حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، مرحوم آیت اللہ حائری یزدی نے حوزہ علمیہ قم کی بنیاد رکھ کر ایک ایسا مکتب قائم کیا جہاں سے امام خمینی (رہ) اور آیت اللہ گلپایگانی جیسے درخشاں ستارے ابھرے۔
چونکہ آیت اللہ شیخ عبدالکریم حائری نے کم از کم دو علمی مدارس یعنی اراک اور قم کے قیام اور احیاء میں بنیادی کردار ادا کیا لہٰذا آنے والی نسلوں کے شیعہ علماء ہمیشہ ان کی علمی اور انتظامی خدمات کے مقروض رہیں گے۔
جن افراد نے براہ راست ان کے درس سے فیض حاصل کیا، ان میں سے ہر ایک یا تو علم و تقویٰ میں بلند مقام پر فائز ہوا یا شیعہ مرجعیت کے مقام تک پہنچا۔
مرحوم حائری کے فرزند شیخ مرتضی حائری، جنہوں نے برسوں اپنے والد کے ساتھ رہ کر علم حاصل کیا تھا، آیت اللہ بروجردی کی زعامت کے دور میں واشنگٹن میں ان کے نمائندے کے طور پر تبلیغِ دین میں مشغول رہے۔
حوزہ علمیہ قم کا قیام اور اس کی شہرت کا ایران و عالم میں پھیلنا، شیخ عبدالکریم کو ایران میں ممتاز حیثیت عطا کر گیا یہاں تک کہ جب رضاشاہ، جو تقریباً انہی دنوں قم میں داخل ہوا تھا، اقتدار پر فائز ہوا تو اپنے اہداف کے حصول کے لیے وہ شیخ کا محتاج بنا۔
اگرچہ یہ وابستگی بعض مواقع پر رضاشاہ کے تجدد پسند منصوبوں کے لیے مذہبی توجیہ حاصل کرنے میں سہولت فراہم کرتی تھی لیکن ایک طرف یہ نکتہ بھی قابلِ توجہ ہے کہ اسی کے ذریعے مشروطیت کے بعد روحانیت و مرجعیت کے ادارے کو اپنے مقام کے احیاء اور مستقبل کے لیے منصوبہ بندی کا موقع ملا۔
دوسری جانب یہ وابستگی اس امر کا بھی باعث بنی کہ حوزہ علمیہ اور اس کے منتظمین ایک نرم، ثقافتی اور غیرسیاسی انداز سے سیاست کے دائرے سے باہر رہتے ہوئے رضاشاہ کے دین مخالف منصوبوں کی روک تھام یا ان کی رفتار کو کم کرنے میں کامیاب رہے۔
ماخذ: کتاب "طبقات اعلام شیعہ"، آقا بزرگ تہرانی، ۱۴۳۰ھ ق، ص: ۱۱۵۸









آپ کا تبصرہ