تحریر: حجۃ الاسلام و المسلمین آغا سید عابد حسین حسینی، مدیر اعلی تبیان قرآنی ریسرچ انسٹیٹوٹ
حوزہ نیوز ایجنسی| انسانی تاریخ حکمرانی کے مختلف نمونوں کی گواہ رہی ہے۔ جب بھی حکومت کا انحصار محض انسانی رائے اور انتخاب پر ہوا ہے، تو منفعت پسند، خودغرض اور مفاد پرست افراد نے اپنے آپ کو دوسروں پر ترجیح دیتے ہوئے معاشرے میں عدم توازن اور ناانصافی پیدا کی ہے۔ ایسے میں، صرف وہی بادشاہ یا حکمران اپنی رعایا کے لیے رحم و کرم کا باعث بنا ہے جس میں انسانی ہمدردی اور اعلیٰ اخلاقی صفات موجود رہی ہوں۔ خواہ ریاستی ڈھانچہ بادشاہت ہو یا عوامی انتخابات سے منتخب ہونے والی خلافت، دونوں میں ہی معترضین اور حق گو آوازوں کو برداشت نہیں کیا جاتا، چاہے وہ کتنے ہی حق پر کیوں نہ ہوں۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ان تمام نظاموں کا مرکز و محور انسان ہی ہے، جو ہمیشہ سے خطا کا پتلا رہا ہے۔
نظام نبوت کا تسلسل اور امامت کا تصور
نظام نبوت کے بعد، انسانی معاشرے کو راہنمائی اور عدل فراہم کرنے کے لیے ایک ایسے ہی الہی نظام حکمرانی کی ضرورت ہے جس کا تعلق براہ راست خدا کی جانب سے ہو۔ یہی وجہ ہے کہ "امامت" کا تصور پیش کیا جاتا ہے، جس کا منصوبہ براہ راست اللہ کی جانب سے ہونا لازمی ہے۔ ایک معصوم اور خدا کے منتخب کردہ امام کی قیادت ہی میں ہی وہ صلاحیت ہے کہ وہ معاشرے میں حقیقی امن و امان برقرار رکھ سکے، کیونکہ اس کی حکمرانی کا محرک ذاتی مفاد یا شہرت نہیں، بلکہ خدائی احکامات اور انصاف ہوتے ہیں۔ اس نظام میں کسی فرد کے پاس دولت، علم یا مقام کی بنیاد پر دوسرے کو ناحق روندنے کا اختیار نہیں رہتا۔
قرآن و عترت کی طرف رجوع: مسائل کا واحد حل
مسلمانوں کے موجودہ دور کے تمام تر مسائل کا بنیادی حل "رجوع الی القرآن و العترت" (قرآن اور اہل بیت کی طرف واپسی) میں پوشیدہ ہے. جب تک مسلمان دل و جان سے اس الہی مرکز کی طرف نہیں لوٹیں گے، ریاست کے بنیادی مسائل، بشمول عدل و انصاف اور اجتماعی اخلاقیات، ناقابل حل رہیں گے۔
قرآن کی حاکمیت: قرآن پاک کو مضبوطی سے تھامنا ہی دنیا و آخرت میں کامیابی اور سربلندی کا ذریعہ ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ جب امت نے قرآن سے مضبوط تعلق رکھا، وہ دنیا میں سربلند و فاتح رہی، اور جب اس سے ناتا توڑ لیا، ذلیل و خوار ہوئی.
عترت (اہل بیت) سے تعلق: رسول الله صلی الله علیه و آله و سلم کی ذات اقدس کے ساتھ تعلق حبی اور اخلاق محمدی میں فنا ہو جانا ہی وہ راستہ ہے جو انفرادی و اجتماعی بگاڑ کو دور کر سکتا ہے۔ یہ تعلق ہمیں عترت کی نصرت، اخلاق حسنہ اور حقوق العباد کے احترام کی طرف رہنمائی کرتا ہے.
نتیجہ
انسانوں کا منتخب کردہ خلیفہ ایک محدود انسانی نظام ہے، جبکہ خدا کا منتخب کردہ خلیفہ قرآن کی تعلیمات کا عکاس اور عملی نمونہ ہوتا ہے۔ حقیقی کامیابی اور دائمی امن کے لیے لازم ہے کہ حکومت کا نظام انسانی خواہشات کی بجائے الہی ہدایت کے تابع ہو، اور اس کی راہنمائی کے لیے ایک ایسا معصوم امام ہو جس کا انتخاب خود خدا نے کیا ہو۔ یہی وہ واحد ذریعہ ہے جہاں ہر فرد کو اس کے بنیادی حقوق کے تحفظ کی ضمانت مل سکتی ہے، اور کوئی بھی شخص اپنے مقام، شہرت، دولت یا علم کے بل بوتے پر دوسرے کو ناحق نہیں روند سکتا۔









آپ کا تبصرہ