۲۸ فروردین ۱۴۰۳ |۷ شوال ۱۴۴۵ | Apr 16, 2024
شهید صدر

حوزہ/انسانی تاریخ میں بہت کم ایسے مفکرین پائے گئے ہیں جنہوں نے اپنے جامع کمالات کے ذریعے مختلف فکری اور عملی میدانوں میں نام روشن کیا ہو اور انسانی معاشرے کے لیے قیمتی آثار کا تحفہ دیا ہو۔ شہید سید محمد باقر الصدر علیہ الرحمہ نہ صرف عالم اسلام بلکہ تاریخ انسانی کی ان عظیم شخصیات میں سے ایک ہیں جنہوں نے فکر و عمل کے مختلف میدانوں میں لازوال تاریخ رقم کی ہے۔

تحریر: سکندر علی بہشتی

حوزہ نیوز ایجنسی انسانی تاریخ میں بہت کم ایسے مفکرین پائے گئے ہیں جنہوں نے اپنے جامع کمالات کے ذریعے مختلف فکری اور عملی میدانوں میں نام روشن کیا ہو اور انسانی معاشرے کے لیے قیمتی آثار کا تحفہ دیا ہو۔ شہید سید محمد باقر الصدر علیہ الرحمہ نہ صرف عالم اسلام بلکہ تاریخ انسانی کی ان عظیم شخصیات میں سے ایک ہیں جنہوں نے فکر و عمل کے مختلف میدانوں میں لازوال تاریخ رقم کی ہے۔ روحی اور فکری عظمت نے آپ کو تاریخ تشیع کی منفرد اور مایہ ناز شخصیت بنا دیا ہے۔ دینداری، تقویٰ، نبوغ فکری، اخلاص، شجاعت، مسلسل جدوجہد، وسیع علم اور دردمندی ان نمایاں اوصاف میں سے ہیں، جو ان کی زندگی اور آثار میں جگہ جگہ مکمل طور پرواضح ہیں۔ شہید صدرؒ نہ صرف حوزہائے علمیہ،علما اورطلاب دین کے لیے ایک کم نظیر نمونہ اور مثال ہیں؛ بلکہ ان تمام افراد کے لیے آئیڈیل بن سکتے ہیں، جنہوں نے حقیقت اور علم کی راہ میں قدم رکھا ہے اور ان کے وجود سے کسب فیض کیا ہے۔
اس عظیم شخصیت کی زندگی، اسلام کے احیاء اور شریعت کے تحفظ کے سلسلے میں بھر پور فکری اور عملی جدوجہد سے عبارت ہے۔ آپ نے اس راہ میں بہت زیادہ سختیاں اور مشکلات برداشت کیں۔ شہید صدر ؒ نے ایک بلند ہدف کی راہ میں، موثر فکری اور عملی قدم اٹھائے کہ آپ کی جدوجہد کے بنیادی محور اورگوہر کو زمان اور مکان کے تقاضوں کے مطابق معارف اسلام کی تطبیق میں تلاش کیا جا سکتا ہے۔ آپ نے اس موضوع کو وسیع طور پر اسلامی علوم سے مربوط مسائل میں مورد بحث قرار دیا ہے اور قیمتی آثار بھی یادگار چھوڑے ہیں۔
شہید صدر ؒ کی زندگی کے بارے میں مختلف جہتوں سے بحث ہوسکتی ہے لیکن ہم یہاں تفصیل سے اجتناب کرتے ہوئے ان کی علمی، فکری اور سیاسی واجتماعی شخصیت کا اجمالی جائزہ لیں گے۔

۱۔ علمی وفکری شخصیت:

شخصیت کی جامعیت، وسیع علم و دانش،گہری فکر اور تخلیقی ذہن نے شہید صدرؒکو عالم اسلام کی ایک برجستہ شخصیت میں تبدیل کر دیا ہے۔ آپ کی تحقیقات اور مطالعات، فقہی، فلسفی، تاریخی اور اقتصادی موضوعات پر مشتمل ہیں، جن میں سے ہر موضوع پر آپ نے بے مثال آثار پیش کئے ہیں۔ ایک اہم خصوصیت جو شہید صدر ؒ کو دوسروں سے ممتاز کرتی ہے، وہ جدت،تنقیدی نگاہ اور ایسی خلاقیت ہے جس نے ان کے آثار پر حیرت انگیز اثر چھوڑا ہے اور وہی ان آثار کے عمیق اورجدید بننے کا سبب بنی ہے۔ علمی جامعیت اور جدت کی صلاحیت کے ذریعے انہوں نے اپنے آثار میں گزشتہ نظریات پر علمی تنقید کے علاوہ جدید نظریات کو بھی بیان کیا ہے۔ علمی وسعت اور مختلف مکاتب و نظریات پر عبور رکھنے کی وجہ سے، وہ ہر پہلو سے متنوع موضوعات کی تحقیق وجستجو کے ساتھ ساتھ جدید راہ حل اور نظریات پیش کرنے میں بھی کامیاب ہوئے ہیں۔ شہید صدر ؒ نے بہت سے علمی اور اسلامی موضوعات پر اپنی تحقیقات پیش کی ہیں، جن میں فقہ، اصول، فلسفہ، منطق، تفسیر اور اقتصادی واجتماعی موضوعات شامل ہیں۔

۲۔ اجتماعی وسیاسی شخصیت:

شہید صدرؒ نہ صرف فکری و نظری مسائل کے مرد میدان تھے؛ بلکہ سیاسی اور اجتماعی حوالے سے بھی آپ نے حیران کن اور فعال کردار ادا کیا ہے۔ آپ کی نظر میں اسلامی معاشروں کی مشکل صرف فکری اور علمی پسماندگی ہی نہیں، بلکہ سیاسی میدانوں میں عمل کا فقدان اور ظالم وبے دین حکمرانوں کا مسلط ہونا بھی ہے اسی لئے جوانی کے آغاز سے ہی آپ نے سیاست کے میدان میں قدم رکھا۔ نظریاتی لحاظ سے آپ نے جو تحقیقاتی اور علمی کارنامے انجام دئیے ان کے اصلی مقاصد میں سے ایک مقصد، اسلامی حکومت کا قیام تھا۔شہید صدر ؒکی نظر میں اسلامی حکومت صرف ایک دینی ضرورت نہیں، بلکہ انسانی تمدن کی ضرورت بھی ہے؛ کیونکہ یہی وہ واحد راستہ ہے جس کے ذریعے انسان کی صلاحیتیں پروان چڑھتی ہیں اور اس کو موجودہ انتشار، پسماندگی اور ہلاکتوں سے نجات دلا کر اپنے اصلی مقام یعنی: انسان کو تمدن کے اعلی مقام تک پہنچا سکتا ہے۔
شہید صدرؒ نے عملی لحاظ سے بھی اسلامی حکومت کی تشکیل کے لئے جدوجہد کی، عراق پر مسلط ظالم حکمران کے بالمقابل قیام کیا اور "حزب الدعوۃ الاسلامیہ" کی تاسیس کے ذریعے " بعث پارٹی" کے خلاف ایک وسیع سیاسی تحریک کو منظم کیا۔ شہید صدر، سیاسی جدوجہد میں تنظیمی فعالیت کے ساتھ ساتھ مسلح جدوجہد پر بھی زور دیتے تھے۔
اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد شہید صدرؒ نے فکری پشت پناہی کے ساتھ ساتھ عملی لحاظ سے بھی اسلامی انقلاب کی حمایت کی۔ آپ نے عراق کے مسلمانوں کو ایرانی عوام کے انقلاب کی طرح اقدام کرنے اور اس سلسلے میں امام خمینی ؒ کے نقش قدم پر چلنے کی دعوت دی۔شہید صدر ؒ کی نظر میں امام خمینی ؒ وہ شخصیت تھے جن سے بہت ساری امیدیں وابستہ تھیں۔ اس بارے میں عراقی عوام سے خطاب کرتے ہوئے آپؒ فرماتے ہیں:”کیا یہ معقول ہے کہ امام خمینیؒ جیسے ایک دینی مرجع، اسلامی حکومت قائم کرکے ہمارے خوابوں کو شرمندہ تعبیر کریں اور ہم ان کی حمایت اور تائید نہ کریں، صرف اس لیے کہ بعثی حکومت ہم سے ناراض ہوگی“؟
شہید صدر ؒاس بات کے معتقد تھے کہ جو لوگ ایران میں اسلام اور مسلمانوں کا دفاع کرتے ہوئے قتل ہورہے تھے، وہ شہید ہیں اور خدا ان کو امام حسین ؑکے ساتھ محشور کرے گا۔ آخر کار خود بھی، اسی بڑی تمنا اور ہدف کی راہ میں ظالم بعثیوں کے ہاتھوں شہادت کے مقام پر فائز ہوئے۔
آپ کی فکری عظمت، سوچ کی گہرائی، فکری وعملی شجاعت، انتھک جدوجہد اور اسلام پر گہرا ایمان اس بات کی دعوت دے رہا ہے کہ تمام مسلمان مفکرین، دانشورحضرات اور ذمہ دار افراد اس عظیم انسان کی شخصیت وافکار پر گہری توجہ دیں اور اس کے فکری وعملی اسلوب کی پیروی کریں تاکہ آپ کی وسیع فکر سے ایک بار پھر، نئی اور جدید فکر کے متلاشی اذہان سیراب ہوسکیں۔
مفکراسلام، شہید رابع آیت اللہ العظمی سید محمد باقر الصدر (قدس سرہ) کی شخصیت، افکار اور خدمات پر عربی و فارسی زبانوں میں بہت کچھ لکھا جاچکا ہے لیکن اردو زبان میں شہید کی چند کتابوں کے ترجمے کے علاوہ اب تک کوئی تحقیقی کام نہیں ہوا ہے۔ اس وجہ سے ہمارا معاشرہ ان کی فکری، علمی اور اجتماعی اور سیاسی جدوجہد سے آگاہ نہیں ہے۔ شہید صدرؒ کی علمی وفکری شخصیت کی جامعیت اور آفاقیت کے نمونے، وہ قیمتی اور گرانبہا کتابیں ہیں جو تفسیر قرآن، علم اصول وفقہ، فلسفہ، منطق، اسلام کے سیاسی و اقتصادی نظام اور سیرت اہل بیتؑ کے متعلق ہیں جن پر مدلل اور واضح انداز میں ابتکاری اور جدید نظریات پیش کئے گئے ہیں۔ اسی طرح آپ کے حضور زانوئے تلمیذ تہہ کرکے تعلیم و تربیت پانے والے وہ ہونہار تلامذہ بھی ہیں جن میں سے ہر ایک حوزہ ہائے علمیہ اور اسلامی معاشرے میں فکری،علمی اور دینی حوالے سے خاص مقام رکھتے ہیں۔
شہید صدرؒ نے اسلامی فکر کو زندہ کرنے اور امت مسلمہ پر اسکی عظمت اور اسلام کی حقانیت کو ثابت کرنے کے لئے اپنی زندگی کے تمام لحظات اور جدوجہد کو ان موضوعات اور اجتماعی امور پر نچھاور کیا جن سے اسلامی معاشرہ روبرو تھا۔عراق کی سرز مین پر مارکسزم اور دیگر الحادی مکاتب، اپنے نظریات پھیلا رہے تھے اور خود کو بشریت کا نجات دہندہ قرار دے رہے تھے، تو دوسری طرف حوزہ ہائے علمیہ اوراس کے نتیجے میں اسلامی معاشرے پر خمود و جمود کی کیفیت طاری تھی۔ دشمنان اسلام کی جانب سے پیش کرنے والے انحرافی نظریات کامقابلہ کرنے کی کسی میں ہمت نہ تھی۔ اسی لئے سینکڑوں جوان اور تعلیم یافتہ افراد ان کے جال میں پھنس کر اسلام سے دور ہورہے تھے۔ ایسے میں شہید صدرؒ ہی وہ عظیم مجاہد تھے جو اپنی فکری وعلمی کاوشوں کے ذریعے التقاطی اور انحرافی نظریات کوردّ کرنے، مسلمانوں کو ذہنی اور فکری پسماندگی سے نکالنے اور معاشرے میں احساس ذمہ داری اجاگر کرنے کے لیے کمر بستہ ہوئے۔
آج بھی شہید صدرؒ کا فکری اور علمی سرمایہ ہمارے درمیان موجود ہے، جس سے الہام لیتے ہوئے ہم اپنے معاشرے میں بیداری، اصلاح اور انحرافی مکاتب سے مقابلے کے لئے قدم اٹھا سکتے ہیں۔ آپؒ کے نظریات اسلام کے عقیدتی، فکری، اجتماعی، ثقافتی، تاریخی اور سیاسی پہلوؤں پر مشتمل ہیں۔ ان سے آشنائی اور ان کا عمیق مطالعہ ایک عالم، محقق اور داعی دین کے لئے خاص اہمیت کا حامل ہے۔

نوٹ: حوزہ نیوز پر شائع ہونے والی تمام نگارشات قلم کاروں کی ذاتی آراء پر مبنی ہیں حوزہ نیوز اور اس کی پالیسی کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .