پیر 22 دسمبر 2025 - 09:26
دینِ اسلام؛ مسلمان اور مؤمن

حوزہ/دینِ اسلام محض چند عبادات، ظاہری شعائر یا رسمی اعمال کا مجموعہ نہیں، بلکہ یہ انسان کی پوری زندگی کو معنی، سمت اور وقار عطا کرنے والا ایک ہمہ گیر نظامِ ہدایت ہے۔ اسلام انسان کو صرف مسجد تک محدود نہیں کرتا، بلکہ اس کے فکر، اخلاق، معاشرت، معیشت اور اجتماعی زندگی—سب کو خدا کی بندگی کے دائرے میں لے آتا ہے۔ یہ دین انسان کو اپنے رب سے مضبوط رشتہ بھی عطا کرتا ہے اور اسے سماج کے تئیں ذمہ دار بھی بناتا ہے۔ اسی جامعیت اور توازن کا نام اسلام ہے۔

تحریر: مولانا سید کرامت حسین شعور جعفری

حوزہ نیوز ایجنسی| دینِ اسلام محض چند عبادات، ظاہری شعائر یا رسمی اعمال کا مجموعہ نہیں، بلکہ یہ انسان کی پوری زندگی کو معنی، سمت اور وقار عطا کرنے والا ایک ہمہ گیر نظامِ ہدایت ہے۔ اسلام انسان کو صرف مسجد تک محدود نہیں کرتا، بلکہ اس کے فکر، اخلاق، معاشرت، معیشت اور اجتماعی زندگی—سب کو خدا کی بندگی کے دائرے میں لے آتا ہے۔ یہ دین انسان کو اپنے رب سے مضبوط رشتہ بھی عطا کرتا ہے اور اسے سماج کے تئیں ذمہ دار بھی بناتا ہے۔ اسی جامعیت اور توازن کا نام اسلام ہے۔

اسلام کی فکری بنیاد چند واضح اصولوں پر قائم ہے: توحید، نبوت، الٰہی ہدایت کا تسلسل، اور عدلِ الٰہی۔ ان اصولوں کا مقصد یہ نہیں کہ انسان محض عبادت گزار بن جائے، بلکہ یہ ہے کہ وہ صاحبِ شعور، صاحبِ کردار اور صاحبِ ذمہ داری انسان بن کر ابھرے۔ اسلام فرد کے باطن کو ایمان سے روشن کرتا ہے اور سماج کے ظاہر کو انصاف سے آراستہ کرتا ہے—اور یہی اس دین کی اصل روح ہے۔

اسلام میں توحید محض یہ عقیدہ نہیں کہ خدا ایک ہے، بلکہ یہ ایک مکمل طرزِ فکر ہے۔ اس کا تقاضا یہ ہے کہ حاکمیت، اطاعت اور قانون سازی میں کسی کو خدا کے مقابل نہ کھڑا کیا جائے۔ قرآن اس حقیقت کو دو ٹوک انداز میں بیان کرتا ہے:

اِنِ الْحُكْمُ اِلَّا لِلّٰهِ — حکم صرف اللہ ہی کا ہے (یوسف: 40)۔

یہی توحید انسان کو ہر طرح کی فکری غلامی سے آزاد کرتی ہے اور اسے صرف حق کے سامنے جھکنا سکھاتی ہے۔

نبوت اس ہدایت کا عملی اور زندہ نمونہ ہے۔ اللہ نے انسان کو عقل عطا کی، مگر عقل کی صحیح رہنمائی کے لیے وحی کو لازم قرار دیا۔ انبیاءؑ انسانیت کے لیے چراغِ راہ بنے، اور یہ سلسلہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر اپنی تکمیل کو پہنچا۔ قرآن گواہی دیتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہدایت، تزکیہ اور تعلیم کے لیے مبعوث کیے گئے۔ اسی ہدایت کی حفاظت اور درست تفہیم کے لیے اسلام نے صرف کتاب پر اکتفا نہیں کیا، بلکہ ایسی باوقار اور باکردار رہنمائی کو بھی ضروری قرار دیا جو دین کو تحریف، مفاد اور اقتدار کی آمیزش سے محفوظ رکھے۔

اسی تسلسل میں اسلام کو ایک زندہ اور متحرک حقیقت کے طور پر پیش کیا گیا ہے—ایسا دین جو ہر دور میں انسان کی رہنمائی کرتا ہے، ہر ظلم کے خلاف آواز بن جاتا ہے، اور ہر مظلوم کے ساتھ کھڑا نظر آتا ہے۔ یہاں دین جامد نہیں، بلکہ شعور کے ساتھ متحرک ہے؛ خاموش نہیں، بلکہ حق گو ہے؛ مصلحت پسند نہیں، بلکہ اصول پر قائم ہے۔

عدلِ الٰہی اس پورے فکری نظام کا مرکزی ستون ہے۔ اسلام خدا کو عادل مانتا ہے اور انسان کو جواب دہ۔ قرآن صاف اعلان کرتا ہے کہ اللہ کسی پر ذرّہ برابر ظلم نہیں کرتا۔ اس تصور کے تحت انسان نہ مجبور ہے اور نہ بے اختیار؛ وہ اپنے عمل کا خود ذمہ دار ہے۔ یہی احساسِ جواب دہی انسان کو اخلاقی بلندی عطا کرتا ہے اور سماج میں توازن پیدا کرتا ہے۔

اسلام میں عبادت، اخلاق سے جدا نہیں۔ نماز انسان کو غرور سے روکتی ہے، روزہ نفس کو ضبط میں لاتا ہے، زکوٰۃ سماجی انصاف کو مضبوط کرتی ہے، اور حج مساوات اور اخوت کا عملی سبق دیتا ہے۔ لیکن اگر عبادت کے باوجود اخلاق نہ سنوریں، ظلم سے نفرت پیدا نہ ہو، اور حق سے وابستگی مضبوط نہ ہو تو ایسی عبادت روح سے خالی رہ جاتی ہے۔ اسی لیے اسلام میں دینداری کا اصل معیار دعویٰ نہیں، بلکہ کردار ہے۔

یہاں سے مسلمان اور مومن کے فرق کو سمجھنا آسان ہو جاتا ہے۔ اسلام نے انسان کی دینی شناخت کو ایک ہی درجے میں محدود نہیں رکھا، بلکہ واضح کیا ہے کہ مسلمان ہونا اور مومن ہونا ایک جیسی بات نہیں۔ قرآن اس فرق کو نہایت صراحت کے ساتھ بیان کرتا ہے:

قَالَتِ الْأَعْرَابُ آمَنَّا ۖ قُل لَّمْ تُؤْمِنُوا وَلَـٰكِن قُولُوا أَسْلَمْنَا.(الحجرات: 14) اعراب کہتے ہیں: ہم ایمان لے آئے۔ کہہ دیجیے: تم ایمان نہیں لائے، بلکہ یہ کہو کہ ہم نے اسلام قبول کیا ہے۔

مسلمان وہ ہے جو ظاہری طور پر اسلام کو قبول کرے: کلمۂ توحید و رسالت کا اقرار کرے، اسلامی معاشرے میں داخل ہو، اور شریعت کے عمومی دائرے کو مان لے۔ یہ ایک قانونی اور سماجی شناخت ہے، جس کے تحت جان، مال اور عزت کا تحفظ ملتا ہے، اور حقوق و فرائض متعین ہوتے ہیں۔ اس مرحلے پر انسان اسلام کے دروازے میں داخل ہوتا ہے—یہ آغاز ہے، انجام نہیں۔

مؤمن اس سے آگے کا مرحلہ ہے۔ مومن وہ ہے جس کے دل میں ایمان راسخ ہو جائے، جو محض زبان یا ظاہر تک محدود نہ رہے، بلکہ جس کی نیت، سوچ، اخلاق اور عمل میں ایمان بولتا ہو۔ قرآن اسی حقیقت کی طرف متوجہ کرتا ہے:

وَلَمَّا يَدْخُلِ الْإِيمَانُ فِي قُلُوبِكُمْ. اور ابھی ایمان تمہارے دلوں میں داخل نہیں ہوا۔

یعنی ایمان دل کا نور ہے، جو انسان کو اندر سے بدل دیتا ہے۔

ایمان کی فکری و اصولی تشریح — اصولِ دین کی روشنی میں:

ایمان محض ایک جذباتی کیفیت یا چند اعتقادی جملوں کا نام نہیں، بلکہ یہ دین کے بنیادی اصولوں پر عقلی یقین، قلبی اطمینان اور عملی التزام کا مجموعہ ہے۔ اسی لیے ایمان کی بنیاد دین کی پانچ اصل پر قائم ہے، جن کے بغیر ایمان نہ کامل ہوتا ہے اور نہ بامعنی۔

۱- توحید ایمان کی اساس ہے۔ مومن اس حقیقت کو مانتا ہے کہ حاکمیت، تشریع اور اطاعت کا حق صرف اللہ کے پاس ہے۔ یہ یقین انسان کو ہر فکری و نفسیاتی غلامی سے آزاد کرتا ہے اور اسے صرف حق کے سامنے جھکنا سکھاتا ہے۔

۲- عدل ایمان کی روح ہے۔ مومن اس بات پر یقین رکھتا ہے کہ خدا عادل ہے، نہ ظلم کرتا ہے اور نہ بے مقصد سزا دیتا ہے۔ اسی یقین سے اخلاق، احتسابِ نفس اور سماجی انصاف جنم لیتے ہیں۔ عدل کے بغیر خدا کا تصور جبر میں بدل جاتا ہے اور دین اپنا اخلاقی وزن کھو دیتا ہے۔

۳- نبوت ایمان کی عملی رہنمائی ہے۔ مومن یہ مانتا ہے کہ اللہ نے وحی کے ذریعے انسان کو زندگی گزارنے کا درست طریقہ سکھایا، اور رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اس ہدایت کی کامل ترین مثال ہیں، جن کی سیرت ایمان کو عمل کی صورت دیتی ہے۔

۴- امامت ایمان کی حفاظت اور تسلسل ہے۔ مومن اس بات پر یقین رکھتا ہے کہ دین کی صحیح تفسیر، عملی تعبیر اور تحریف سے حفاظت کے لیے الٰہی رہنمائی کا تسلسل ناگزیر ہے، تاکہ دین ہر دور میں زندہ، متحرک اور قابلِ عمل رہے۔

۵- قیامت ایمان کی تکمیل ہے۔ مومن اس دن پر یقین رکھتا ہے جب ہر عمل کا حساب ہوگا، نیتوں کو پرکھا جائے گا، اور عدلِ کامل قائم ہوگا۔ یہی یقین انسان کو گناہ سے روکتا، ظلم سے نفرت سکھاتا اور مظلوم کے ساتھ کھڑے ہونے کا حوصلہ دیتا ہے۔

قرآن کے مطابق مومن کی پہچان صرف دعویٰ نہیں، بلکہ یقین، ثبات اور قربانی ہے:إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ الَّذِينَ آمَنُوا بِاللّٰهِ وَرَسُولِهِ ثُمَّ لَمْ يَرْتَابُوا وَجَاهَدُوا بِأَمْوَالِهِمْ وَأَنفُسِهِمْ.(الحجرات: 15)

روایات بھی اسی حقیقت کی تائید کرتی ہیں۔ امیرالمؤمنین علیؑ فرماتے ہیں:الإِيمَانُ مَعْرِفَةٌ بِالْقَلْبِ، وَإِقْرَارٌ بِاللِّسَانِ، وَعَمَلٌ بِالْأَرْكَانِ

اور امام جعفر صادقؑ فرماتے ہیں:لَيْسَ الإِيمَانُ بِالتَّمَنِّي وَلَا بِالتَّحَلِّي، وَلَكِنْ مَا وَقَرَ فِي الْقَلْبِ وَصَدَّقَهُ الْعَمَلُ۔

یوں اسلام میں مسلمان ہونا ایک شناخت اور دائرۂ عمل میں داخل ہونا ہے، جبکہ مومن ہونا ایک باطنی، اخلاقی اور عملی کمال ہے۔ مسلمان ہونا راستے پر قدم رکھنا ہے، اور مومن ہونا اس راستے پر سچائی، صبر اور عدل کے ساتھ چلتے جانا۔

قرآن انسان کو صرف اسلام پر مطمئن نہیں ہونے دیتا، بلکہ اسے ایمان کی طرف بلاتا ہے—ایسے ایمان کی طرف جو دل کو بدل دے، کردار کو سنوار دے، اور انسان کو حق، عدل اور امانت کا علمبردار بنا دے۔

اسلام راستہ ہے، ایمان منزل—اور قرآن ہمیں اسی منزل کی طرف بلا رہا ہے۔

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha