حوزہ نیوز ایجنسی| آیت اللہ العظمیٰ حاج شیخ عبدالکریم حائری یزدی رحمۃ اللہ علیہ (۱۲۴۸–۱۳۱۵ھ ش) کی جانب سے ۱۳۰۱ھ ش میں حوزہ علمیہ قم کے قیام کو آج ایک صدی مکمل ہو رہی ہے۔ یہ صدی، نہ صرف ایران میں نظام حوزوی تعلیم کی تجدید و اصلاح کی گواہ ہے بلکہ عالمِ تشیع میں ایک نئے فکری، اجتماعی اور سیاسی دور کے آغاز کا نشان بھی ہے۔
بانیِ حوزہ و احیائے مرکز علمی
آیت اللہ حائری، جو خود نجف اشرف کے جلیل القدر مراجع؛ میرزا شیرازی اور آخوند خراسانی کے شاگرد تھے، انہوں نے ایسے وقت میں قم کو مرکزیت دی جب حوزہ اصفہان زوال کا شکار اور نجف، مرکزی مقام پر فائز تھا۔ آپ نے درایت، بصیرت اور حکمت سے قم کو نہ صرف ایک علمی مرکز میں بدل دیا بلکہ اس کے لیے مضبوط ادارہ جاتی بنیادیں بھی فراہم کیں، جن میں مدارس فیضیہ اور دارالشفاء نمایاں ہیں۔
نظامسازی اور خودمختاری
آیت اللہ حائری نے نصاب تعلیم کو منظم، فقہ و اصول کے ساتھ فلسفہ، تفسیر و حدیث کو شامل کیا اور مالی طور پر حوزہ کو وقف اور عوامی اعانت کے ذریعے خودکفا بنایا۔ ان کا یہ وژن، مستقبل کی علمی خودمختاری کی بنیاد بنا۔
شاگردوں کی تربیت اور فکری تسلسل
آیت اللہ بروجردی، امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ، علامہ طباطبائی اور محقق داماد جیسے شاگردان، انہی کی تربیت کے نقیب بنے۔ اس نسل نے آگے چل کر علمی، فکری اور سیاسی محاذ پر تشیع کو نئی جہت عطا کی۔
سیاسی حکمت اور حوزہ کی بقا
رضاشاہ پہلوی کی تند پالیسیوں، جیسے قانون کشف حجاب اور مدارس کی سرکاری مداخلت، کے باوجود آیت اللہ حائری نے مدبرانہ موقف اپنایا۔ آپ نے قیام مسجد گوہرشاد میں شرکت سے اجتناب کرتے ہوئے حوزہ کو سرکوبی سے بچایا اور "خاموش ڈپلومیسی" سے حوزہ کی استقلال کو محفوظ رکھا۔
صد سالہ ثمرات: علم، سیاست اور بینالاقوامی اثرات
علمی پیشرفت: حوزہ علمیہ قم، اب دنیا کا سب سے بڑا شیعہ علمی مرکز ہے۔ تخصصی مدارس، ادارے جیسے دانشگاه مفید اور مؤسسہ امام خمینی، اسی دور کی پیداوار ہیں۔
سیاسی-اجتماعی اثر: حوزہ علمیہ قم نے انقلاب اسلامی میں نمایاں کردار ادا کیا اور نظام جمہوری اسلامی کی بنیاد میں شرکت کی۔
بین الاقوامی افق: افریقہ، ایشیا، یورپ و امریکا کے سینکڑوں طلبہ حوزہ قم میں تعلیم پاتے ہیں؛ دنیا کے مختلف ممالک میں شاخیں قائم کی گئی ہیں
موجودہ دور کے تقاضے اور حوزہ کی راہ
سو سال بعد، حوزہ کو آج نئے سوالات کا سامنا ہے:
کیا ہم آیت اللہ حائری کی اس میراث کو نئے زمانے کے تقاضوں سے ہم آہنگ کر پا رہے ہیں؟
کیا حوزہ اپنی علمی گہرائی کے ساتھ ساتھ معاشرے کے حقیقی سوالات کا جواب فراہم کر رہا ہے؟
کیا مرجعیت دینی، ڈیجیٹل دور میں اپنی معنویت قائم رکھے ہوئے ہے؟









آپ کا تبصرہ