حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، افکارِ رہبرِ انقلابِ اسلامی پر علمی نشستوں کے انعقاد کے سلسلے کی ساتویں نشست گزشتہ دنوں مؤسسہ بعثت قم المقدسہ میں منعقد ہوئی، جس میں "تمدن نوین اسلامی" کے موضوع پر گفتگو کی گئی۔
مقررین نے تمدن نوین اسلامی کے معنی اور مفہوم کو واضح کرنے کے بعد اس کے اجزاء و ارکان پر روشنی ڈالی اور اس کے اجزاء کو تفصیل کے ساتھ بیان کیا۔
مقررین نے اس بات کی وضاحت کی کہ کسی بھی تمدن کی بنیاد اور اساس جہان بینی اور آئیڈیالوجی ہوتی ہے۔ رہبرِ معظم کے کلام کی روشنی میں اس مطلب کو تفصیل کے ساتھ پیش کیا گیا کہ ایک تمدن کی روح و بنیاد جہان بینی و آئیڈیالوجی ہوتی ہے۔ جس طرح سے روح بدن کے تمام اعضاء و جوارح میں ہوتی ہے اور اس کو فعال رکھتی ہے، اسی طرح سے ایک تمدن کی شناخت کو اس تمدن پر حاکم و کار فرما جہان بینی تشکیل دیتی ہے۔
رہبرِ معظم کی تعبیر کے مطابق جہان بینی کے بطن سے دوسری چیز جو حاصل ہوتی ہے وہ ثقافت اور طرزِ زندگی ہے۔
مقررین کا کہنا تھا کہ طرزِ زندگی جو کہ فارسی میں رہبرِ معظم کی تعبیر کے مطابق سبک زندگی کہلاتا ہے، ایک تمدن کا متن اور مرکز کو تشکیل دیتا ہے۔ طرزِ زندگی در حقیقت ان روابط سے تشکیل پاتا ہے کہ جو معاشرے میں موجود افراد کے درمیان میں ہوتا ہے۔ یہی روابط ہیں کہ جن کی نوعیت ایک معاشرے کو اور اس معاشرے میں موجود افراد کو ایک دوسرے کے ساتھ جوڑتی ہے۔ جب کسی تمدن کی اساس اور بنیاد اسلامی جہان بینی پر ہوتی ہے تو اس معاشرے میں موجود تمام افراد کی زندگیوں پر جو ہدف طارئ ہوتا ہے وہ بھی اسی جہان بینی سے ہی نکلا ہوا ہوتا ہے اور اس کے نتیجے میں ان کے تمام روابط بھی اسی جیسے ہوتے ہیں۔









آپ کا تبصرہ