حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، قم المقدسہ میں منعقد ہونے والے "آیت اللہ خامنہ ای کے افکار میں ہم اور مغرب" کانفرنس کی بین الاقوامی تخصصی کمیٹی کے اجلاس میں علماء اور محققین نے مغربی استعمار اور استکبار کے فکری، سیاسی اور ثقافتی اثرات کا رہبر انقلاب اسلامی کی فکر کی روشنی میں گہرائی سے جائزہ لیا۔
مکمل تصاویر دیکھیں:
یہ اجلاس مجتمع جامع امام خمینیؒ کے شہید عارف الحسینی ہال میں منعقد ہوا، جس میں تاجکستان، نائیجیریا، مالی، افغانستان، پاکستان، تونس اور ساحلِ عاج کے ممتاز محققین اور اساتذہ نے شرکت کی۔

استعمار، مغربی تمدن کا بنیادی جز
افتتاحی نشست میں سربراہ مجتمع آموزش عالی قرآن و حدیث المصطفیٰ، حجۃ الاسلام والمسلمین رضائی اصفہانی نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ استعمار کی تاریخ مغرب کے وجود سے جدا نہیں۔ ان کے مطابق مغربی حکومتوں نے ’’وزارتِ مستعمرات‘‘ کے نام پر ایسے ادارے قائم کیے جو ترقی کے نعرے لگا کر دراصل دنیا بھر کی اقوام کے وسائل پر قبضہ کرتے رہے۔
انہوں نے کہا کہ مغرب کی تاریخ ظلم و استحصال سے بھری ہے — امریکہ کی دریافت کے بعد مقامی باشندوں کے قتلِ عام سے لے کر ہندوستان میں برطانوی ظلم، انڈونیشیا میں ڈچ بربریت اور افریقہ و ویتنام میں لاکھوں بے گناہوں کے قتل تک، ہر دور میں مغرب نے انسانیت کو زخم دیے ہیں۔
ان کے مطابق غزہ میں جاری نسل کشی مغربی تہذیب کا ’’کھلا ثبوت‘‘ ہے، جہاں دو برسوں میں ستر ہزار سے زیادہ عورتیں اور بچے شہید ہو چکے ہیں۔
انہوں نے مغربی تسلط کے تین مراحل بیان کیے: روایتی استعمار (فوجی قبضہ)، نو استعمار (تختہ پلٹ اور سیاسی دخل اندازی) اور فکری استعمار (ثقافتی نفوذ)۔ ان کا کہنا تھا کہ فکری استعمار سب سے خطرناک ہے، کیونکہ اس کے ذریعے مغرب اپنی سوچ کے حامل افراد کو تربیت دے کر اسلامی معاشروں کے کلیدی مناصب تک پہنچاتا ہے۔
حوزہ علمیہ کا عالمی کردار
بعد ازاں حوزہ علمیہ ایران کے بین الاقوامی امور کے سربراہ حجۃ الاسلام والمسلمین مفید حسینی کوہساری نے کہا کہ "ہم اور مغرب" جیسے موضوعات کے تناظر میں حوزہ علمیہ کو اپنی فکری اور انقلابی ذمہ داریوں کا ازسرنو جائزہ لینا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ رہبر انقلاب اسلامی نے ’’منشور حوزہ‘‘ میں واضح طور پر فرمایا ہے کہ حوزہ کو عالمی سطح پر فکری، دینی اور تمدنی قیادت کا کردار ادا کرنا ہوگا۔ ان کے مطابق رہبر انقلاب نے پانچ بنیادی عناصر کی نشاندہی کی ہے جن میں استعمار و استکبار کے خلاف حوزہ کی پیشقدمی کو بنیادی حیثیت حاصل ہے۔
عالمی محققین کے علمی مباحث
اجلاس میں مختلف ممالک کے محققین نے اپنے تحقیقی مقالات پیش کیے۔
میرزامالدین گادویف (تاجکستان) نے "قرآنی اصولوں کی روشنی میں ثقافتی استعمار سے نجات" کے عنوان سے گفتگو کی، جب کہ عبدالقادر محمد بلو (نیجیریا) نے "زاریا کا قتلِ عام اور امام خامنہای کی نگاہ میں مغربی انسانی حقوق" پر مقالہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ مغرب کی خاموشی اس کے دوہرے معیار کی علامت ہے۔
دریسا دیاموتونه (مالی) نے عربی زبان میں "امریکا کی سازشیں اور انقلاب اسلامی کے مقابلے کا نمونہ" پر مقالہ پیش کیا اور کہا کہ رہبر انقلاب کی رہنمائی میں اتحادِ امت ہی مغربی منصوبوں کا مؤثر جواب ہے۔
اسی طرح حجۃ الاسلام علی آقا صفری (افغانستان) نے اپنے مقالے میں استکباری طاقتوں سے نجات کے لیے توحید، دشمن شناسی، بصیرت اور مزاحمت کو لازمی قرار دیا۔
سید توقیر (پاکستان) نے مغربی تسلط کے معاشی اور تعلیمی حربوں پر روشنی ڈالی اور کہا کہ اس کا حل علمی خودکفائی اور فعال مزاحمت ہے۔
استعمار کے دو چہرے؛ یورپ اور امریکہ
منعقدہ نشست سے ڈاکٹر سید زہیر المسیلینی (تونس) نے "یورپی اور امریکی استعمار کا تقابلی مطالعہ" پیش کرتے ہوئے کہا کہ دونوں ایک ہی ذہنیت کے دو رخ ہیں، جو سیاست، معیشت اور ثقافت کے ذریعے اسلامی دنیا پر قبضہ چاہتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ امتِ مسلمہ کی بیداری، دینی خوداعتمادی اور علمی استقلال ہی آزادی کی ضمانت ہے۔
جنوبی ایشیا اور افریقہ میں مغربی اثرات
کراموغو واترا (ساحلِ عاج) نے کہا کہ بظاہر آزاد ہونے کے باوجود مغربی افریقہ کے بیشتر ممالک مغربی نظام کے زیر اثر ہیں جو اسلاموفوبیا اور ثقافتی انحصار کو فروغ دیتے ہیں۔
حجۃ الاسلام میر اجمل حسین (پاکستان) نے "پاکستان میں امریکہ کی سافٹ طاقت" پر مقالہ پیش کیا اور کہا کہ امریکہ سیاسی یا فوجی نہیں بلکہ ثقافتی و تعلیمی اثرات کے ذریعے اپنے مفادات حاصل کر رہا ہے، جو ’’نرم استعمار‘‘ کی شکل ہے۔
زاریہ قتلِ عام اور عالمی خاموشی، امام خامنہ ای کے نقطۂ نظر سے مغربی انسانی حقوق پر تنقیدی جائزہ
جناب عبدالقادر محمد بلو، جو نائجیریہ سے تعلق رکھنے والے طالب علم ہیں، نے اپنا مقالہ انگریزی زبان میں "زاریہ قتلِ عام اور عالمی خاموشی، امام خامنہ ای کے نقطۂ نظر سے مغربی انسانی حقوق پر تنقیدی جائزہ" کے عنوان سے پیش کیا۔
انہوں نے اپنے مقالے میں نائجیریہ کے شہر زاریہ میں مسلمانوں کے بہیمانہ قتلِ عام کا ذکر کرتے ہوئے، عالمی برادری اور مغربی انسانی حقوق کے اداروں کی خاموشی اور دوہرے معیار پر تنقید کی۔

قابل ذکر ہے کہ اس اجلاس کے آخر میں مجموعی طور پر 9 تحقیقی مقالات پیش کیے گئے۔ تمام محققین نے اس بات پر اتفاق کیا کہ رہبر انقلاب اسلامی کا فکری و تہذیبی نظریہ آج کے دور میں مغربی استعمار کے مقابلے کا سب سے جامع اور منظم فریم ورک ہے، جو علم، ایمان، مزاحمت اور وحدتِ امت پر مبنی ہے۔









آپ کا تبصرہ