بگاڑ اور ثقافتی یلغار جیسے مسائل کا عملی حل دینا بھی شامل ہے، جیسے کہ تعلیمی نظام میں اصلاح یا دشمن کے سافٹ ویئر وار (جنگِ نرم) کا مقابلہ۔
اسلامی بنیاد پر معاشرتی نظامات کی تشکیل
ملکزاده کے مطابق، رہبر انقلاب چاہتے ہیں کہ حوزات علمیہ صرف عباداتی اور انفرادی احکام تک محدود نہ رہیں بلکہ معاشرتی سطح پر اسلامی نظامات کو تشکیل دینے میں مرکزی کردار ادا کریں۔ ان کا کہنا تھا کہ "فقہِ نظامساز" یعنی نظام بنانے والی فقہ، اس انقلابی تبدیلی کی بنیاد ہے، چاہے وہ معیشت کا مسئلہ ہو یا عدل پر مبنی حکمرانی۔
عالمی اسلامی تمدن کی تعمیر میں نوآوری
انہوں نے کہا کہ رہبر انقلاب کی نظر میں حوزات علمیہ کی سب سے بڑی ذمہ داری "اسلامی تمدن" کی بنیاد رکھنا ہے، ایسا تمدن جو سائنسی ترقی، انسانی وسائل اور ٹیکنالوجی کو معاشرتی انصاف، عوامی فلاح اور روحانی بلندی کے لیے بروئے کار لائے۔
اس میں تین اہم میدانوں کی نشان دہی کی گئی:
1. انسانی علوم کی اسلامی بنیاد پر تدوین (جیسے ربا سے پاک معیشت یا فطرت پر مبنی نفسیات)
2. اخلاق اور توحید پر مبنی ٹیکنالوجی (جیسے مصنوعی ذہانت)
3. عدل پر مبنی اسلامی حکمرانی کے ماڈلز کی تیاری
تعلیمی ڈھانچے کی اصلاح اور جدید کاری
حجتالاسلام ملکزاده نے کہا کہ وقت کی ضرورتوں کو سمجھتے ہوئے درسی کتب، تدریسی طریقے اور انتظامی نظام میں تبدیلی ناگزیر ہے۔ انہوں نے کہا کہ درسی کتب کو عصر حاضر کی زبان میں پڑھایا جائے اور نئے مضامین جیسے اسلامی معیشت اور حکومتی فقہ کو شامل کیا جائے۔
فنّی تربیت اور میڈیا کی سمجھ بوجھ
ان کا کہنا تھا کہ مؤثر سماجی اثر کے لیے طلاب کو میڈیا، ابلاغ اور ثقافتی مہارتوں میں تربیت دینا ضروری ہے۔ یہ تربیت انہیں آج کے معاشرے میں دین کی مؤثر تبلیغ کے قابل بنائے گی۔
حوزہ میں فکری مراکز اور مستقبل بینی
ملکزاده نے تجویز دی کہ حوزات علمیہ میں ایسے تھنک ٹینک اور فکری مراکز قائم کیے جائیں جہاں اساتذہ اور محققین موجودہ مسائل پر تحقیق کریں اور اسلامی بنیاد پر حل تجویز کریں، جیسے کہ اسلامی طرز زندگی، حکمرانی اور معاشرتی انصاف کے ماڈل۔
روحانیت کا براہِ راست سماج سے ربط
انہوں نے زور دیا کہ علماء کو صرف درس و تدریس تک محدود نہیں رہنا چاہیے بلکہ اسکولوں، کالجوں، اسپتالوں اور سوشل میڈیا جیسے میدانوں میں براہِ راست موجود رہنا چاہیے تاکہ عوامی ذہن سازی ہو سکے۔ "ذہین مبلغین کا قومی نیٹ ورک" قائم کرنا بھی وقت کی ضرورت ہے۔
ادارہ جاتی اصلاحات کا نقشۂ راہ
چوتھی تجویز میں انہوں نے حوزہ کی اندرونی اصلاح، کارکردگی، نگرانی اور شفافیت کے لیے "نقشۂ راہ" بنانے اور ٹیکنالوجی سے استفادہ کرنے پر زور دیا۔
عالمی سطح پر تبلیغی دائرہ کار کی توسیع
ملکزاده کے مطابق، حوزہ علمیہ کو عالمی سطح پر وسعت دینی چاہیے۔ طلاب کو بین الاقوامی زبانیں سکھائی جائیں اور دنیا کے دیگر ممالک میں حوزہ کی شاخیں قائم کی جائیں تاکہ مؤثر عالمی مبلغین تیار ہو سکیں۔
مسائل پر مبنی تحقیقی منصوبے
انہوں نے زور دیا کہ تحقیق صرف علمی سرگرمی نہ ہو بلکہ ملکی مسائل کے حل سے جڑی ہو، جیسے کہ حکومتی فقہ، معیشت اور سیکیورٹی۔ اس کے لیے مسئلہ محور تحقیقی پروجیکٹس کی سرپرستی ضروری ہے۔
میدانِ عمل میں روحانیت کی موجودگی کو باقاعدہ بنانا
ملکزاده نے "محلہ کا عالم دین" جیسے منصوبے کو تجویز دیا، جس کے تحت ہر محلے یا مسجد میں ایک تربیت یافتہ اور عوامی عالم دین موجود ہو جو شرعی، خاندانی اور سماجی سوالات کے جواب دے۔
طلاب کو مہارتِ گفتگو اور سماجی تعامل کی تربیت
انہوں نے کہا کہ طلاب کو مؤثر رابطے، خاندانی تنازعات کے حل، نوجوانوں سے تعلق اور میڈیا مہارتوں میں تربیت دی جائے تاکہ وہ مؤثر سماجی رہنما بن سکیں۔

عوامی تبلیغی نیٹ ورکس اور سادہ مواد کی تیاری
انہوں نے زور دیا کہ طلاب کو سادہ، مؤثر اور عوامی مسائل پر مبنی مواد (جیسے پادکاسٹ، ویڈیوز، چھوٹے مضامین) تیار کرنے کی تربیت دی جائے، تاکہ نوجوان، خاندان، منشیات، روزگار جیسے حقیقی مسائل پر رہنمائی دی جا سکے۔
مدارس و جامعات میں فعال رابطہ
ان کا کہنا تھا کہ علما کی اسکولوں، یونیورسٹیوں اور دفاتر میں موجودگی زیادہ ہونی چاہیے تاکہ وہ وہاں موجود طلبہ و کارکنوں کے سوالات اور شکوک کا براہ راست جواب دے سکیں۔
آزاد فکرانہ نشستوں کا انعقاد
انہوں نے کہا کہ "کرسیهای آزاداندیشی" یعنی آزاد فکر کے فورمز مساجد، پارکوں، جامعات اور سوشل میڈیا پر منعقد کیے جائیں تاکہ نوجوانوں کے سوالات کا کھلے ماحول میں جواب دیا جا سکے۔
روحانیت کی نئی تصویر پیش کرنا
آخر میں انہوں نے کہا کہ ان اقدامات سے معاشرے کو ایک حقیقی تصویر پیش کی جائے گی — ایک سادہ، خادم اور غیر تجمل پسند روحانیت جو عوام کے ساتھ زندگی گزارتی ہے اور دشمن کی منفی پروپیگنڈا کو ختم کرتی ہے۔









آپ کا تبصرہ