۷ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۷ شوال ۱۴۴۵ | Apr 26, 2024
شہید صدر

حوزہ/ مقررین کا کہنا تھا کہ بیسویں صدی کی بڑی شخصیات میں سے ایک اہم شخصیت شہید باقر الصدر ؓ کی ہے۔ جنہوں نے مختلف علمی وفکری میدانوں میں انمٹ نقوش چھوڑے ہیں۔جنہوں نے اس دور کے سب سے اہم میدان یعنی اقتصادیات میں اپنی مبتکرانہ فکر کے حامل جدید نظریات پیش کئے ہیں۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،جامعۃ المصطفی العالمیہ کراچی (شعبہ تحقیق) کے زیر اہتمام ٩ اپریل ٢٠٢٢ء بروز اتوار رات ٠٩:٣٠ بجے مغز متفکر اسلام شہید سید محمد باقر الصدر ؓ اور ان کی خواہر شہیدہ آمنہ بنت الہدیٰ ؓ کے یوم شہادت کے حوالے سے ایک بین الاقوامی آن لائن علمی و فکری نشست "شہید صدر عالمی مفکر " کے عنوان سے منعقد ہوئی۔ جس میں پاکستان، ایران اور عراق سے شہید باقر الصدر ؓ کے چاہنے والوں کی ایک معقول تعداد نے شرکت کی۔اس نشست کے میزبان برادر منظوم ولایتی تھے۔

اس علمی وفکری نشست کا آغاز تلاوت کلام پاک سے ہوا۔ جس کی سعادت ایران کے شہر آشتیان سے قاری محمد رفیق انجم نے حاصل کی۔اس کے بعد منظوم ولایتی نے شرکاء کو خوش آمدید کہتے ہوئے کہا: بیسویں صدی کی بڑی شخصیات میں سے ایک اہم شخصیت شہید باقر الصدر ؓ کی ہے۔ جنہوں نے مختلف علمی وفکری میدانوں میں انمٹ نقوش چھوڑے ہیں۔جنہوں نے اس دور کے سب سے اہم میدان یعنی اقتصادیات میں اپنی مبتکرانہ فکر کے حامل جدید نظریات پیش کئے ہیں۔

یاد رہے کہ اس نشست کے مہمانان میں کراچی پاکستان سے ڈاکٹر محسن نقوی، قم المقدس ایران سے ڈاکٹر فرمان علی سعیدی اور سامرا عراق سے شیخ سجاد علی ساجدی تھے، مگر متاسفانہ فنی مشکلات کی وجہ سے ڈاکٹر سید محسن نقوی اور ڈاکٹر سعیدی علمی نشست میں شرکت نہ کرسکے۔

نشست کے تیسرے مہمان شیخ سجادعلی ساجدی نے سامراء عراق سے شہید باقر الصدرؓ کے افکار ونظریات پر سیرحاصل گفتگو کی اور شرکاء کے سوالات کے قانع کنندہ جوابات بھی دئیے۔

ذیل میں ان کی گفتگو کے اہم نکات بطور خلاصہ پیش خدمت ہیں:

شیخ سجاد علی ساجدی نے اپنی گفتگو کا آغاز آیت اللہ خوئیؓ کے اس قول سے کیا کہ آیت اللہ خوئیؓ نے شہیدصدرؓ کے بارے میں فرمایا:
"سید صدرؓ مظلوم ہیں کہ آپ شرق میں پیدا ہوئے اگر مغرب میں پیدا ہوتے وہ کیاکرتے"۔
اسی طرح رہبر انقلاب نے آپ کونابغہ اور بے مثال شخصیت قرار دیا ہے۔
شہیدصدرؓ جس موضوع پر گفتگو کرتےاس میں انفرادیت نمایاں ہوتی۔

شیخ ساجد علی ساجدی نے شہیدصدرؓ کے بعض انفرادی نظریات کی جانب اشارہ کیا:
پہلانظریہ حوزہ کے نصاب ونظام میں تبدیلی کی کوشش ہے۔جس کے نمایاں اثرات آج حوزہ علمیہ قم ونجف کے علاوہ پاکستان میں بھی نظر آتے ہیں۔آپ نے علم اصول میں جدید نظریات کی بنیاد رکھی۔اور فقہ میں بھی اسی روش پر کام کرنا چاہتے تھے مگر آپ کوفرصت نہ ملی۔
دوسری خصوصیت شہیدؓ کے نظریات میں طاغوت وظالموں کے حوالے سے واضح موقف ہے اسی وجہ سے جرات کے ساتھ صدام کامقابلہ کیا۔

تیسری اہم خصوصیت جب حوزہ نجف کے لیے مشکلات کھڑی ہوئیں تو وہ سے ہجرت اور ترکِ حوزہ کے بارے میں آپ نے گلہ کیا کہ ہم میدان چھوڑ کر صدام کے لیے راہ ہموار کر رہے ہیں۔جانی خطرہ ہونے کے باوجود آپ نے امام حسین علیہ السلام کی راہ اپنائی کہ اس وقت قوم کو رہنمائی کی ضرورت ہے لہذا آخری دم تک صدام مقابلہ کیا اور بالآخر مظلومانہ شہید کر دئیے گئے۔

اس کے بعد شیخ سجا د علی ساجدی نے شہیدصدرؓ کے حوالے سے شرکاء کے سوالات کے جوابات دئیے۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ شہیدؓ اصول میں اٹل اور اپنے عقیدے پر مکمل ایمان کے ساتھ میدان میں لچک دار رویہ رکھتے تھے۔آپ فکری وعملی حوالے سے امام خمینی ؓ کے پیرو تھے مگر اس راہ میں اختلاف نظر رکھنے والوں کا بھی دل سے احترام کرتے تھے۔
یہ ہمیں درس ہے کہ کبھی بھی اختلافِ نظر کونفرت و دشمنی میں تبدیل نہیں کرنا چاہیے۔یعنی علمی اختلاف کو عملی اختلاف میں بدلنے سے احتراز کرنا لازمی ہے۔

ایک اور سوال کے جواب میں شہیدؓ کی تبدیلی کے نظریہ کو جامع قرار دیتے ہوئے کہا:
شہید مختلف جہات میں تبدیلی چاہتے تھے۔سیاست۔اقتصاد۔بینکنگ سسٹم۔فلسفہ۔۔۔۔۔۔ یہی وجہ ہے کہ اِن تمام موضوعات پر آپ نے خامہ فرسائی کی اور دقیق آثار چھوڑے ہیں۔

یاد رہے کہ اس بین الاقوامی علمی وفکری نشست میں شہید باقر الصدر ؓ سے متعلق رھبر انقلاب حضرت آیت اللہ سید علی خامنہ ای کے بیانات پر مشتمل ایک اہم ڈاکومینٹری بھی دکھائی گئی۔جس میں رھبر انقلاب نے شہید صدرؓ کو حقیقی معنی میں ایک نابغہ روزگار شخصیت قرار دینے کے علاوہ حقیقی معنی میں مجتہدانہ فکر کی حامل شخصیت کے طور پر تعارف کرایا ہے۔

شیخ سجاد علی ساجدی نے ایک سوال کے جواب میں فرمایا کہ شہید صدرؓ کے آثار کو پاکستان میں جدید نوجوان نسل تک منتقل کرنے کیلیے باقاعدہ ایک ادارہ ہونا چاہیے جہاں سے آپ کی تمام کتابوں کو نشر کرنے کے علاوہ دوسرے ذرایع جیسے بروشرز، پمفلٹس، سوشل میڈیا پر موثر کام وغیرہ کے ذریعے سے یہ کام باآسانی انجام دیا جاسکے۔

آخر میں اس بین الاقوامی علمی وفکری نشست کے میزبان منظوم ولایتی نے تمام شرکاءِ نشست خاص طور پر منتظمین اور شیخ سجاد علی ساجدی کا صمیمانہ شکریہ ادا کیا اور یوں یہ علمی نشست اپنے اختتام کو پہنچی۔

شہید صدر حوزوی نظام و نصابِ تعلیم می تبدیلی کے خواہاں تھے

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .