بدھ 30 اپریل 2025 - 11:06
پہلوی دور میں حوزہ علمیہ قم کی بقا کے لیے تین مراجع تقلید کی خاموش جدوجہد

حوزہ/ آیت اللہ شیخ عبدالکریم حائری یزدی کی رحلت کے بعد، جب ایران سیاسی و اقتصادی بحران، جنگِ عظیم دوم، قحط اور بیرونی اشغال جیسے خطرناک حالات سے دوچار تھا، اُس وقت تین عظیم مراجع کرام – آیت اللہ العظمی حجت، آیت اللہ العظمی سید محمدتقی خوانساری اور آیت اللہ العظمی سید صدرالدین صدر – نے باہم مل کر نوپا حوزہ علمیہ قم کو تباہی سے بچایا اور اسے بعد میں آیت اللہ العظمی بروجردی کے سپرد کیا۔

حوزہ نیوز ایجنسی| آیت اللہ شیخ عبدالکریم حائری یزدی کی رحلت کے بعد، جب ایران سیاسی و اقتصادی بحران، جنگِ عظیم دوم، قحط اور بیرونی اشغال جیسے خطرناک حالات سے دوچار تھا، اُس وقت تین عظیم مراجع کرام

– آیت اللہ العظمی حجت، آیت اللہ العظمی سید محمدتقی خوانساری اور آیت اللہ العظمی سید صدرالدین صدر – نے باہم مل کر نوپا حوزہ علمیہ قم کو تباہی سے بچایا اور اسے بعد میں آیت اللہ العظمی بروجردی کے سپرد کیا۔

حوزہ کے مستقبل پر خطرات کے بادل

سن 1936 میں آیت اللہ حائری کی وفات کے بعد ایران شدید سیاسی بحران کا شکار تھا۔ رضا شاہ کی حکومت روحانیت کو ختم کرنے کی کوششوں میں مصروف تھی، جبکہ عالمی جنگ کے سبب متفقین (روس، برطانیہ، اور ہندوستانی افواج) ایران میں داخل ہو چکے تھے۔ ملک بھر میں قحط، بدامنی اور بداعتمادی کی فضا چھا چکی تھی۔

تین مرجع تقلید، ایک مشکل مشن

ایسے وقت میں، تین مراجع تقلید نے ایک مشترکہ اقدام کے تحت حوزہ علمیہ قم کی سربراہی سنبھالی۔ آیت اللہ صدر کی تدبیر، آیت اللہ خوانساری کی استقامت، اور آیت اللہ حجت کی حکمت نے حوزہ کو ایک متحدہ پلیٹ فارم پر قائم رکھا، باوجود اس کے کہ حکومت وقت علماء کے درمیان اختلاف ڈالنے کی کوششوں میں سرگرم تھی۔

آیت اللہ العظمی صافی گلپایگانی کے مطابق: "اگر آیت اللہ صدر کی حکمت عملی نہ ہوتی تو رضا شاہ کے دور کی مشکلات میں روحانیت کا تحفظ ممکن نہ ہوتا۔"

جنگِ عظیم دوم اور ایران کی بے بسی

1939ء میں شروع ہونے والی جنگِ عظیم دوم کے دوران ایران نے ابتدا میں غیر جانبداری کا اعلان کیا، مگر متفقین نے جرمن ماہرین کی موجودگی کو جواز بنا کر ۳ ستمبر 1941کو ایران پر حملہ کر دیا۔ حکومت ایران نے وقتی طور پر مزاحمت نہیں کی اور رضا شاہ نے ۲۵ ستمبر کو اقتدار اپنے بیٹے محمدرضا کے حوالے کر کے کنارہ کشی اختیار کی۔

جنگ کے اثرات نہایت تباہ کن تھے:

فوج اور پولیس منتشر ہو چکے تھے۔

امن و امان مکمل طور پر ختم ہو چکا تھا۔

خوراک کی شدید قلت تھی اور قحط نے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا تھا۔

عوام کی جان و مال غیر محفوظ ہو چکی تھی۔

استعمار کی سازشیں:

متفقین نے نہ صرف ایران کے وسائل پر قبضہ کیا بلکہ دینی اداروں کو کمزور کرنے کے لیے مراجع کے درمیان اختلافات کو ہوا دی۔ ان کوششوں کے تحت آیت اللہ صدر اور خوانساری کو مالی معاملات سے الگ کر دیا گیا، لیکن مراجع کی اجتماعی کاوشوں سے حوزہ کا شیرازہ منتشر ہونے سے بچ گیا۔

مشکلات کے باوجود بقا کی جنگ

تینوں مراجع نے نہایت کٹھن حالات میں حوزہ علمیہ قم کو محفوظ رکھا، لیکن معاشی تنگی، حکومتی دباؤ اور سماجی خلفشار کے باعث وہ اس ادارے کو ترقی کی راہ پر نہیں ڈال سکے۔ نتیجتاً، بعض علمائے کرام نے یہ رائے قائم کی کہ آیت اللہ العظمیٰ سید حسین طباطبائی بروجردی کو قم بلایا جائے تاکہ حوزہ کو ایک مرکزی اور مستحکم قیادت میسر آ سکے۔

آیت اللہ بروجردی کی آمد کے ساتھ ہی حوزہ علمیہ قم نے ایک نئے دور میں قدم رکھا، جس کی بنیاد ان تین مراجع کی خاموش مگر دلیرانہ جدوجہد نے رکھی تھی۔

حوزہ علمیہ قم کی تاریخ کا یہ دور، تین بزرگ مراجع کی بے مثال جدوجہد، جنگی حالات اور سیاسی دباؤ کے باوجود دینی اداروں کی بقا کی ایک روشن مثال ہے۔

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha