آیت اللہ حائری، واقعی اسلام کے دل تھے

حوزہ/ ایران کے معروف عالم دین اور مؤسسِ حوزہ علمیہ قم، آیت اللہ شیخ عبدالکریم حائری یزدی، نے رضا شاہ پہلوی کے دور میں مذہب و روحانیت کو بچانے کے لیے صبر، حکمت اور ہوشیاری کا ایسا مظاہرہ کیا کہ خود رضا شاہ کو اعتراف کرنا پڑا: "تمام علما کو کنارے کر ڈالا، بس ایک یہی بچ گئے، اگر انہیں بھی ہٹا دیتا تو گویا اسلام کو ختم کر دیتا"۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، ایران کے معروف عالم دین اور مؤسسِ حوزہ علمیہ قم، آیت اللہ شیخ عبد الکریم حائری یزدی، نے رضا شاہ پہلوی کے دور میں مذہب و روحانیت کو بچانے کے لیے صبر، حکمت اور ہوشیاری کا ایسا مظاہرہ کیا کہ خود رضا شاہ کو اعتراف کرنا پڑا: "تمام علما کو کنارے کر ڈالا، بس ایک یہی بچ گئے، اگر انہیں بھی ہٹا دیتا تو گویا اسلام کو ختم کر دیتا"۔

آیت اللہ حائری، واقعی اسلام کے دل تھے

رضا شاہ کے دور میں جب جبری کشف حجاب، کلاہ شاپو اور لباس متحدالشکل جیسے قوانین نافذ کیے گئے، تب سب کی نظریں حوزہ علمیہ قم اور اس کے زعیم آیت اللہ حائری پر مرکوز ہو گئیں۔ حکومت کا ہدف صرف لباس کی تبدیلی نہیں بلکہ صنف علماء اور روحانیت کو کمزور کرنا اور مذہبی مراکز کو قابو میں لینا تھا۔ ایسے میں آیت اللہ حائری نے سکوت، صبر اور تدبیر کو اپنا اسلحہ بنایا تاکہ حوزہ علمیہ محفوظ رہے۔

سال 1307 شمسی میں لباس متحدالشکل کا قانون نافذ کیا گیا، جس میں صرف چند خاص طبقات کو استثناء دیا گیا، جن میں مراجع تقلید، امامان جماعت، فقہائے اہل سنت، طلاب اور مدرسین شامل تھے۔ اس قانون کے ذریعے حکومت نے علما کی تعداد کم کرنے کے لیے "جوازِ عمامہ" کا اصول متعارف کروایا۔ طلبہ کو زبردستی شہربانی لے جایا جاتا، ان سے التزام لیا جاتا کہ وہ عام لباس پہنیں، اور انہیں ہراساں کیا جاتا۔

آیت اللہ حائری، واقعی اسلام کے دل تھے

آیت اللہ حائری پر بھی شدید دباؤ ڈالا گیا کہ وہ کشف حجاب کے خلاف رضا شاہ کو تلگراف بھیجیں۔ جب عوام و علما کا اصرار بڑھا تو حکومت نے توہین پر اتر کر حاج شیخ کی عزت نفس کو نشانہ بنایا۔ بالآخر تلگراف بھیجا گیا، لیکن جواب میں توہین آمیز دھمکیاں موصول ہوئیں۔

اس کے بعد رضا شاہ خود قم آیا، آیت اللہ حائری کے گھر آیا اور انتہائی سخت لہجے میں کہا: "اگر رویہ نہ بدلا تو قم کے حوزے کو مٹی میں ملا دوں گا۔" اسی ملاقات کے بعد چند علما کو گرفتار و تبعید کر دیا گیا اور قم میں قانون کے نفاذ کی رفتار تیز کر دی گئی۔ مسجد گوہرشاد پر گولیاں برسائیں گئیں، علما و طلاب کی گرفتاریاں بڑھ گئیں۔

آیت اللہ حائری، واقعی اسلام کے دل تھے

ایسے ماحول میں آیت اللہ حائری نے طلبہ کو نصیحت کی کہ سب ساتھ میں باہر نہ جائیں، مجالس و اجتماعات سے پرہیز کریں تاکہ حکومت کی نظر میں نہ آئیں۔ وہ فرمایا کرتے: "اسلام جا چکا، اب ہمیں اسے باقی رکھنے کی کوشش کرنی ہے... امام حسین علیہ السلام کے اصحاب بھی جانتے تھے کہ قتل ہو جائیں گے، لیکن چاہتے تھے کہ حجت خدا کا وقت کچھ اور بڑھ جائے۔ ہمیں بھی یہی کرنا ہے۔"

انتہائی دباؤ، توہین اور بیماری کے باوجود آیت اللہ حائری حوزہ کو ترک نہ کر سکے۔ جب طلاب نے لباس بدلنے کے سلسلے میں فتویٰ مانگا تو فرمایا: "ہرگز محاذ کو مت چھوڑو، ظلم چلا جائے گا، تم باقی رہو گے۔"

آخر کار وہ وقت آیا کہ آیت اللہ حائری، جنہیں حکومت کی تمام تر شدت کا نشانہ بنایا گیا، حوزہ علمیہ قم کی بقا کے ساتھ سرخرو ہو گئے۔ ان کی بردباری، دوراندیشی اور قربانی نے حوزہ کو محفوظ رکھا اور ایک ایسے چراغ کو روشن رکھا جو آج بھی علم و دین کے لیے قائم ہے۔

آیت اللہ حائری، واقعی اسلام کے دل تھے

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha