اتوار 14 دسمبر 2025 - 05:00
انجمنِ فقہ تربیتی کا 15واں علمی و تحقیقی مجلہ ”تعلیم و تربیت“ منظر عام پر

حوزہ/ہفتۂ تحقیق کی مناسبت سے انجمنِ فقہ تربیتی کا 15واں علمی تحقیقی مجلہ ”تعلیم و تربیت“  ڈاکٹر محمد لطیف مطہری کی کوششوں سے زیور طباعت سے آراستہ ہو کر منظر عام پر آ گیا ہے۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، انجمنِ فقہ تربیتی کا 15واں علمی تحقیقی مجلہ ”تعلیم و تربیت“ مدرسہ فقہ جامعہ المصطفیٰ العالمیہ کے تحت چھپ کر منظر عام پر آ گیا ہے۔

فقہ اسلامی میں مکلّف کے تمام اختیاری اعمال کی طرح، تعلیمی و تربیتی طرزِ عمل کے لئے بھی حکم موجود ہے۔ فقہ تربیتی تعلیم و تربیت سے منسلک افراد یعنی اساتذہ اور مربیوں کے اختیاری افعال کے لئے اجتہادی اور استنباطی طریقے سے حکم معین کرتا ہے۔

دینی مراکز میں تعلیم و تربیت کا شعبہ باقی تمام تعلیمی شعبوں سے زیادہ اہمیت کا حامل ہے، کیونکہ حوزہ علمیہ کا دعویٰ ہے کہ وہ سماج اور معاشرے کی اصلاح، تعلیم و تربیت، تبلیغ دین اور اسلامی معارف کی نشر و اشاعت کا علمبردار ہے، اس لئے حوزہ علمیہ لوگوں کی شرعی ذمہ داریوں کی تشخیص اور تعیین کو اپنا وظیفہ سمجھتا ہے، اس کا لازمہ یہ ہے کہ علمی میدان میں یہ شعبہ زیادہ سے زیادہ کوشش کرے۔ مجلۂ تعلیم و تربیت انجمنِ فقہ تربیتی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔اب تک اس علمی تحقیقی مجلے کے 14 شمارے منظر عام پر آ گئے ہیں۔

اس علمی تحقیقی مجلہ کے چیف ایڈیٹر معروف کالم نگار، محقق اور جامعہ المصطفیٰ العالمیہ کے استاد جناب ڈاکٹر محمد لطیف مطہری ہیں، جن کی کوششوں سے یہ علمی تحقیقی مجلہ منظر عام پر آرہا ہے۔

اس جدید شمارہ کے مقدمے میں آيت اللہ العظمٰی سید علی خامنہ ای(مدظلہ العالی) کا دینی مدارس کے طلاب اور عہدیداروں سے خطاب شامل کیا گیا ہے۔رہبر انقلاب اسلامی نے حسینیہ امام خمینی میں ملک بھر سے آنے والے دینی مدارس کے طلاب، افاضل کرام، اساتذہ اور عہدیداران سے ملاقات کرتے ہوئے فرمایا: دینی درسگاہیں اسلام سکھانے کے مراکز ہیں۔ دین کو سمجھا جانا ضروری ہے، دین کی شناخت ضروری ہے، دین کا علم ضروری ہے، اس کی گہرائی تک پہنچنا ضروری ہے۔ تو اس کے لئے مرکز کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ مرکز یہی حوزہ علمیہ ہے جو عالم دین پیدا کرتا ہے۔ دینی درسگاہیں اسلام کی تعلیم کے مراکز ہیں۔ اسلام صرف معرفت کا نام نہیں ہے۔ عمل کی پابندی اور اسلام کے احکامات کا نفاذ بھی اسلام کا جز ہے۔ یعنی کبھی یہ ہوتا ہے کہ ہم اسلام کو جسے ہم دینی درسگاہ میں سیکھنا چاہتے ہیں، صرف اصول دین، فروع دین اور اخلاقیات وغیرہ تک محدود سمجھ بیٹھتے ہیں۔ ویسے یہ حقیقت ہے۔ یعنی اصول دین، فروع دین، اخلاقی اقدار، طرز زندگی، حکمرانی کے ضوابط، یہ ساری چیزیں اسلام کا جز ہیں اور اسلامی معارف کا حصہ ہیں تو ان ساری چیزوں کو ہمیں دینی درسگاہ سے سیکھنا چاہئے۔ لیکن یہ تصور ٹھیک نہیں ہے۔ یہ دینی درسگاہوں کے کاموں کا صرف ایک حصہ ہے۔ کیوں؟ اس لئے کہ یہ اسلام کا ایک حصہ ہے۔ اسلام کے دوسرے حصے بھی ہیں، جن میں ایک چیز ہے ان حقائق کو معاشرے کے اندر، عوام الناس کی ذہن کے اندر اتارنا اور نافذ کرنا۔ یعنی ہدایت۔ یہ بھی تو اسلام کا حصہ ہے نا! توحید کا ایک گہرا مفہوم ہے اس کے اندر ایک فلسفیانہ اور عرفانی گہرائی ہے لیکن اسلام صرف اسی توحید کے نظرئے تک محدود نہیں ہے۔ اسلام عبارت ہے معاشرے میں توحید کے نفاذ سے۔ یعنی پورا معاشرہ توحید کے رنگ میں ڈھلنا چاہئے۔ یہ بھی اسلام کا حصہ ہے۔

کیا آپ یہ نہیں کہتے؛ اَلعُلَماءُ وَرَثَةُ الاَنبیاء؟ علمائے دین انبیا کے وارث ہیں نا؟! یہاں علماء سے مراد علمائے دین ہی تو ہیں۔ یہ انبیا کے وارث ہیں۔ یہ لوگ کرتے تھے؟ کیا انبیا اس لئے آئے کہ صرف دینی معارف و تعلیمات کو بیان کر دیں، یا نہیں بلکہ وہ اس لئے آئے کہ ان معارف و تعلیمات کو معاشرے میں عملی جامہ پہنائیں؟ یقینا آخر الذکر بات درست ہے۔: لَقَد اَرسَلنا رُسُلَنا بِالبَیِّناتِ وَ اَنزَلنا مَعَهُمُ الکِتابَ وَ المیزانَ لِیَقومَ النّاسُ بِالقِسط یقینا ہم نے اپنے پیغمبروں کو روشن دلائل کے ساتھ بھیجا اور ان کے ساتھ کتاب اور میزان نازل کیا تاکہ لوگ انصاف کے لئے اٹھ کھڑے ہوں۔ یہ جو «لِیَقومَ النّاسُ بِالقِسط» ہے یہ ظاہر کرتا ہے کہ عدل قائم کرنے کے لئے انبیاء کا ہونا ضروری ہے۔ یعنی انبیاء کے مشن اور معاشرے میں عدل کے قیام میں ایک رابطہ ہے۔ یہ «لام» جو «لِیَقومَ» میں ہے، یہ کون سا «لامِ» ہے؟ خواہ یہ «لامِ» علّیّت ہو یا یہ «لامِ» غایت یعنی انجام و نتیجہ ہو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ یعنی نبی کو معاشرے میں عدل و انصاف قائم کرنا ہے۔ چونکہ وہ معاشرے میں انصاف قائم کرنا چاہتا ہے اس لئے جدوجہد کرتا ہے۔ ورنہ اگر نبی کو عدل و انصاف قائم کرنے سے غرض نہ ہوتی تو توحید کو عملی میدان میں نافذ کرنے کی کوشش نہ کرتا۔ اندادا لله کو راستے سے ہٹانے کی ضرورت ہی نہ پیش آتی، جہاد کی کوئی احتیاج ہی نہ ہوتی۔ یہ «وَ کَاَیِّن مِن نَبِیٍّ قاتَلَ مَعَه رِبِّیّونَ کَثیرٌ فَما وَهَنوا لِمآ اَصابَهُم فی سَبیلِ الله»کتنے ایسے پیغمبر ہیں جن کے ساتھ مل کر بہت بڑے گروہوں نے کارزار کیا اور اللہ کی طرف سے انھیں جو چیز سونپی گئی اس کے بارے میں کوئی تساہلی نہیں برتی۔ کس لئے ہے؟ انہوں نے کیوں جدوجہد کی؟ جہاد تمام انبیاء نے کیا۔ اب ان میں سے کچھ نے اس قتال میں کامیابی حاصل کی۔: قاتَلَ مَعَه رِبِّیّونَ کَثیر، بعض کامیاب نہیں ہوئے۔ ہمیں تمام انبیاء کی خبر نہیں ہے لیکن روایتوں میں ذکر ہوا ہے؛ اَوَّلُ مَن قاتَلَ فی‌ سَبیلِ‌ اللَهِ‌ اِبراهیم‌؛پہلا شخص جس نے راہ خدا میں جہاد اور قتال کیا وہ خلیل اللہ حضرت ابراہیم تھے۔ ہم قرآن میں حضرت ابراہیم کے حالات سے متعلق آیتیں پڑھتے ہیں تو ان میں کہیں یہ جملہ نہیں کہا گيا ہے لیکن روایت میں ہے۔ بقیہ انبیاء نے بھی قتال کیا، راہ خدا میں جہاد کیا ہے۔«قاتِلُوا الَّذینَ یَلونَکُم مِنَ الکُفّار»جو کفار تمہارے پڑوسی ہیں ان کے خلاف کارزار کرو۔ یا پھر «اَلَّذینَ ءامَنوا یُقاتِلونَ فی سَبیلِ الله»جو لوگ ایمان لائے ہیں وہ راہ خدا میں قتال کرتے ہیں۔ یہ قتال اور جہاد کس لئے ہے؟

پیغمبر اکرم نے مدینہ ہجرت کرنے سے قبل، مدینے سے آنے والے افراد سے، اوس و خزرج کے نمائندوں سے بیعت لی اور کہا کہ اپنی جان و مال ہر چیز سے میرا ساتھ دو۔ انھوں نے قبول کیا۔ پیغمبر ہجرت کرکے مدینہ تشریف لے گئے۔ جب مدینے میں داخل ہوئے تو ایک دفعہ بھی یہ سوال نہیں کیا کہ حکمرانی بھی ہمارے ہاتھ میں ہے یا نہیں؟ سوال نہیں کیا۔ کیونکہ پہلے سے ظاہر تھا، سب جانتے تھے کہ وہ آئے ہیں تو حاکمیت، حکمرانی اور حکومت چلانے کی ذمہ داری ان کے دوش پر ہے۔ دین اسی لئے ہے۔: ما اَرسَلنا مِن رَسولٍ اِلّا لِیُطاعَ بِاِذنِ الله ہم نے کسی بھی پیغمبر کو نہیں بھیجا سوائے اس مقصد سے کہ اذن پروردگار سے اس کی اطاعت کی جائے۔ «لِیُطاعَ» کا مطلب صرف یہ نہیں ہے کہ اگر پیغمبر نے کہہ دیا کہ نماز پڑھو تو آپ نماز پڑھیں۔ نہیں، اس کا مطلب ہے زندگی کے تمام امور میں اطاعت و فرماں برداری، یعنی حکمرانی۔ تو یہ اسلام کا ایک حصہ ہے۔ یعنی اسلام کا ایک حصہ عبارت ہے اسلامی معارف و تعلیمات سے، ان معارف میں علوم عقلیہ، علوم نقلیہ، اخلاقی قدریں، طرز زندگی اور طرز حکومت کی تشریح شامل ہیں۔ یہ سب اسلامی معارف کا جز ہیں اور ان کا علم ہونا ضروری ہے۔ یہ اسلام کا حصہ ہے۔ اسلام کا ایک اور حصہ ہے ان معارف کا زمینی سطح پر نفاذ۔ یعنی توحید عملی میدان میں نافذ ہونا چاہئے۔ اس کا یہ مطلب ہے کہ عملی طور پر نظر آئے کہ نبوت معاشرے کی قیادت کر رہی ہے۔ «اَلعُلَماءُ وَرَثَةُ الاَنبیاء» کو عملی جامہ پہنانا آپ کی ذمہ داری ہے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ آپ ہر حال میں سماج کی قیادت سنبھالیں، حکومت کی شکل ممکن ہے کہ الگ الگ ہو، اس کی کئی قسمیں ہوں۔ لیکن آپ عالم دین کی حیثیت سے اور دینی امور کے ماہر کی حیثیت سے اپنا فریضہ سمجھیں کہ اسلام کو متن معاشرہ میں، لوگوں کی زندگی میں نافذ کریں۔ یہ ہمارا فریضہ ہے۔ یہی کام ہمارے بزرگوار امام (خمینی رحمۃ اللہ علیہ) نے کیا۔ ایک صاحب نے علماء کی صنف کے منشور کی بات کی اور امام (خمینی رحمۃ اللہ علیہ) کے اس تفصیلی خط کا ذکر کیا۔ علماء کی صنف کے منشور کو پڑھئے، بار بار پڑھئے۔ امام (خمینی رحمۃ اللہ علیہ) حقیقت میں مدبر اور صاحب حکمت انسان تھے، صاحب حکمت صرف وہ نہیں ہے جو فلسفے سے آشنا ہو، حکمت و فلسفہ اس کے عمل میں، اس کی گفتار میں اور اس کی تحریر میں جھلکنا چاہئے۔

بنابریں دینی درسگاہوں نے جو حالیہ جدوجہد کی، یعنی وہ جدوجہد جس کے نتیجے میں اسلامی جمہوریہ کی تشکیل عمل میں آئی وہ جدوجہد امام (خمینی رحمۃ اللہ علیہ) کے زیر قیادت انجام دی۔ یہ بعینہ وہی فریضہ ہے جو دینی مدارس کو انجام دینا چاہئے تھا۔ ایسا نہیں ہے کہ ہم یہ کہیں کہ دینی درسگاہوں نے انقلابی تحریک کے دوران کوئی ایسا عمل انجام دیا جو ان کے فرائض کے دائرے سے باہر تھا۔ بالکل نہیں۔ امام (خمینی رحمۃ اللہ علیہ) کے ہاتھ میں قیادت تھی اور طلبہ، افاضل اور دینی درسگاہ سے بہت سے اکابرین ان کے ساتھ تھے، سب امام خمینی کی قیادت میں آگے بڑھے۔ ایک موقع پر میں نے ملک بھر میں وسیع سطح پر طلبہ کے حرکت میں آ جانے کے اس عمل کی تشبیہ اس چيز سے دی جو اس آیہ کریمہ میں ذکر کی گئی ہے: (وَ اَوحیٰ رَبُّکَ اِلَی النَّحلِ اَنِ اتَّخِذی مِنَ الجِبالِ بُیوتًا وَ مِنَ الشَّجَرِ وَ مِمّا یَعرِشونَ، ثُمَّ کُلی مِن کُلِّ الثَّمَراتِ فَاسلُکی سُبُلَ رَبِّکِ ذُلُلًا یَخرُجُ مِن بُطونِها شَراب مُختَلِفٌ اَلوانُه فیه) اور تمہارے پروردگار نے شہد کی مکھی کو الہام کر دیا کہ پہاڑوں، درختوں اور ان چیزوں سے جو انسان اپنے لئے اٹھا لیتے ہیں، اپنا گھر بنا اور اس کے بعد تمام ثمرات اور پھلوں سے غذاحاصل کر، اس کے بعد اپنے پروردگار کی راہوں میں جو تیرے لئے ہموار کی گئی ہیں اپنے چھتے کی جانب بڑھ۔ ان کے شکم سے گوناگوں رنگوں کا مشروب نکلتا ہے۔ (۹) میں نے کہا کہ ان کے پاس شہد بھی تھا اور ڈنک بھی تھا، شہد کی مکھی کی طرح۔ اس زمانے کا طالب علم جاکر لوگوں کو خبردار بھی کرتا تھا، بیدار بھی کرتا تھا، نوجوانوں کو انقلابی اقدار سے سیراب بھی کرتا تھا، راہ خدا میں اور راہ اسلام میں جہاد بھی کرتا تھا۔ جس پر حملہ کرنا ہوتا تھا اسے ڈنک بھی مارتا تھا۔ یہ حقیقت امر ہے۔ یہ حوزہ علمیہ کی ذمہ داری تھی اور اس نے اس ذمہ داری پر عمل کیا۔ اس زمانے میں اسے وہ کام کرنا تھا اور آج جب بحمد اللہ اسلامی نظام وجود میں آ چکا ہے، تشکیل پا چکا ہے اور ہم اس کوشش میں ہیں کہ حقیقی معنی میں اسلامی حکومت اور اس کے بعد حقیقی معنی میں اسلامی معاشرہ اور پھر اسلامی تمدن وجود میں آئے تو اس عظیم مشن کے تناسب سے دینی درسگاہیں بھی اپنی ذمہ داریوں پر عمل کریں۔ انھیں کیا کرنا چاہئے؟ انھیں بیٹھ کر غور کرنا چاہئے۔ یہ آپ کے فکری موضوعات اور بحثوں میں سے ایک ہے۔

مقالات کی تفصیلات:

پہلے مقالے کا عنوان رہبر معظم انقلاب امام خامنہ ای مد ظلہ العالی کے افکار کی روشنی میں تعلیم و تربیت کے اہداف، عوامل اور موثر ادارے ہیں۔تعلیم و تربیت انبیاء کرام علیہم السلام کا بنیادی ہدف ہے اور یہ معاشرے کی سعادت اورپیشرفت میں تعلیم و تربیت کے اداروں کی اہمیت اور ناقابل تردید ہونے کی نشاندہی کرتا ہے۔ جب تک انسان تعلیم و تربیت کے میدان میں قدم نہ رکھے اس کی تمام صلاحیتیں اور استعداد ممکنہ مرحلے سے حقیقی مرحلے تک نہیں پہنچتا ہے۔ اس لیے انسانی تربیت کے تمام پہلوؤں، جسمانی،معنوی، عاطفی اور فکری وغیرہ میں درست طریقے سے تربیت کیا جانا چاہیے۔ یہ تحقیق رہبر معظم انقلاب امام خامنہ ای مد ظلہ العالی کے افکار کی روشنی میں تعلیم و تربیت کے مقاصد، عوامل اور موثر اداروں کے بارے میں ہے۔اس تحقیق کا طریقہ کار توصیفی اورتحلیلی ہے اور اس تحقیق کے ماخذ رہبر معظم کے بیانات اور تصانیف ہیں۔ اس تحقیقی مقالہ کا نتیجہ یہ ہے کہ دو عامل وارثت اورمحیط تعلیم و تربیت میں موثر عامل کی حثییت رکھتی ہیں۔عامل انسانی اور عامل غیر انسانی بھی انسانی زندگی میں موثر کردار ادا کرتے ہیں۔انسانی عوامل میں والدین کے علاوہ جن کا بچوں کی تربیت میں موثر اور براہ راست کردار ہوتا ہے، جیسےبھائی، رشتہ دار، دوست، مدیر، اساتذہ،امام جماعت،مسجد کا خادم اورمعاشرے کے دیگر افراد بھی مثبت یا منفی تربیت میں موثر ہیں۔ غیر انسانی عوامل جو افراد کی تربیت میں موثر ہیں وہ درجہ ذیل ہیں: جسمانی عامل (وراثت)، جغرافیائی عامل ، سماجی عامل،غذائی عامل، نفسیاتی عامل، جذباتی عامل، ثقافتی عامل اور مذہبی عامل۔ اسی طرح رہبر معظم انقلاب کے نزدیک تعلیم و تربیت کے لئے جو موثرادارے ہیں وہ درجہ ذیل ہیں : خاندان، تعلیم و تربیت کا ادارہ ، سکول، یونیورسٹیاں، حوزہ علمیہ، ریڈیو اور ٹیلی ویژن وغیرہ۔

دوسرے مقالے کا موضوع تعلیم و تربیت آیات و روایات کی روشنی میں ہے۔اس مقالے میں تعلیم و تربیت کے اہم ترین مباحث کو بیان کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ رسول اکرم(ص)کی بعثت کا اصل مقصد ہی تعلیم و تزکیہ تھا۔معرفتِ الٰہی و توحید کے ساتھ اللہ کی خالص عبادت و بندگی تمام تعلیم و تربیت کا اصلی ہدف ہے۔تعلیم و تربیت کے چار مراحل جو نصیحت و موعظہ،اخلاقی برائیوں سے روح کی پاکیزگی،ہدایت و راہنمائی کے ذریعے تکامل و ارتقاء،اور آخر میں خدا کی رحمتوں اور عنایات کامستحق بننے،پرمشتمل ہے۔اولاد خدا کا عطا کردہ امانت ہے اس کی تعلیم و تربیت کا آغاز بچپن سے ہی ہونا چاہیے اور والدین کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اسلامی اصول اور طریقہ کار کےمطابق اپنے بچوں کی جسمانی،اعتقادی،فکری،اخلاقی اور دینی تربیت،عمر کے تقاضے کےمطابق تدریجی انداز میں محبت اور شفقت سے،ان کی مستقبل کو بھی مدنظر رکھ کر کرنا ہوگا کیونکہ ان کی تخلیق کا مقصدہی آیندہ زمانے کے لیے ہے۔بچوں کی تعلیم و تربیت میں مبادرت اور جلدی سےکام لینی ضروری ہے ورنہ غفلت کی صورت میں زمانےکا ماحول اور گمراہ لوگ اُنہیں فاسد کریں گے۔بچوں کو سب سے پہلے اصول دین،فروع دین اور تزکیہ نفس کی تعلیم کے ساتھ ادب و اخلاق کے زیور سےبھی آراستہ کرنا نہایت اہمیت کا حامل ہے۔

تیسرے مقالے کا موضوع اخلاق قرآن وروایات کی نگاہ میں ہے۔ہر معاشرہ کی زندگی اور ہر قوم کے تکامل میں اخلاق اولین درس اور بنیادی شرط ہے ،انسان کی پیدائش کے ساتھ ساتھ اخلاقیات کی بھی تخلیق ہوئی ہے ،دنیا کا کوئی عقلمند ایسانہیں جس کو انسانی روح کی آسائش و سلامتی کے لیے اخلاقیات کے ضروری ہونے میں ذرہ برابر بھی شک ہو۔ بھلا کون ہے جسے صداقت و امانت سے تکلیف ہوتی ہو یا کذب و خیانت کے زیر سایہ سعادت کا متلاشی ہو... ؟اخلاق کی اہمیت کے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ ایک عام انسان بھی قوم و ملت کی ترقی کے لئے اخلاق و کردارکو انتہائی اہم اورضروری سمجھتا ہے ۔ایک اچھی اور خوشگوار زندگی کے لئے اخلاق کی کتنی ضرورت ہے اس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے صادق آل محمد صلی اللہ علیہ و آلہ فرماتے ہیں: جس نے اپنے اخلاق کو اچھا بنا لیا اس کی زندگی پاکیزہ اور خوشگوار ہو جاتی ہے"۔چونکہ انسان ایک اجتماعی مخلوق ہے اور اجتماعی زندگی کی اہم ترین ضرورت"حسن اخلاق"ہے لہذا انسان کیلئے ضروری ہے کہ وہ اجتماعی زندگی سے بھرپور استفادہ کرنے اور معاشرے میں اپناوقار بنانے کے لئے خوش اخلاقی کا مظاہرہ کرے ۔رہبر انقلاب نے گام دوم انقلاب میں اخلاق کی ضرورت پر تاکید کی ہے اس لیے زیر نظر مقالہ میں آیات وروایات سے استفادہ کرتے ہوئے معاشرہ میں اسلامی اخلاق کی اہمیت وضرورت کو پیش کی گئی ہے تاکہ معاشرہ مکمل اسلامی تنگ میں ڈھل جائے جس کے لئے آیات ورویات معصومین کی روشنی میں اخلاق لازمی ہے۔

چوتھے مقالے کا عنوان رفاہ عامہ کی تقسیم میں عدالت علویؑ کی ایک جھلک ہے۔عدل و انصاف ایک ایسی صفت ہے جس کے قیام کے لئے خالق کائنات نے اتنے انبیاء مبعوث کئے اوران میں سے ہر ایک نے اس بات پر توجہ دیں، اور ان کے حقیقی جانشین اور وصی برحق نے بھی بڑے آب و تاب کے ساتھ اسی عدالت کے قیام کے لئے اپنے خون کا آخری قطرہ تک بہایا اور دنیا والوں کے لئے نمونہ عمل پیش کرکے بتا گئے حکمرانو! تمہاری یہ حکومت علیؑ کے نزدیک اس پھٹے پرانے جوتے کی بھی حیثیت نہیں رکھتی ، مگر یہ کہ اس کے ذریعہ ظلم و جور کا خاتمہ کرکے عدالت قائم کرسکے۔یہ منصب اور تخت و تاج تمہارے ہاتھوں میں بھی خدا کی امانت اور عوام الناس میں عدالت قائم کرنے کا ذریعہ ہے۔اسی اہمیت کے پیش نظر اس مقالہ میں رفاہ عامہ کی تقسیم میں عدالت علویؑ کی ایک مختصرجھلک کی طرف اشارہ کرتے ہوئے عالم بشریت ،بالخصوص ذمہ دار افراد اور حکمرانوں کو نہج البلاغہ کے گوہربار کلمات سے استفادہ کرتے ہوئے دعوت دینے کی کوشش کی گئی ہے۔اگر ہر ذمہ دار شخص اپنے اپنے رعایا کے درمیاں عدالت برقرار کرے تو نتیجتا ہر معاشرہ اور سماج امن و امان اور خوشحالی کا گہوارہ بن سکتا ہے۔

پانچویں مقالے کا عنوان آزادی کے فقہی مبانی اور ریشہ ہے ۔تاریخ بشریت میں تمام مذاہب میں ہر بشر کا فردی، اجتماعی، فکری اور سیاسی زندگی کے اعتبار سے آزاد ہونا ایک اہم دغدغہ رہا ہے اور آزادی کو اپنا حق حیات گمان کیا گیا ہے، دین اسلام جو سب کے لیے آزادی کا پیغام لے کر آیا ہے اس نے بشر کو غلامی کے غول و زنجیروں سے نجات بخشی اور اسے عزت و کرامت کا تاج پہناکر آزادی کا تحفہ دیا، دین اسلام نے ہی بشر کو فکری، عاطفی، اخلاقی آزادی بھی بخشی ہے۔ اگر کسی جگہ مذہب میں حقیقی آزادی ہے تو وہ صرف دین اسلام ہے اور اس مذہب میں آزادی کی تمام انواع پر فقہی دلائل و مدارک پائے جاتے ہیں، کلام و فقہ میں آزادی اور حریت کا ریشہ اور مبانی تین چیزیں ہیں: اصل برائت، نفی سلطہ اور ارادہ و اختیار اور یہ تین چیزیں شیعہ مذہب سے ثابت ہیں۔ بعض لوگ جبر کے قائل ہیں تو بعض تفویض کے لیکن شیعہ حضرات نہ جبر کے قائل اور نہ ہی تفویض کے اور انھیں باطل مانتے ہوئے الامربین الامرین کے قائل ہیں، عدالتِ الٰہی کو قبول کرتے ہیں، وہ اشیاء جن کے حسن و قبح ہونے کو عقل درک کرتی ہے قبول کرتے ہیں۔

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha