تحریر: حسن رضا جعفری
حوزہ نیوز ایجنسی|
اِنَّمَا یُرِیۡدُ اللّٰہُ لِیُذۡہِبَ عَنۡکُمُ الرِّجۡسَ اَہۡلَ الۡبَیۡتِ وَیُطَہِّرَکُمۡ تَطۡہِیۡرًا
اللہ کا ارادہ تو بس یہی ہے کہ اہلِ بیتؑ سے ہر طرح کی ناپاکی کو دُور رکھے اور انہیں ایسا پاکیزہ بنائے جیسا پاکیزہ بنانے کا حق ہے۔
ائمۂ معصومین علیہم السلام کی حیاتِ طیبہ کا مطالعہ درحقیقت دینِ اسلام کی صحیح فہم، راہِ حق میں جدوجہد اور انسانی زندگی کے ہر شعبے میں رہنمائی کا سرچشمہ ہے۔ چاہے وہ اعتقادی میدان ہو، فقہی، اخلاقی یا سیاسی ہر پہلو میں اہلِ بیتؑ کے نقوشِ قدم آج بھی روشن اور زندہ ہیں۔
اس تحریر کا مقصد حضرت امام علی نقی علیہ السلام، المعروف امام ہادیؑ، کی حیاتِ طیبہ کا اجمالی جائزہ لینا ہے تاکہ اس درخشاں تاریخی حقیقت سے اپنی بساط کے مطابق روشنی حاصل کی جا سکے اور امامؑ کی شخصیت و کردار سے آگاہی میسر آئے۔
ولادت اور ابتدائی زندگی
حضرت امام علی نقی علیہ السلام کی ولادتِ باسعادت 15 ذی الحجہ 212 ہجری کو مدینہ منورہ کے محلہ صَربا میں ہوئی۔ آپؑ کی والدہ ماجدہ کا نام سمانہ خاتون تھا۔
آپؑ کی تربیت اپنے والدِ گرامی حضرت امام محمد تقی (جواد) علیہ السلام کی آغوشِ علم و تقویٰ میں ہوئی، اور آپؑ نے بچپن ہی سے علم، عبادت اور اخلاقِ عالیہ کے جوہر نمایاں کر دیے۔
امام جوادؑ کو اس دور میں عوام اپنا پیشوا و رہبر مانتے تھے، حالانکہ سیاسی طور پر بنی عباس اہلِ بیتؑ کی شدید مخالفت پر کمر بستہ تھے، لیکن اس کے باوجود کسی کو جرأت نہ تھی کہ امامؑ کی علمی و روحانی عظمت کو عوام کی نگاہوں میں کم کر سکے۔ مامون عباسی کی جانب سے امام جوادؑ کی حمایت میں کی گئی گفتگو تاریخ کے صفحات میں محفوظ ہے۔
امام ہادیؑ کی ذاتی خصوصیات
حضرت امام علی نقی علیہ السلام سلسلۂ امامت کی ایک درخشاں کڑی ہیں۔ آپؑ بندگی، عبودیت اور تقویٰ کا کامل نمونہ تھے۔ آپؑ نہ صرف علم و حکمت کے سرچشمہ تھے بلکہ ظلم کے خلاف قیام اور آزادی کی جدوجہد کرنے والوں کے لیے عملی مثال بھی تھے۔
علماء و دانشوروں نے اپنی تحریروں میں امامؑ کی سیرتِ طیبہ، علمی فضائل اور روحانی برکات کو تفصیل سے بیان کیا ہے۔ مشہور عالم ابو عبداللہ جنید فرماتے ہیں:“خدا کی قسم! آپؑ اپنے زمانے کے اہلِ زمین میں سب سے افضل اور برگزیدہ شخصیت تھے۔”
حتیٰ کہ امامؑ کے سخت ترین دشمن بھی آپؑ کی عظمت اور بلند مقام کے معترف تھے، جیسا کہ ان کے خطوط اور تاریخی روایات سے واضح ہوتا ہے۔(ملاحظہ ہو: شذرات الذہب، جلد ۳، ص ۱۲۹)
القابات
امام ہادی علیہ السلام کے مشہور القابات میں شامل ہیں:
نقی، عالم، فقیہ، امین، طیب، اعلامُ الوریٰ
ان کے علاوہ بھی متعدد القابات و فضائل منقول ہیں جن کا احاطہ اس مختصر تحریر میں ممکن نہیں۔
سیاسی جدوجہد
امام ہادی علیہ السلام اس حقیقت سے بخوبی آگاہ تھے کہ اس دور کا معاشرہ مسلح جدوجہد کا متحمل نہیں، اسی لیے آپؑ نے براہِ راست عسکری اقدام سے گریز فرمایا۔ اس کے باوجود عباسی خلفاء امامؑ کی روحانی قیادت اور عوامی مقبولیت سے سخت خوف زدہ رہتے تھے۔
حکمران طبقہ عیاشی، ظلم اور فساد میں ڈوبا ہوا تھا، جبکہ امامؑ کا عوام سے مضبوط رابطہ تھا۔ آپؑ علوی تحریکوں کی اخلاقی و فکری حمایت کرتے اور ان کی نظریاتی تربیت میں اہم کردار ادا کرتے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ عباسی حکمران امامؑ کی بڑھتی ہوئی مقبولیت سے خائف رہتے تھے۔
متوکل عباسی کا دور
232 ہجری میں واثق کی وفات کے بعد متوکل عباسی تخت نشین ہوا، جو اہلِ بیتؑ اور علویوں کا سخت دشمن تھا۔ اس نے حضرت امام حسینؑ کی ضریح مبارک کو منہدم کرایا، زائرین پر پابندیاں لگائیں، علویوں کا معاشی بائیکاٹ کیا اور امام ہادیؑ پر شدید دباؤ ڈالا، حتیٰ کہ آپؑ کے قتل کی سازشیں بھی کی گئیں۔
امام ہادیؑ کو مدینہ منورہ سے سامرہ بلا کر نظر بند رکھا گیا تاکہ آپؑ کی سماجی و سیاسی سرگرمیوں کو محدود کیا جا سکے۔ تاہم اللہ تعالیٰ نے ہر مرحلے پر امامؑ کو دشمنوں کے شر سے محفوظ رکھا۔
متوکل کا انجام اور بعد کے حالات
متوکل کی ظالمانہ پالیسیوں کے نتیجے میں خود عباسی حکومت کے اندر اختلافات پیدا ہوئے، جو بالآخر اس کے قتل پر منتج ہوئے۔ متوکل کو اس کے بیٹے منتصر کی شمولیت سے قتل کیا گیا، جس کے بعد منتصر خلیفہ بنا۔
منتصر نے علویوں کے ساتھ نسبتاً بہتر رویہ اختیار کیا، فدک واپس کیا، اہلِ بیتؑ کے مزارات کی زیارت کی اجازت دی اور پابندیاں اٹھا لیں۔ تاہم وہ بھی زیادہ عرصہ زندہ نہ رہ سکا اور 248 ہجری میں وفات پا گیا۔
شہادت
حضرت امام علی نقی علیہ السلام نے اپنی زندگی کا طویل حصہ عباسی جبر، قید و بند اور مسلسل نگرانی میں گزارا۔ بالآخر خلیفہ معتز کے دور میں، 3 رجب المرجب 254 ہجری کو 41 برس کی عمر میں آپؑ کو شہید کر دیا گیا۔
آپؑ کا روضۂ مبارک سامرہ میں مرجعِ خلائق ہے۔
آخری بات
امام ہادی علیہ السلام کی حیاتِ طیبہ صبر، استقامت، علم اور تقویٰ کی روشن مثال ہے۔ آپؑ نے ظلم کے اندھیروں میں حق کی شمع کو فروزاں رکھا اور انسانیت کو یہ پیغام دیا کہ حقیقی قیادت طاقت سے نہیں بلکہ کردار، علم اور خدا سے تعلق سے حاصل ہوتی ہے۔









آپ کا تبصرہ