۶ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۶ شوال ۱۴۴۵ | Apr 25, 2024
شهیده بنت الهدی صدر

حوزہ/ ایک خاتون کا ظالم و جابر حکمران کے سامنے بر سر پیکار ہو جانا بالکل آسان نہیں ہے۔ مگر یہ سیرت جناب فاطمہ (س) اور سیرت جناب زینب (س) سے سیکھا ہوا درس تھا کہ آج ان کی کنیز نے وقت کے یزید کے خلاف ڈٹ گئی تھی۔ آج کے دور میں ہماری خواتین کے لیے آمنہ بنت الہدیٰ کی زندگی مزاحمت کا بہترین کردار ہے۔

حوزہ نیوز ایجنسی

عنیزہ عابدی،کراچی پاکستان

مقدمہ
آج ہمارے معاشرے میں عورت کی حالت بہت تیزی سے بدلتی جا رہی ہے۔ وقت کا جبر اور سماجی اداروں کا جبر اسے اس کی حقیقت سے دور لے جا رہے ہیں اُس( عورت) سے اس کی تمام فطری خصوصیات اور قدیمی اقدار چھین کر اسے ایک ایسی ہستی بنانے جا رہا ہے جو ان کی مرضی کے مطابق ہو گویا عورت جیسی وہ ہے کہ بجائے اب ایسی مخلوق نظر آتی ہے جیسا اسے وقت ، حالات اور ادارے بنانا چاہتے ہیں۔ اور سماجی اداروں کا جبر کافی حد تک عورت کو ایک مصنوعی قالب میں ڈھالنے میں کامیاب بھی ہوا ہے۔

اسی تناظر میں ایسی عورت جو آگاہی اور شعور رکھتی ہے اس کے ذہن میں سب سے پہلا سوال ابھرتا ہے کہ میں کون ہوں؟ مجھے کیا ہونا چاہیے؟ ہر خود آگاہ اور شعور رکھنے والی عورت کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ اپنی حقیقت کو دریافت کرئےاور اپنے وجود کی تعمیر از نو خود کرے۔ ۱

عورت اپنی حقیقت کو پہچان کر جب تربیت کرئے گی تو یقیناً ایک بہترین معاشرہ تشکیل دے سکتی ہے۔ اسلام میں فرد اور انسان کی حیثیت سے تعین میں جنس کا کوئی عمل دخل نہیں ہے چونکہ وہ انسان ہے اس لیے اسے خلیفہ خدا کا درجہ حاصل ہے اس سلسلے میں مرد اور عورت ایہ دوسرے کے ساتھ ہیں۔ ثقافتی میدانوں کے علاؤہ عملی میدان میں بھی خواتین مردوں کے شانہ بشانہ اسلام کا پرچم بلند کرتی نظر آتی ہیں اور جہاد کے میدانوں میں اپنی موجودگی سے ثابت کر دیتی ہیں کہ وہ انسانیت کی بنیاد پر اسلام کے لیے جدوجہد کر رہی ہیں۔اس کی مثالیں ہمیں تاریخ کی وہ خواتین دکھاتی ہیں جنہوں نے بغیر کسی خوف خطر جنگوں میں حصہ لیا ہمیں بہت سی ایسی خواتین بھی نظر آئیں گی جنہوں نے اسلام کی نشر اشاعت، مظلوم کی حمایت اور ظالم کے خلاف آواز بلند اٹھاتی،مردوں کے ہمراہ اور کبھی تنہا ظالم و جابر حکمرانوں کے خلاف ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ معاشرے میں بیداری کا بیج بو دیا جس کا ثمر ہمیں آج بھی نظر آتا ہے۔ یہاں ایک بات واضح کرنا ضروری ہے کہ جہاد/ مزاحمت سے مراد فقط تلوار لیے میدان جنگ میں چلے جانے کا نام نہیں ہے بلکہ جہاد کا مطلب ہے کہ اللہ کی راہ میں تمام کر توانائیوں کو صرف کرتے ہوئے مبارزہ آرائی کرنا اب انسان جس طرح بھی راہ خدا میں جدوجہد کر رہا ہے وہ جہاد شمار ہوگا اور وہ جہاد، جہاد بالقلم ، جہاد بالعلم، جہاد بالعمل جہاد بالنفس (جہاد اکبر) بھی ہو سکتا ہےاور آج کے موڈرن دور میں ہمیں وہ خواتین بھی میدان جہاد کا حصہ نظر آتی ہیں جو سوشل میڈیا پر اچھائیوں کا پرچار اور برائیوں کی مذمت کرتی ہیں۔

جناب آسیہ زوجہ فرعون تاریخ کی انہی خواتین میں شمار ہوتی ہیں جنہوں نے ظالم کے خلاف مزاحمت کی۔ فرعون جو خدائی کا دعویٰ کر چکا تھا خود کو خدا کہنے والا انتہائی ظالم و جابر بادشاہ مگر باوجود اس کے جناب آسیہ خدائے واحد لا شریک پر ایمان اور اسی کی عبادت کرتی رہیں۔ فرعون نے بارہا چاہا کہ جناب آسیہ راہ حق سے ہٹ جائیں اور اس کو خدا تسلیم کر لیں اور اس کے لیے وہ انہیں مختلف اذیتوں میں مبتلا کرتا رہا مگر جناب آسیہ راہ حق سے پیچھے نہیں ہٹیں اور آخری لمحے تک صعوبتیں جھیلتی رہی یہاں تک کہ فرعون کے حکم پر ان کے پیروں میں کیل ٹھوک کرزیر آفتاب ان پر بھاری پتھر رکھ دیے گئے۔ مزاحمت کا ایک اور کردار ہمیں صدر اسلام میں جانب سمیہ ام عمار کی صورت میں نظر آتا ہے جن پر مظالم کے پہاڑ توڑے گئے۔ ابو جہل ان کے جسموں پر آہنی زرہیں پہنا کر انہیں مکہ کے صحرا میں تپتی دھوپ میں زیر آسمان باندھ دیتا تھا۔ ۲سختیاں اور تکالیف برداشت کی مگر زبان پر حق کا کلمہ تھا راہ خدا سے پیچھیے نہ ہٹنے کا پختہ عزم و ارادہ تھا یہاں تک کے بے دردی کے ساتھ شہید کر دی گئی۔

تاریخ میں خواتین مختلف طریقوں سے جہاد کا حصہ بنی رہی اس کی بہتیرن مثال ہمیں اہل بیت علیہم السلام کے گھرانے سے ملتی ہے

جناب خدیجہ رسول ص پر ایمان لائیں اور اپنا سارا مال راہ خدا میں قربان کر دیا ہر لحظہ رسول ص کے ساتھ رہیں کبھی انہیں تنہا نہیں چھوڑا جناب خدیجہ اور رسول ص کے زیر سایہ تربیت پانے والی ان کی بیٹی جناب فاطمہ س جو مزاحمت کا سب سے اہم اور تاریخ کا بڑا کردار رہی ہیں آپ س نہ صرف خواتین بلکہ مردوں کے لیے بھی مشعل راہ ہیں۔
جناب زہرا س بظاہر تلوار لیے میدان جنگ میں نہیں اتری مگر کردار اور الفاظ سے ایسی جنگ لڑی کہ آپ خواتین کے ساتھ ساتھ مردوں کے لیے بھی نموںہ عمل قرار پائیں (مدینے کی خواتین اور بچیوں کی تربیت میں مصروف عمل رہتی )آپ س زندگی بھر ہر مشکل اور ہر خوشی کے موقع پر اپنے بابا حضرت محمد ص اور اپنے شوہر نامدار امام علی ع کے ہمراہ رہی ہیں رسول ص جب جنگ سے واپس آتے آپ ان کی دلجوئی فرماتیں اپنی والدہ کی طرح آپ نے بھی اپنے شوہر کو کبھی تنہا نہیں چھوڑا یہاں تک کہ آپ امام علی ع کے حق کے لیے مدینہ کے ہر گھر کا درواذہ کھٹکٹاتی رہی ظالم کا ظلم جب بڑھنے لگا تو دربار میں گئی زندگی کے آخری لمحے تک مزاحمت جاری رکھی۔ جلتا ہوا در آپ کے اوپر گرایا گیا۔ امام علی ع کو قید ہوتے دیکھا مگر آپ حق کے لیے لڑتی رہیں آپ س کے بعد آپکی تربیت یافتہ بیٹی جناب زینب س بھی اسی راہ پہ چلتی رہی خواتین اور بچیوں کی تربیت کا بیڑا اٹھائے رکھا اپنے بھائی حسین ع امام وقت کے ساتھ ہمیشہ کھڑی رہی مدینہ سے مکہ ، مکہ سے کربلا اور پھر کربلا سے شام کا سفر طے کیا کوفہ میں لوگوں سے خطاب کیا دربار یزید میں کھڑے ہو کر یزید کا اصلی چہرہ لوگوں کا دکھایا اوراپنے بھائی کے پیغام کولوگوں تک پہنچاتی رہی۔ جبکہ یہ کام آسان نہ تھا۔

ہر دور میں خواتین کا کردار ایسا ہونا چاہیے کہ کسی بھی خوف و خطر کو خاطر میں لائے بغیر ہر دور کے یزید کے خلاف ڈٹ کھڑی ہوں۔ ،اور ساتھ ہی ساتھ اپنے معاشرے کی فلاح و بہبود کے لیے اپنا کردار ادا کرتی رہیں۔ اگر ايک گھرانے نے اپنی بيٹيی کی اچھی طرح تربيت کی ہے اور وہ بيٹي ايک عظيم انسان بنی ہے۔تو وہ " اسی زمانے ميں (اسلامی انقلاب کی کاميابی سے قبل) ايک جوان، شجاع ،عالمہ ، مفکر اور ہنرمند خاتون ’’بنت الہدی‘‘ (آيت اللہ سيد محمد باقر شہيد کی خواہر) نے پوری تاريخ کو ہلا کر رکھ ديا، وہ مظلوم عراق ميں اپنا بھرپور کردار ادا کرنے ميں کامياب ہوئيں اور درجہ شہادت کو حاصل کيا۔ بنت الہديٰ جيسی خاتون کي عظمت و شجاعت، عظيم مردوں ميں سے کسی ايک سے بھي کم نہيں ہے۔ اُن کی فعاليت ايک زنانہ فعاليت تھی اور ان کے برادر کی جد و جہد و فعاليت ايک مردانہ کوشش تھی ليکن دونوں کی جد و جہد و فعاليت دراصل کمال کے حصول اور ان دونوں انسانوں کي ذات اور شخصيت کے جوہر و عظمت کی عکاسی کرتی تھی۔ اس قسم کی خواتين کی تربيت و پرورش کرنی چاہيے"۔۳

شہیدہ آمنہ بنت الہدیٰ نے 1937ء عراق کے شہر کاظمین میں سید حیدر صدر کے گھر آنکھ کھولی. آپ ایک علمی گھرانے میں پیدا ہوئیں ابتدائی تعلیم ( نحو،فقہ،منطق،فقہ اصول) جیسے علوم اپنے بڑے بھائی اسماعیل صدراور شہید باقر الصدر سے حاصل کیے۔ ۴ آپ نے جس زمانے میں آنکھ کھولی وہ صدام کا زمانہ تھا جس میں شعیوں پر مختلف پابندیاں عائد کی گئیں۔ جو کوئی اس کے خلاف تحریک پیدا کرتا اس کی سزا موت ہوتی۔ اس زمانے میں آپ باقی خواتین کی طرح خاموش گھر میں نہیں بیٹھی۔ بلکہ اپنے بھائی شہید باقر الصدر کے ہمراہ ایسی راہ کا انتخاب کیا جوحسین بن علی ع کی راہ تھی اس راہ کا انتخاب کوئی آسان نہ تھا جس میں مشکلات و سختیاں ، طوق و سلاسل ، قید و بندھ ، صبر استقامت کا مظاہرہ کرنا مال و جان کا نذرانہ پیش کرنا یقیناً یہ سب آسان نہیں تھا مگر آپ نے اپنے جد کی سیرت پر عمل کرتے ہوئے یزید دوراں کے خلاف قیام کیا ۔ پھر سے حسینت اور یزیدیت آمنے سامنے ائی۔

آمنہ بنت الہدیٰ انقلابی متقی و پرہیز گار،خوف خدا درد دین درد انسانیت اور انقلابی سوچ رکھنے والی خاتون تھیں آپ عورت کی حقیقت ، مقام و مرتبے سے واقف تھیں۔ اپکو یقین تھا کہ اہل بیت علیہم السلام کی سیرت پر عمل کرتے ہوئے آپ معاشرے میں ایسا انقلاب پربا کر سکتی ہیں جو آئندہ نسلوں کے لیے اپنے نقوش تاریخ میں چھوڑ دے گا۔ مختلف طریقوں سے آپ نے معاشرے میں بیداری کا بیج بویا ۔ خاص طور پر خواتین کی تعلیم و تربیت کے حوالے سے بہت کام کیا۔ اپنی مختصر سی زندگی میں صدامی دہشت گردی کے خلاف بلا خوف و خطر عراقی غریب عوام کے بہبود اور تعلیم کی پسماندگی کی دوری اور شعور اسلامی کی بیداری کے لیے فعال ترین کردار ادا کیا اپنی زندگی اور فعالیت سے تمام شعبہ ہائے زندگی کو متاثر کیا۔ آپ عراق کی صاحب تصانیف، عالمہ، شاعرہ، مؤلف ،علم فقہ اور اخلاق کی معلم خواتین میں سے تھیں۔

آپ خواتین کی توانائیوں کو اجاگر کر کے ان میں زندگی کی زمہ داریوں کو اٹھانے کا حوصلہ پیدا کرتیں لڑکیوں کو بہترین تعلیم کے حصول کا درس دیتی اور مختلف شعبوں میں مہارت حاصل کرنے کی نصیحت کرتی۔ ۔اپ چاہتی تھیں کہ جب سچے مسلمان کی طرح زندگی گزارنے کی بات آئے تو خواتین اپنی گردنوں پر پڑی ذمہ داریوں سے بخوبی آگاہ ہو جائیں۔ وہ خواتین جو نئی نئی مذہبی تعلیمات میں مصروف ہوتی شہیدہ ان کو مذہبی احکامات میں مصروف نہیں کرتی تھیں بلکہ ان کو معاملات دنیا اسلام کی روح سے سمجھنے میں مدد دیتی تھیں۔ خواتین کی تربیت کے لیے آپ اس زمانے میں اسلامی سیمنار منعقد کرواتی جس میں اسکولز کالجز، یونیورسٹیزاور مختلف تنظیموں میں کام کرنے والی خواتین سب کے لیے کھلی دعوت ہوتی۔ ان سیمینارز کا مقصد مختلف حقائق اور تصورات سے پردہ اٹھانا خاص کر مغربی دنیا کی ملمع کاری جو کہ عراقی خواتین میں بہت تیزی سے پھیل رہی تھی بیداری پیدا کرنا تھا تا کہ خواتین اپنے فرض کو سمجھیں اور معاشرے میں فاطمی و زینبی کردار ادا کرتے ہوئے اسلام کی ترویج میں کوشاں رہیں۔ ۵

مدارس الزہرا مدارس کا مجموعہ تھا جس میں آپ نے مختلف دروس کا سلسلہ رکھا جو خواتین کی تعلیم و تربیت کے حوالے سے کام کر رہا تھا آپ اپنے ہفتے کے کاموں کو مختلف اوقات میں بانٹ دیتی ۶ تا کہ زیادہ سے زیادہ کام انجام دے سکیں مگر جب مدارس کی سربراہی حکومت کو دی گئی تو آپ فورا مستعفی ہو گئی حکومت کی طرف سے اپکو خط آیا تا کہ آپ حکومت کے ساتھ تعاون کریں لیکن آپ نے تعاون کے بجائے ایک جملہ کیا جس کو تاریخ نے اپنے اوراق میں نقش کر لیا آپ نے کہا :
میں خدا کی خوشنودی کے لیے ان مدارس میں خدمات سر انجام دے رہی تھی اب جبکہ اس کا الحاق حکومت کے ساتھ ہو گیا تو میرے یہاں رہنے کی بھلا کیا توجیہ ہو سکتی ہے۔ ؟ ۷
یہ جملہ کوئی عام خاتون حکومت کے خلاف کبھی نہیں کہہ سکتی آپ چاہتی تو تعاون کر سکتی تھی مگر آپ نے فقط چند روز کی عیش و عشرت کے بجائے خدا کی خوشنودی حاصل کر لی۔ اگر کوئی اور ہوتا تو اس میں اتنی جرآت نہیں ہوتی کہ وہ صدامی دہشت گرد کے بھیجے گئے خط کا جواب اس طرح دے۔ مگر یہ کربلا سے حاصل کیا گیا درس زینبی تھا کہ آج انہی کی کنیز یزید وقت کے سامنے کھڑی ہیں جیسے جناب زینب س یزید کے مقابل میں کھڑی رہیں۔
آپ نے صرف تقاریر اور سیمینار پر اکتفا نہیں کیا بلکہ کئی کتابیں بھی تحریر کیں آپ اپنے گھر میں بیٹھ کرمجلہ لکھتی جس میں خواتین کے لیے مضامین ، کہانیاں تحریر کرتیں۔۸

جس کے تحریر کرنے کا مقصدخواتین میں شعور پیدا کرنا مغربیت کے شر سے بچنا، اور معاشرے میں اس کی کیا ذمہ داریاں بنتی ہیں اسی کے ساتھ شاعری کے زریعے معاشرے کی خواتین میں بیداری کی لہر پیدا کی. آپکی ایک نظم ملاحظہ ہو.
میں جانتی ہوں کہ
حق کا رستہ کھٹن ہے
مگر میں ان خاردار راہوں کو طے کروں گی
یہ وہ سفر ہے
جو ان گلوں سے سجا نہیں ہے
جو اپنی مہکار ندیوں میں بکھیرتے ہیں
مگر مرا تو یہ فیصلہ ہے
چلوں گی کانٹوں پہ خوں بہے گا
راہِ صداقت پہ اک نیا نقش پا بنے گا۔
میں ان شگوفوں کو جانتی ہوں
پیامِ فصل بہار بن کر
مجاہدوں کا وقار بن کر
ہجومِ گل میں رہیں جو تنہا
میں جانتی ہوں کہ
حق کی نصرت وفا کے خوگر سپاہیوں کے لیے رہی ہے
اگرچہ تھوڑے ہوں وہ سپاہی، وفا کے راہی
میں جانتی ہوں کہ
حق ہمیشہ رہا ہے باقی
ہے جو بھی اس کے خلاف،
بے شک اسے تباہی کا سامنا ہے
اسی لیے تو ہے میرا پیماں
کہ میں تو اسلام پر جیوں گی
رہ حقیقت پہ جان دوں گی
مری رگوں میں لہو ہے جب تک
ہر ایک باطل کا، ہر دغاکا
شدید انکار ہی کروں گی
میں جانتی ہوں کہ حق کا رستہ بڑا کٹھن ہے۹

جس راہ کا انتخاب، جو سفر آپ شروع کر چکی تھیں یقینا وہ ایک کھٹن راستہ تھا جس میں طرح طرح کی مشکلات و پریشانیاں ، صعوبتیں برداشت کرنی پڑنی تھیں ، مگر چونکہ یہ حق و صداقت کی راہ ،سر بلندی کی راہ، خدا تک پہنچنے کی بہترین راہ تھی اس لیے آپ نے اس راہ کا انتخاب کر لیا باطل کے خلاف آخری دم تک بر سر پیکار رہیں۔ طرح طرح کی مشکلات برداشت کیں، قید و بندھ ، گھر میں نظر بند کی گئیں مگر حق کی راہ کو کبھی نہیں چھوڑا.
آپ اسلامی دعوہ پارٹی خواتین ونگ کی سربراہ تھیں اس پارٹی کی بنیاد آپ کے بھائی شہید باقر الصدر نے حزب بعث کے خلاف رکھی تا کہ جو لادینیت عراق میں پھیلائی جا رہی تھی اس کو روکا جا سکے ۱۰ جناب زینب سلام اللہ علیہا جس طرح ہر میدان جہاد میں اپنے بھائی امام حسین ع کے شانہ بشانہ رہیں اسی سیرت پہ عمل کرتے ہوئے کنیز زینب س اپنے بھائی شہید باقر الصدر کے ہمراہ رہیں۔ کئی بار شہید باقر الصدر کو نظر بند، کئی بار قید کرنے اور مختلف قسم کے ٹارچر اور سزاوں کے باوجود آپ کے پائے استقامت میں کسی قسم کی لغزش نہیں دیکھی. سید باقرالصدر کا شمار بلاشبہ گذری صدی کے عظیم فلسفیوں، مذہبی اسکالرز اور مفکرین میں ہوتا ہے۔ آپ کی تحریروں اور قیادت نے عراقی عوام سمیت دنیا بھر کے مظلوموں و محروموں کو نہ صرف متاثر کیا اور حرارت دی، بلکہ آپ نے ایک ایسے ملک میں جہاں کے باشندے زیادہ تر اہل تشیع اور پھر اہل سنت تھے، کو اتحاد و وحدت کی لڑی میں پرونے اور باہمی اختلافات اور کدورتوں کو ختم کرنے کیلئے موثر آواز بلند کی اور اہم مواقع پر ایسے پیغامات دیئے کہ شیعہ و سنی ملکر استعمار اور اس کے زرخریدوں کے مدمقابل اٹھ کھڑے ہوں۔ انہوں نے نہ صرف حکمرانوں کو للکارا بلکہ ان نام نہاد مذہبی عناصر کو بھی چیلنج کیا جو انقلابی اسلامی فکر کی راہ میں رکاوٹ تھے۔ ۱۱
اپ نے اپنے بھائی شہید باقر الصدر کے ساتھ مل کر عظیم جہاد کیا۔ آپکے بھائی شہید باقر الصدر کو کئی بار گرفتار کیا گیا۔ 1979 میں اپکو صدام کے حکم پر گرفتار کیا گیا تو مثل جناب زینب س ان کی کنیز آمنہ بنت الہدیٰ میدان میں اتری. اور عوام میں اس بیداری کو پیدا کیا جو بیداری چودہ سو سال پہلے جناب زینب س نے لوگوں میں پیدا کر کے حق کی شناخت کروائی تھی۔ آپ حرم امام علی ع میں گئی اور ایسی تقریر کی کہ ہر فرد اشک بار ہو گیا۔ آپ کی اس پر اثر تقریر نے لوگوں میں جذبہ حریت پیدا کر دیا عراق میں جگہ جگہ مظاہروں کی وجہ سے آخر کار صدام کو شہید باقر الصدر کو رہا کرنا پڑا۔ ۱۲ مزاحمت فقط ایک بہن کی اپنے بھائی کے لیے نہیں تھی بلکہ ایک ایسے مجتہد، عالم دین، صاحب تصنیف، صاحب فکر، دین کا درد رکھنے والے مجاہد کے لیے تھی جنہوں نے عراقی اور دیگر مظلوم عوام کے حق میں آواز بلند کی. جنہوں کے آئندہ نسلوں کے لیے زمینہ سازی کرتے ہوئے بیداری کے ایسے بیج بوئے جس نے عراقی عوام کو صاحب فکر بنا دیا کہ وہ ظالم کے خلاف ڈٹ جائیں گردن چاہے کٹ جائے مگر حق کا راستہ نہ چھوڑا جائے۔ جتنی سختیاں اور قربانیاں دینی پڑیں دے دیں مگر ظالم کے سامنے جھکیں نہیں. اور یہ درس باقر الصدر نے امام علی ع کی حیات مبارکہ امام حسین ع کے قیام سے سیکھا تھا اور آمنہ بنت الہدیٰ نے مزاحمت کرنا جناب فاطمہ زہرا س اور جناب زینب س سے سیکھا۔

آپ کے کردار نے سر زمین عراق میں انقلاب برپا کر دیا. اب فقط اس سر زمین کو سیراب ہونے کی ضرورت تھی ایسے خون سے سیراب ہونا جو ہر زمانہ میں ایک باقر الصدر جیسا بہادر آمنہ بنت الہدیٰ جیسی نڈر مجاہدہ پیدا کرئے ۔ جو ہر زمانے کے یزید کو للکارے اور حسینیت کا پیغام دے آخر کار اس سر زمین کو باقر الصدر اور آمنہ بنت الہدیٰ کے خون سے سیراب کیا گیا۔5 اپریل 1980 کو آپ کو اور اپنے بھائی شہید باقر الصدر کو صدام کے حکم پر گرفتار کر لیا گیا اور جیل میں آپ کو اور آپکی بہن کو مختلف اذیتیں دی گئی صدا م کے سامنے بھی آپ مزاحمت کرتے رہے اپکو مزید اذیت دینے کے لیے صدام کے حکم دیا کہ آمنہ بنت الہدیٰ کو میرے سامنے لایا جائے اور شہید باقر الصدر کے سامنے لوہے کی سلاخ سے آمنہ بنت الہدیٰ پر تشدد کیا گیا آپ نے للکار کر صدام ملعون سے کیا کہ اگر تم واقعی مرد ہو تو آؤ مردوں کی طرح مجھ سے مقابلہ کرو آپ کے اس جرات مندانہ جملے کو سننے کے بعد صدام غصب ناک ہوا اور اپ کو اور آپکی بہن کو گولی مار کر شہید کر دیا اور ایک جملہ کہا "میں یزید کی طرح کام نہیں کروں گا کہ اس نے حسین ع کو تو مار دیا مگر زینب س کو چھوڑ دیا اور زینب س نے اپنے حصے کا کام کر کے یزید کا تختہ الٹ دیا" ۱۳ کیوں کہ وہ جانتا تھا اگر باقر الصدر کو مار دوں گا اور اس کی بہن کو چھوڑ دوں گا تو اس کی یہ نڈر بہن ڈٹ کر میرا مقابلہ کرئے گی جو کام باقر الصدر نے شروع کیا اس کو تکمیل تک پہنچانے کے لیے معاشرے میں انقلاب پیدا کرئے گی اور میری حکومت کو ختم کر دے گی جیسے زینب س نے پیغام حسین ع دیتے ہوئے یزید کو دنیا کے سامنے اس کا اصلی چہرہ واضح کرتے ہوئے ذلیل کیا تھا۔ آمنہ بنت الہدیٰ کو شہید کرنے کے بعد باقر الصدر کو بھی شہید کر دیا اور خوش تھا کہ اس نے حق کا ساتھ دینے والوں کو ختم کر دیا. مگر وہ یہ بھول گیا تھا کہ یہ مقدس خون ضرور رنگ لائے گا۔

ایک خاتون کا ظالم و جابر حکمران کے سامنے بر سر پیکار ہو جانا بالکل آسان نہیں ہے۔ مگر یہ سیرت جناب فاطمہ س اور سیرت جناب زینب س سے سیکھا ہوا درس تھا کہ آج ان کی کنیز وقت کے یزید کے خلاف ڈٹ گئی تھی۔ آج کے دور میں ہماری خواتین کے لیے آمنہ بنت الہدیٰ کی زندگی مزاحمت کا بہترین کردار ہے عورت کے لیے بہت سے مقام جہاد کی حیثیت رکھتے ہیں۔گھر میں شوہر کی خدمت کرنا جہاد ہے لیکن اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ ایک خاتون کو اسلام کسی شعبے میں جانے سے منع کرتا ہے اور نہ ہی یہ حق کسی کو دیتا ہے کہ اگر خاتون کوئی صلاحیت رکھتی ہو اور اسے گھر تک محدود کر دیا جائے۔ اسی کے ساتھ اپنی اولاد کی بہترین تربیت کرنا ان کو معاشرے کا بہترین فرد بنانا ایسا فرد جو معاشرے میں بہترین کردار ادا کرئے جس سے خاندان گھر اور معاشرہ مستحکم بن سکے عورت کا جہاد ہے خوف خدا رکھنے والی نیک۔اور دین دارعورت معاشرے کو جنت کی مانند بنا دیتی عورت اگر با حیا عالمہ ہو گی تو معاشرہ بھی نیک ہوگا آج کی خواتین کو چاہیے اپنے قلم کو ظالم کے خلاف تلوار کاغذ کو ڈھال بنائیں۔ سوشل میڈیا جس کو رہبر معظم نے نرم جنگ کا میدان قرار دیا ہے اس میدان میں جہاد کریں۔ تا کہ حسینیت کا پیغام دنیا کو پہنچا سکیں۔ اپنی اولاد کی بہترین تربیت کریں اپنی بیٹیوں کو کردار فاطمہ س سیکھائیں تا کہ وہ اپنی چادر کے زریعے دفاع کریں بیٹوں کو کردار حسینہ سیکھائیں تا کہ وہ باطل کے سامنے کبھی نہ جھکیں اور اسلام کا دفاع کریں ۔پروردگار عالم ہم سب کو جناب زہرا س جناب زینب س کی سیرت پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے امین۔


حوالہ جات

1. فاطمہ فاطمہ ہے، ڈاکٹر علی شریعتی،
2. حضرت سمیہ کی شہادت، جاوید چوہدری،صفحہ اول، ۴جنوری۲۰۱۶ء
3. عورت گوہر ہستی، رہبر سید علی خامنہ ائ
4. الحسون اعلام نسا المؤمنات، ۱۴۱۱ق،۷۴ص
5. شہید الصدر ریسرچ سنٹر، شہیدہ بنت الہدیٰ کی شخصیت، شفتنا اردو+ اسلام و نقش در عرصه دفاع۱۳۹۷/۰۲/۲۹
6. الحسون اعلام نسا المومنات،۱۴۱۱ق، ۷۸ص
7. الحسون اعلام نسا المومنات،۱۴۱۱ق,۷۸ص
8. بنت ‌الہدی صدر، الحسون، اعلام النساء المؤمنات، ۱۴۱۱ق، ص۷۸-۷۹ بہ نقل از ملحق صحیفہ الجہاد الصادر بتاریخ ۲۰ جمادی الثانیہ ۱۴۰۳ ھ. نیسان ۱۹۸۳ ء
9. نوشته شده در دوشنبه ۲۰ فروردین ۱۳۹۷، توسط اکبر حسین مخلصی
10. عظیم فلسفی باقر الصدر شہید ، مرجیعیت اور آج کا عراق، ارشاد حسین،۹ اپریل،۲۰۱۵
11. عظیم فلسفی باقر الصدر شہید ، مرجیعیت اور آج کا عراق، ارشاد حسین،۹اپریل،۲۰۱۵
12. الحسون، اعلام النساء المؤمنات، ۱۴۱۱ق، ص۸۸-۸۹
13. شہادت آیت اللہ باقر الصدر اور آمنہ بنت الہدیٰ ،۸اپریل۲۰۱۷
منابع
1.ویکی شیعہ نیٹ
2. شیعیت نیوز
3.شہید صدر ریسرچ سینٹر
4.تقریب.کام

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .

تبصرے

  • Unknown PK 18:23 - 2022/04/08
    0 0
    ماشا اللہ آپکا انداز تحریر بہت عمدہ ہے