تحریر: طلال علی مہدوی
حوزہ نیوز ایجنسی| اسلامی معاشرے میں انفاق فی سبیل الله اور ایثار محض اخلاقی اقدار نہیں، بلکہ ایمان کی روح ہیں، جس کا مقصد انسانیت کی فلاح اور رضائے الٰہی کا حصول ہے۔ قرآن کریم ان صفات کی اہمیت کو واضح کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ "تم ہرگز نیکی (کے درجے) کو نہیں پا سکتے جب تک کہ اپنی پسندیدہ چیزوں میں سے (الله کی راہ میں) خرچ نہ کرو!" (آل عمران: 92)
جب ہم تاریخِ اسلام میں ان قرآنی تعلیمات کے عملی نمونے تلاش کرتے ہیں، تو خاتونِ جنت حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی شخصیت ایثار و سخاوت کے روشن ترین مینار کے طور پر ابھرتی ہے۔ آپؑ کی زندگی اس قرآنی آیت کی عملی تفسیر ہے جہاں آپؑ نے اپنی ضرورت پر دوسروں کی ضرورت کو ترجیح دی۔ سورہ دہر کی آیات اطعام گواہ ہیں کہ کس طرح سیدہ کی سیرت یہ پیغام دیتی ہے کہ حقیقی بندگی ایثارِ نفس اور خلقِ خدا کی بے لوث خدمت میں پوشیدہ ہے۔
روایت یوں بیان کرتی ہے کہ ایک مرتبہ امام حسن اور امام حسین علیہما السلام بخار میں مبتلا ہوئے۔ رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم ان کی عیادت کے لیے تشریف لائے۔ رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم نے حضرت علیؑ سے فرمایا: "اے ابوالحسن! اگر آپ اپنے بیٹوں کی شفایابی کے لیے کوئی نذر مانیں (تو بہتر ہے)۔"
چنانچہ حضرت علیؑ، سیدہ فاطمہ زہراؑ اور ان کی خادمہ جنابِ فضہ نے یہ نذر مانی کہ اگر بچے شفایاب ہو گئے تو وہ تین دن کے روزے رکھیں گے۔ جب اللہ نے انہیں شفا عطا فرمائی تو امام حسن علیہ السلام و امام حسین علیہ السلام سمیت تمام کنبے نے نذر پوری کرنے کے لیے روزے رکھے۔
پہلے دن افطار کے وقت جب وہ سب دسترخوان پر بیٹھے، تو ایک مسکین نے دروازے پر صدا دی: "اے اہل بیتِ محمد! میں ایک مسکین ہوں، مجھے کھانا کھلائیں، اللہ آپ کو جنت کی غذا عطا فرمائے۔" سب نے اپنی اپنی روٹیاں اس مسکین کو دے دیں اور صرف پانی سے افطار کی۔
اگلے دن افطار کے وقت ایک یتیم دروازے پر آیا اور مدد مانگی۔ اس دن بھی سب نے ایثار کیا اور اپنا کھانا اس یتیم کو دے دیا اور خود بھوکے رہے۔
تیسرے دن افطار کے وقت ایک اسیر (قیدی) نے دروازے پر دستک دی اور مدد طلب کی۔ اہلبیتؑ نے تیسری بار بھی اپنی روٹیاں سائل کو عطا کر دیں اور خود فاقے سے رہے۔
چوتھے دن حضرت علیؑ جناب حسنین کو لے کر رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ ان کے چہرے بھوک کی شدت سے زرد ہو چکے تھے اور وہ نقاہت سے کانپ رہے تھے۔ رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم یہ دیکھ کر شدید غمگین ہوئے اور بی بی فاطمہؑ کے گھر تشریف لے گئے، جہاں انہیں محرابِ عبادت میں نقاہت کی حالت میں پایا۔
اسی لمحے جبرائیلِ امینؑ یہ مبارک سورہ دہر کی آٹھویں آیت (آیہ اطعام) لے کر نازل ہوئے اور اہلبیتؑ کے اس بے مثال ایثار پر انہیں اللہ کی جانب سے مبارکباد پیش کی۔ (تفسیر القمی:، جلد 2، صفحہ 398)۔
آپ کے ایثار کا عالم یہ تھا کہ حضرت امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام روایت کرتے ہیں: "میں نے اپنی والدہ گرامی کو دیکھا کہ وہ شب جمعہ تمام شب عبادت میں مصروف رہیں۔ اور میں نے سنا کہ وہ مومنین اور مومنات کے نام لے لے کر ان کے لیے دعائیں کر رہی تھیں، لیکن انہوں نے اپنے لیے کوئی دعا نہیں کی۔"
امام حسنؑ فرماتے ہیں کہ میں نے اپنی والدہ سے عرض کیا: "اے مادرِ گرامی! آپ نے دوسروں کے لیے تو دعائیں مانگیں، لیکن اپنے لیے کوئی دعا کیوں نہیں کی؟"سیدہ سلام اللہ علیہا نے اپنے بیٹے کو وہ تاریخی جواب دیا جو رہتی دنیا تک کے لیے ایک درس بن گیا؛ فرماتی ہیں: "اے میرے پیارے بیٹے! پہلے پڑوسی، پھر گھر والے"۔ (علل الشرائع: شیخ صدوق، جلد 1، صفحہ 181)۔
روایات میں نقل ہے کہ جب سیدہ زہرا سلام اللہ علیہا کی شادی کا موقع تھا تو حضور اکرم صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم نے آپؑ کے لیے شادی کا ایک نیا جوڑا تیار کروایا تھا۔
جب رخصتی کی رات آئی اور آپؑ اپنے حجرے میں تھیں، تو ایک سائلہ نے دروازے پر صدا دی: "اے اہل بیتِ نبوت! میں ایک مسکین عورت ہوں، میرے پاس پہننے کو لباس نہیں ہے، مجھے کوئی پرانا لباس ہی عطا کر دیں!"
حضرت فاطمہؑ نے وہی نیا جوڑا اس سائلہ کو دے دیا اور خود وہی پرانا لباس پہن کر رخصت ہوئیں۔ جب رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم نے سیدہؑ کو پرانے لباس میں دیکھا اور دریافت فرمایا تو سیدہؑ نے جواب دیا: "بابا جان! میں نے اسے ایک سائلہ کو اللہ کی راہ میں دے دیا ہے۔"
اس موقع پر جبرائیل امین نازل ہوئے اور اللہ کی طرف سے جنت کا ایک سبز لباس تحفے میں لائے اور رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم کو اس ایثار پر مبارکباد دی۔ اور یہ وحی عرض فرمائی: "تم ہرگز نیکی (کے درجے) کو نہیں پا سکتے جب تک کہ تم ان چیزوں میں سے (اللہ کی راہ میں) خرچ نہ کرو جو تمہیں عزیز ہیں، اور جو کچھ بھی تم خرچ کرتے ہو اللہ اس سے خوب واقف ہے"۔(سورۃ الآل عمران: 92) (کتاب احقاق الحق: ج 10، ص 401)، تفسیر نُور الثقلین۔
امام زمانہ عجل اللہ تعالٰی فرجہ الشریف فاطمیوں سے یہی ایثار کی خواہش رکھتے ہیں جس طرح گزشتہ ادوار کے فاطمیوں کا شیوہ تھا۔
روایت ہے کہ حضرت ابوذر غفاری (رض) جب ربذہ (مدینہ کے گھر کچھ لوگ مہمان ہوئے۔ حضرت ابوذر (رض) کے پاس ان مہمانوں کی تواضع کے لیے کچھ نہ تھا، سوائے چند اونٹوں کے جو ان کا کل اثاثہ تھے۔ حضرت ابوذر (رض) نے اپنے چرواہے (یا غلام) سے کہا کہ "سب سے بہترین اونٹ چن کر لاؤ تاکہ میں اسے اپنے مہمانوں کے لیے ذبح کروں۔"
جب چرواہا اونٹ لایا تو وہ نسبتاً دبلا پتلا یا کمزور اونٹ تھا۔ حضرت ابوذر (رض) نے اسے دیکھ کر ناپسندیدگی کا اظہار کیا اور خود جا کر ریوڑ میں سے اپنا سب سے تندرست اور قیمتی اونٹ ذبح کرنے کے لیے منتخب کیا۔(تفسیر القمی، شیخ علی بن ابراہیم قمی)
ایک اور مقام پر روایت ہے کہ مدینہ منورہ میں حضرت ابو طلحہ (رض) کے پاس کھجوروں کے بہت سے باغات تھے، لیکن ان میں سب سے زیادہ محبوب باغ "بئرحاء" تھا۔
جب سورہ آل عمران کی مذکورہ آیت 92 نازل ہوئی، تو حضرت ابو طلحہ (رض) رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا: "یا رسول اللہ! اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم تب تک نیکی نہیں پا سکتے جب تک اپنی محبوب ترین چیز خرچ نہ کریں اور مجھے اپنے تمام مال میں 'بئرحاء' سب سے زیادہ عزیز ہے۔ میں اسے اللہ کی رضا کے لیے فدیہ کرتا ہوں۔
رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم نے ان کے اس جذبے کے جواب میں رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم نے ارشاد فرمایا: "یہ تو بہت نفع بخش مال ہے"۔ پھر آپ نے مشورہ دیا کہ وہ اسے اپنے غریب رشتہ داروں اور چچا زاد بھائیوں میں تقسیم کر دیں۔ (تفسیر مجمع البیان، علامہ طبرسی)
بس آج کے پر آشوب دور میں، جہاں نفسا نفسی اور مادہ پرستی کا غلبہ ہے، پیروانِ سیدہؑ پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ آپؑ کی سیرت کو مشعلِ راہ بنائیں۔ حقیقی فاطمی وہ ہے جو ایثار کا حوصلہ رکھتا ہو، تاکہ معاشرے سے محرومی کا خاتمہ ہو سکے؛ یہی وہ بلند اخلاق ہے جو امامِ زمانہ عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف کی خوشنودی اور ان کے عالمی انقلاب کی تیاری کا پیش خیمہ ثابت ہوگا۔









آپ کا تبصرہ