حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، امام خمینی علیہ الرحمہ نے حوزہ علمیہ قم کی صد سالہ تاریخ میں حوزوی تحریک کو محض ایک علمی مرکز سے نکال کر "سماجی و سیاسی میدان میں فعال کردار ادا کرنے والا مرکز بنا دیا۔ ان کی فکر، جو خالص اسلامی اور توحیدی بنیادوں پر استوار تھی، مغربی تمدن و فکر کے مقابل ایک فعال اور تمدن ساز نظریہ پیش کرتی ہے۔
اس مناسبت سے تیار کی گئی ایک تفصیلی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ امام خمینی نے مغرب کو محض ایک جغرافیائی وحدت نہیں، بلکہ فکری و تمدنی استعمار کا استعارہ سمجھا۔ ان کی مغرب سے مخالفت فلسفیانہ یا محض اکیڈمک بنیادوں پر نہیں تھی، بلکہ وہ اسلامی معارف کے عمیق فہم کی روشنی میں مغرب کے مادی و غیر روحانی خدوخال کو واضح کرتے تھے۔
رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ امام خمینی نے نہ صرف مغرب سے ہٹ کر ایک اسلامی حکومت و تمدن کا خاکہ پیش کیا، بلکہ سابق اسلامی حکومتوں، جیسے صفویہ یا مشروطہ دور، کے تجربات سے سیکھ کر ایسا راستہ اختیار کیا جو داخلی اور عالمی تقاضوں کا بیک وقت جواب دے سکتا تھا۔

امام خمینی کی فکری بنیاد توحیدی و عرفانی تھی، اور وہ تمام مظاہرِ عالم کو حق و باطل کی تمیز کے ساتھ دیکھتے تھے۔ ان کے نزدیک مغرب، عالمِ غیب سے کٹے ہوئے نظام کا نام تھا، اور یہی وجہ تھی کہ وہ نہ صرف مغرب سے متصادم رہے، بلکہ اس کے مقابل ایک مکمل فکری و تمدنی مکتب کی بھی بنیاد رکھ دی۔
رپورٹ کے مطابق، امام کی جدوجہد نے ملت کو ایک ایسا ثقافتی تشخص عطا کیا جو دین پر مبنی تھا، اور جو قومیت، زبان یا سرزمین کے بجائے عقیدہ و معنویت سے جڑا ہوا تھا۔ اسی شناخت نے ایرانی قوم کو نہ صرف جنگِ تحمیلی کے دوران استقامت عطا کی، بلکہ عالمی سطح پر ایک فکری بیداری کو بھی جنم دیا۔
تحریر میں اس امر کی جانب بھی اشارہ کیا گیا ہے کہ امام خمینی علیہ الرحمہ کا مغرب سے تقابل صرف نظری نہ تھا، بلکہ انہوں نے مغربی فکر کے مقابلے میں اقدارِ قدسی کی بنیاد پر نئی علمی و فکری جہتیں متعارف کروائیں، جن کے اثرات آج بھی اسلامی دنیا کے مختلف علمی حلقوں میں محسوس کیے جا رہے ہیں۔
یاد رہے کہ امام خمینی کی یہ فکری جدوجہد آج بھی "مکتبِ مبارزہ با غرب" کے عنوان سے ایک مستقل فکری و تمدنی رجحان کی صورت اختیار کر چکی ہے، جو علومِ انسانی، اسلامی تمدن اور فکری مزاحمت کے میدانوں میں اثرگذار ہے۔










آپ کا تبصرہ