بدھ 30 اپریل 2025 - 11:30
میں واپس ایران جاؤں گا تاکہ وہاں اسلام اور مسلمانوں کی خدمت کر سکوں

حوزہ/ جب میں سامرا میں آیت اللہ شیخ عبدالکریم حائری کے ساتھ تھا اور وہ ایران جانے کا ارادہ رکھتے تھے، تو میں نے ان سے عرض کیا: آپ اُن افراد میں سے ہیں جو آیت اللہ شیرازی کے بعد سب کی نگاہوں میں ہیں، پھر آپ ایران کیوں جانا چاہتے ہیں؟ انہوں نے جواب دیا: "میں مرجع نہیں بننا چاہتا، ایران جانا چاہتا ہوں تاکہ اگر مجھ سے کچھ بن پڑے تو اسلام اور مسلمانوں کی خدمت کروں۔"

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، آیت اللہ شیخ عبدالکریم حائری، بانی حوزہ علمیہ قم اور میرزای شیرازی کے ممتاز شاگرد، حوزہ ہائے علمیہ کی تاریخ کا ایک درخشاں باب ہیں۔ وہ نہ صرف فقہ اور اخلاق میں ممتاز تھے بلکہ سیاسی بصیرت اور دوراندیشی کے بھی حامل تھے۔

اساتذہ کرام:

ان کے اساتذہ میں آیت اللہ میرزای شیرازی، آیت اللہ محمد تقی شیرازی (میرزای دوم)، آیت اللہ میرزا ابراہیم محلاتی شیرازی، آیت اللہ شیخ فضل اللہ نوری، آیت اللہ سید محمد فشارکی اور آیت اللہ ملا محمد کاظم خراسانی جیسے بزرگ علماء شامل تھے۔

ایران واپسی کا فیصلہ:

"سید جمال الدین ہاشمی گلپایگانی" حوزہ علمیہ نجف کے اکابرین اور معاصر عرفاء میں سے تھے، نے شیخ عبدالکریم حائری کے ایک واقعے کو بیان کرتے ہوئے کہا: "میں حاج شیخ عبدالکریم کے ساتھ سامرا میں تھا جب وہ واپس ایران جانے کا ارادہ کر رہے تھے۔

میں نے ان سے پوچھا: آپ ان افراد میں سے ہیں جنہیں آقائے شیرازی کے بعد "مشار بالبنان" (مرجعیت کے اہل) سمجھا جاتا ہے، پھر آپ ایران کیوں جا رہے ہیں؟

انہوں نے جواب دیا: "میں مرجع بننا نہیں چاہتا، میں ایران جانا چاہتا ہوں۔ اگر میری استطاعت ہوئی تو اسلام اور مسلمانوں کی کوئی خدمت کروں گا۔"

وہ واضح طور پر دیکھ رہے تھے کہ ایران میں دین اور روحانیت کا مقام وہ نہیں جو ہونا چاہیے۔

وہ روحانیت کے مرکز کو، جس پر عقائد کی نشوونما اور ترقی کا انحصار تھا، کمزور پا رہے تھے۔

انہوں نے صاحب عروہ، آیت اللہ سید کاظم یزدی کے انتقال کے بعد اپنے استاد آیت اللہ محمد تقی شیرازی کی دعوت پر بھی عراق واپس جا کر مرجعیت کو سنبھالنا قبول نہ کیا۔ بلکہ کہا: "میں ایران جاؤں گا تاکہ اسلام اور مسلمانوں کی خدمت کر سکوں۔" انہوں نے ایران کے دینی و سماجی حالات کو محسوس کیا کہ وہاں دین و روحانیت کا مقام کمزور ہو چکا ہے۔

فکری انحرافات سے مقابلہ:

وہ دیکھ رہے تھے کہ ایران میں الحادی، مادی، اور صوفی منش مکاتب فکر کو فروغ حاصل ہو رہا ہے اور یہ عوام کو دینِ خالص سے دور کر رہے ہیں۔ اسی لیے انہوں نے ایران میں قیام کا فیصلہ کیا تاکہ فکری و اعتقادی بنیادوں کو مستحکم کیا جا سکے۔

حوزہ سازی:

آخرکار، تھوڑے ہی عرصے کے بعد میرزای دوم بھی حیات جاوید کو لبیک کہہ گئے اور شیخ عبد الکریم مرجعیت کے لئے ایک نمایاں نام بن کر سامنے آئے۔

البتہ حاج شیخ کی مرجعیت، قم شہر کے سفر اور وہاں کے حوزہ علمیہ کی تولیت قبول کرنے کے بعد، پہلے سے زیادہ وسیع ہو گئی اور ان کے مقلدین کا دائرہ ایران سے عراق اور ہندوستان تک پھیل گیا۔

حاج شیخ اسی مقصد کے تحت، سامرا میں طویل مدت تک تعلیم حاصل کرنے کے بعد ایران روانہ ہوئے اور شہر اراک میں ایک مدرسہ علمیہ قائم کیا اور اس علاقے کو دیگر شیعہ مراکز کے درمیان ایک علمی مرکز میں تبدیل کر دیا۔

یہ بظاہر مقامی حوزہ، شیخ عبد الکریم کی علمی نگرانی اور ہمہ جہت مدیریت کے زیر سایہ اس مقام تک پہنچا کہ خود شیخ نے حوزہ اراک اور سامرا کا موازنہ کرتے ہوئے کہا: "میں حوزہ اراک کو سامرا سے کمتر نہیں سمجھتا۔"

آخرکار یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ اگر "آیت اللہ شیخ فضل اللہ نوری" میرزای شیرازی کی استعمار ستیزی کے پہلو سے سب سے زیادہ متاثر ہوئے تھے یا اگر "مرحوم محقق نائینی" اپنے استاد کے سیاسی اور خاص طور پر استبداد ستیزانہ پہلو سے کچھ نظریات کو یادگار کے طور پر لے گئے تھے، تو جناب شیخ عبد الکریم، میرزای بزرگ کی ادارہ سازی، مدیریت اور مکتب سازی کے پہلو سے متاثر ہوئے اور وہ مکتب سازی کے ذریعے اپنے مدنظر سماجی، ثقافتی اور سیاسی تبدیلیوں کو آگے بڑھانے کی کوشش کر رہے تھے۔

دوسرے الفاظ میں، اگرچہ شیخ عبد الکریم حائری اپنے زمانے کے علم و تقویٰ میں سرآمد افراد میں شمار ہوتے تھے، تاہم ان کی نمایاں خصوصیت ان کی ادارہ سازی کی نیت اور ہدف ہے، جو خاص طور پر دو بابرکت اور ثمرآور حوزات علمیہ، یعنی حوزہ علمیہ اراک اور حوزہ علمیہ قم کے قیام اور مدیریت کی صورت میں ظاہر ہوئی ہے۔

ماخذ: آیینه داران حقیقت، ج ۲۷، ۱۳۸۲

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha