تحریر: مولانا گلزار جعفری
حوزہ نیوز ایجنسی| خَلّاقِ دو عالم نے جب حضرتِ انسان کو زیورِ وجود سے آراستہ و پیراستہ کیا تو اس کی خلقت کی مکمل تفصیلات، صُلبِ پدر سے بطنِ مادر تک اور بطنِ مادر کی تمام کیفیتوں کو قرآنِ حکیم نے کہیں اجمالاً اور کہیں تفصیلاً بیان فرمایا ہے۔ جیسا کہ ارشاد باری احدیت ہو رہا ہے: ﴿خُلِقَ الإِنسَانُ مِن مَّاءٍ دَافِقٍ﴾ “ہم نے انسان کو اچھلتے ہوئے پانی سے پیدا کیا۔”اسی پانی کی کیفیت کو مزید واضح کرتے ہوئے ارشاد فرمایا: ﴿یَخْرُجُ مِنۢ بَیْنِ الصُّلْبِ وَالتَّرَآئِبِ﴾ “جو پانی پشت اور سینے کی ہڈیوں کے درمیان سے نکلتا ہے۔”
مگر قدرت نے صرف اسی پر اکتفا نہیں فرمایا بلکہ ایک اور مقام پر ارشاد ہوا: ﴿وَلَقَدْ خَلَقْنَا الإِنسَانَ مِنْ حَمَإٍ مَّسْنُونٍ﴾ “اور بے شک ہم نے انسان کو بدبودار، سیاہ، چکنی مٹی سے پیدا کیا۔” اور اسی حقیقت کو ایک اور انداز میں یوں بیان کیا: ﴿إِنَّا خَلَقْنَا الإِنسَانَ مِن نُّطْفَةٍ أَمْشَاجٍ﴾ “ہم نے انسان کو ملے جلے پانی کے ایک قطرے سے پیدا کیا۔”
جب انسان کو صلب سے رحم میں منتقل کیا گیا تو رحم کی تفصیل اس طرح بیان فرمائی: ﴿فِی ظُلُمَاتٍ ثَلَاثٍ﴾“بطنِ مادر کے تین تاریک پردوں میں رکھا گیا۔” یہ اس کا کرم ہے کہ جس مقام میں قطرۂ وجود کو رکھا، اسی کا نام رحم رکھا، تاکہ بندگی کی سرشت میں اشتراک لفظی ہی کا سہی مگر رحم و کرم کی تاثیر باقی رہے۔
پھر انسان کے جسم و روح کے ارتقائی تکامل کو عَلَقہ، مُضغہ، عِظام، لَحم، ولوجِ روح جیسے الفاظ کے ذریعے بیان کر کے اس مالکِ حقیقی نے اپنے حسین شاہکار کی صنعت و خلقت کو منصّۂ شہود پر ظاہر فرمایا اور پھر اسی حضرتِ انسان کی تخلیق پر خود قدرت نے اپنے بارے میں قصیدہ پڑھتے ہوئے فرمایا: ﴿فَتَبَارَكَ اللَّهُ أَحْسَنُ الْخَالِقِینَ﴾
“پس بابرکت ہے اللہ، سب سے بہتر پیدا کرنے والا۔” پھر اسے ممتاز کیا شمعِ عقل کے ذریعے، جو اس نے انسان کے کاسۂ سر میں روشن فرمائی، اور اس کے لیے ایک اخروٹ نما شے کو فانوس بنایا، جس کے ذریعے ساری رگوں کی دانائی کوخون کے جریان سے زندہ رکھا۔
﴿فَأَلْهَمَهَا فُجُورَهَا وَتَقْوَاهَا قَدْ أَفْلَحَ مَنْ زَكَّاهَا وَقَدْ خَابَ مَنْ دَسَّاهَا﴾ "پس (اللہ نے) اسے اس کی بدی اور پرہیزگاری دونوں کی پہچان سکھا دی۔ یقیناً کامیاب وہ ہوا جس نے اسے پاکیزہ کیا، اور یقیناً نامراد ہوا جس نے اسے آلودہ کر دیا۔" سورۃ الشمس، آیات 8–10۔
اس کے وجود میں شعور کی وہ دولت ودیعت کی جو وقتاً فوقتاً انسان کو نفع و نقصان کا مفہوم سمجھاتی رہتی ہے، اور صحیح و غلط کے درمیان ایک لطیف امتیازی خط اس کے دائرۂ ادراک میں قائم کرتی رہتی ہے۔
اب یہ بندۂ بشر پر منحصر ہے کہ وہ کس نفع کو نفع اور کس نقصان کو نقصان سمجھے۔ روشِ ادراک کے سفر میں، وادیِ احساس میں ڈوب کر حق و باطل کی باریک پگڈنڈی پر چلتے ہوئے، وہ یا تو تقویٰ و عرفان سے متمسّک ہو جاتا ہے، یا پھر قعرِ مذلّت کو اپنا مسکن بنا کر ابدی رسوائی کا طوق اپنے گلے میں ڈال لیتا ہے۔
اسی مقام پر ربّ العالمین نے صاف اعلان فرمایا: ﴿إِنَّا هَدَيْنَاهُ السَّبِيلَ إِمَّا شَاكِرًا وَإِمَّا كَفُورًا﴾ “ہم نے انسان کو دونوں راستے دکھا دیے—اب چاہے شکر گزار بنے یا ناشکرا۔”
مگر عدالتِ عُلیا کا قانون یہ ہے کہ: ﴿لَئِن شَكَرْتُمْ لَأَزِيدَنَّكُمْ ۖ وَلَئِن كَفَرْتُمْ إِنَّ عَذَابِی لَشَدِیدٌ﴾ “اگر تم شکر کرو تو ہم تمہیں اور زیادہ دیں گے، اور اگر ناشکری کرو تو یقیناً میرا عذاب بہت سخت ہے۔”
یہ بھی اس کا کرم ہے کہ اس نے صرف ایک عقل ہی ہدایت کے لئے نہیں رکھی بلکہ اس نے دو دو حجتیں انسان کو عطا کی ہیں جیسا کہ حضرت امام موسی کاظم علیہ الصلوۃ والسلام نے وصیت فرماتے ہوئے ہشام بن حکم سے ارشاد فرمایا:
«يا هشام، إنَّ لله على الناس حجّتين: حجّة ظاهرة وحجّة باطنة، فأمّا الظاهرة فالرسل والأنبياء والأئمّة عليهم السلام، وأمّا الباطنة فالعقول.»
«اے ہشام! اللہ تعالیٰ نے لوگوں پر دو حجتیں قائم کی ہیں: ایک ظاہری حجت اور ایک باطنی۔ ظاہری حجت وہ ہے — یعنی جو دکھائی دیتی ہے — وہ رسول، انبیاء اور ائمّہ علیہم السلام ہیں، اور باطنی حجت وہ عقلیں ہیں ۔»: یعنی ایک حجتِ ظاہرہ اور ایک حجتِ باطنہ۔ حجتِ باطنہ عقل کو کہتے ہیں اور حجتِ ظاہرہ امامِ معصومؑ، ہادیِ برحق کو کہتے ہیں، جو انسان کو نیکی کی جانب ہدایت کرتا ہے اور اس کے شعور کی دہلیز پر مسلسل ہدایت کی دستک دیتا ہے۔
جیسا کہ فرزندِ رسول حضرت امام حسین علیہ السلام نے کربلا کے تپتے ہوئے ریگزار پر پسرِ سعد کو یزیدیت کے خیمے سے بلوایا اور بلانے کے بعد اسے وعظ و نصیحت فرمائی۔
قال له الإمام الحسين عليه السلام: «وَيْلَكَ يَا ابْنَ سَعْدٍ! أَتُقَاتِلُنِي وَانت تعْلَمُ مَنْ أَنَا؟ أَمَا تَتَّقِي اللهَ الَّذِي مَرْجِعُكَ إِلَيْهِ؟ وَاللَّهِ لَا تَأْكُلُ بُرَّ الرَّيِّ إِلَّا قَلِيلًا.»
امام حسینؑ نے عمر بن سعد سے فرمایا: "تجھ پر افسوس اے ابنِ سعد! کیا تو مجھ سے جنگ کرے گا، جبکہ تو جانتا ہے کہ میں کون ہوں؟ کیا تو اُس خدا سے نہیں ڈرتا جس کی طرف تیرا پلٹنا ہے؟ خدا کی قسم! تو ری کی گندم بہت کم کھائے گا۔"
ایک اور مقام پر اس طرح بھی نقل ہوا ہے کہ فقال له عليه السلام: «وَيْحَكَ يَا ابْنَ سَعْدٍ! دَعْ هَذَا الْجَيْشَ وَانْصُرْنِي، أَكْتُبْ لَكَ إِلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ بِالْجَنَّةِ.»
امامؑ نے فرمایا: "افسوس ہے اے ابنِ سعد! اس لشکر کو چھوڑ دے اور میری نصرت کر۔ میں تیرے لیے رسولِ خداؐ کے حضور جنت کا پروانہ لکھ دوں گا۔"
اس بات کی جانب متوجہ فرمایا کہ تیرا باپ سعد بن ابی وقاص رسولِ اکرمؐ کا صحابی ہونے کے باوجود پیغام غدیر اپنے کانوں سے سنا پھر بھی بابا کی بیعت نہ کی اب تو بھی اپنے باپ کی روش پر چلتے ہوئے آل سفیان کے ساتھ وفاداری نبھا رہا ہے ۔تو جہنم کو مقدر نہ بنا بلکہ اس امر سے باز آ جا اور ارضِ نینواں پر اپنے ضمیر کا سوداگر نہ بن۔ میری جانب آجا تاکہ میں تجھے شہادت کا مژدہ سناؤں اور جنت کی بشارت دوں۔ میرا وعدہ ہے کہ میں تجھے جنت میں سکونت دوں گا، اگر تُو باطل کو چھوڑ کر حق پر جان دے گا۔
مگر پسرِ سعد نے جواب دیا کہ میں کل سوچ کر بتاؤں گا۔ امام علیہ السلام نے جاتے ہوئے آہستہ سے ایک جملہ فرمایا: "تجھے ری کی حکومت کا ایک چھلکا بھی نصیب نہ ہوگا۔ جس ری کی حکومت کے گندم کی لالچ میں تو یہاں آیا ہے، وہ تجھے میسر نہ ہوگی۔"
یہ جملہ شعور کی دہلیز پر امامت کی آخری دستک تھی، جو اس کے شعور کو بیدار کرنے کے لئے دی گئی۔ اگر پسرِ سعد کے قلب و نظر پر دولت و ثروت کے حصول کا پردہ نہ چڑھا ہوتا تو اسے یہ احساس ہو جاتا کہ جو بات میرے اور ابن زیاد کے درمیان خلوت و تنہائی میں بڑے رازدارانہ طور پر ہوئی ہے، وہ فرزندِ رسول تک کیسے پہنچ گئی؟ اس کا مطلب یہ ہے کہ ذاتِ حسینؑ اس امامِ وقت کا نام ہے جو غیب کے رازوں کو، دشمن کی باتوں کو، اور عداوت کے منصوبوں کو بخوبی جانتا ہے۔
مگر افسوس! حرص و طمع اور ہوسِ دنیا نے اسے اتنا اندھا کر دیا کہ صاف و شفاف حق یعنی ابنِ وجہ اللہ کا چہرہ نظر نہ آیا اور اسے کچھ بھی سوچنے کا موقع نہ ملا۔ وہ دولت کے نشے میں اس قدر مست و مگن ہوا کہ فرزندِ رسول کی یہ نصیحت بھی اسے بیدار نہ کر سکی۔اور شاید اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ جب پیٹ میں مالِ حرام اترا ہوا ہو تو شعور کی دہلیز پر دی جانے والی دستک عقل و خرد کو سنائی نہیں دیتی، اور اس طرح انسان اسفل السافلین میں شمار ہو جاتا ہے، حالانکہ انسان کو احسن تقویم پر خلق کیا گیا تھا۔
مگر یہ سب اُن کے لئے ہے جن کے شعور پر ہدایت کی دستک اثر انداز ہوتی ہے اور وہ حکومت و منصب کو ٹھوکر مار کر بارگاہِ حسینیت میں داخل ہو جاتے ہیں۔ اس کا جیتا جاگتا ثبوت حرّ بن یزید ریاحی ہے، جس نے فوجِ یزید کی سرداری کو لات مار کر فرزندِ رسول حضرت امام حسینؑ کے قدموں میں پناہ لینا پسند فرمایا۔ یہی وہ نفس کی جنگ ہے جو اس نے فتح کی، اور یہ نفس کی جنگ کا مجاہد اس لائق تھا کہ اس کا سر بوقتِ شہادت زانوئے حسین ابنِ علی علیہ السلام پر ہوتا۔
چونکہ اس نے اس دستک کو محسوس کیا جو اس کے شعور کی دہلیز پر وقت کے امام نے ہدایت کے عنوان سے دی تھی، اس لیے وہ دنیا و آخرت میں "حُر" ہو گیا۔ مگر جس کا نام سعد تھا وہ نفس کی جنگ ہار گیا اور بدبخت ترین انسان ہو گیا۔اور اسی طرح کربلا شعور کی دہلیز پر ہدایت کی دستک ہے۔ یہ بات اہلِ عقل و شعور نے ضرور محسوس کر لی ہوگی، ان شاء اللہ۔
حوالہ جات
1. سورۂ طارق — آیات 6–7
2. سورۂ حجر — آیت 26
3.
3. سورۂ دہر — آیت 2
4. سورۂ زمر — آیت 6
5. سورۂ مؤمنون — آیت 14
6. سورۂ انسان — آیت 3
7. سورۂ ابراہیم — آیت 7
تاریخ طبری
الارشاد۔ ( شیخ مفید )
لہوف۔ (سید ابن طاؤوس)
مقتل خوارزمی
مقتل ابو مخنف
بحار الانوار۔ (علامہ مجلسی)
رجال کشی
کامل الزیارات (ابن مسکویہ)









آپ کا تبصرہ