پیر 29 دسمبر 2025 - 15:44
حضرت امام محمد تقی (ع)؛ علم و حکمت کے آفتابِ جہان تاب

حوزہ/بروایت 10 رجب 195 ہجری، مدینۃ النبی صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم کے مقدس حرم میں ایک ایسے آفتاب نے طلوع کیا جس کی شعاعیں صدیوں تک علم و معرفت کے طالبین کا راستہ روشن کرنے والی تھیں۔ امام محمد تقی علیہ السلام، جنہیں تاریخ(امام جواد علیہ السلام) کے پرنور نام سے یاد کرتی ہے، آپ کی ولادت باسعادت نے گویا علم کی ایک نئی جہت کا آغاز کیا۔

تحریر: مولانا مقداد علی علوی

حوزہ نیوز ایجنسی|

آغازِ نور

بروایت 10 رجب 195 ہجری، مدینۃ النبی صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم کے مقدس حرم میں ایک ایسے آفتاب نے طلوع کیا جس کی شعاعیں صدیوں تک علم و معرفت کے طالبین کا راستہ روشن کرنے والی تھیں۔ امام محمد تقی علیہ السلام، جنہیں تاریخ(امام جواد علیہ السلام) کے پرنور نام سے یاد کرتی ہے، آپ کی ولادت باسعادت نے گویا علم کی ایک نئی جہت کا آغاز کیا۔

علومِ الٰہیہ کا زندہ و جاوید معجزہ

1:طفولیت میں امامت

جب آفتابِ امامت کے پروانے نے سات یا آٹھ برس کی شبنم زدہ عمر میں منصبِ امامت سنبھالا، تو گویا خداوند عالم نے اپنے نظامِ ہدایت میں یہ اعلان فرما دیا کہ علم، عمر کے عدد نہیں، بلکہ قلب کے انوار کا نام ہے۔ آپ کا نورِ دانش اپنی ابتدا ہی سے اس قدر تابناک تھا کہ زمانہ حیرت کے سمندر میں ڈوب گیا۔

2:بزمِ مأمون میں علم کا آفتاب

مامون الرشید نے جب بغداد کے دربار میں علم کے تمام چراغ جمع کیے، تو امام علیہ السلام نے تنہا اپنی دانش کے آفتاب سے ان تمام ستاروں کو ماند کر دیا۔ یحییٰ بن اکثم جیسے عصر کے نامور قاضی نے جب سوالوں کے تیر چلائے، تو امام علیہ السلام نے جوابوں کے موتی ان کے قدموں میں بکھیر دیے۔

3:قرآن فہمی میں بحرِ ناپیدا کنار

آپ علیہ السلام کی تفسیری روایات قرآن کے اسرار تک رسائی کی شاہ کلید ہیں۔ آپ نے نہ صرف ظاہری معانی بیان کیے، بلکہ آیات کے باطنی انوار سے پردہ اٹھاتے ہوئے، گویا قرآن کے قلزمِ بے کراں کی گہرائیوں سے موتی چن کر امت کے سامنے رکھ دیے۔

4:فقہ میں شاہراہِ استنباط

امام جواد علیہ السلام کے فقہی استدلال ایسے ہیں جیسے کوئی ہیرے کی کان سے نکلے ہوئے خالص جواہر۔ آپ نے اصولِ فقہ کی بنیادوں کو اس مضبوطی سے استوار کیا کہ آج بھی فقہ جعفریہ کے تمام استنباطات آپ کے تراشیدہ ہیروں کی چمک سے منور ہیں۔

5:حکمت کے موتی: آپ کے نورانی کلمات بلیغہ

آپ کے ارشادات میں زندگی کا پورا فلسفہ سمویا ہوا ہے۔

یہاں صرف پانچ کلمات حکیمانہ پہ ہی اکتفا کیا جا رہا ہے:

آپ علیہ السلام نے فرمایا: اللہ پر بھروسہ کرنا ہر مہنگی چیز کی قیمت اور ہر بلند چیز کی طرف سیڑھی ہے۔
فرمایا: مومن کی عزت لوگوں سے بے نیاز ہونے میں ہے.
فرمایا: لوگوں کے سامنے ولی خدا اور تنہائی میں دشمن خدا نہ بنو.
جو خدا کے لیے کسی بھائی کو فائدہ پہنچائے اس نے بہشت میں ایک گھر حاصل کیا ہے.
فرمایا: برے آدمی کی طرفداری اور صحبت سے بچو کیوں کہ اس کی مثال بے نیام تلوار کی سی ہے جس کا منظر تو اچھا ہے لیکن اس کے آثار برے ہیں۔

6:شاگردانِ خاص: علم کی مشعلیں

آپ کی علمی تربیت نے شاہ عبدالعظیم حسنی، ابن ابی عمیر اور صفوان بن یحییٰ جیسے علما تیار کیے، جنہوں نے آپ کے علوم کو آگے منتقل کیا۔ یہ گویا ایک ایسے علمی دریا کا سلسلہ تھا جس نے اپنے بعد بہت سے علم کے پیاسوں کو سیراب کرنا تھا۔

7:عباسی دور: ظلمت جہل میں نور علم کی کرن

جس زمانے میں عباسی حکمران علماء کو درباروں میں قید کر رہے تھے، امام جواد علیہ السلام نے آزاد فکر کی وہ شمع روشن کی جو آج تک جل رہی ہے۔ آپ نے ثابت کر دیا کہ حقیقی علم کبھی سلاطین کے درباروں کی زینت نہیں بنتا، بلکہ وہ تو انسانوں کے دلوں کی بادشاہی کرتا ہے۔

8:علمی میراث: صدیوں کا سرمایہ

آپ کی 25 برس کی مختصر عمر میں جمع کی گئی علمی دولت ایسی ہے کہ صدیاں گزرنے کے بعد بھی اس کے خزانے کم نہیں ہوئے۔ آپ کی احادیث،تفسیری نکات اور استدلالات فقہی آج بھی علمی حلقوں میں وہی تازگی اور روانی رکھتے ہیں جو آپ کے دور میں تھی۔

حاصلِ کلام

حضرت امام محمد تقی علیہ السلام کی شخصیت علم و حکمت کا وہ آئینہ ہے جس میں تاریخ اپنے آپ کو دیکھتی ہے اور یہ سبق پاتی ہے کہ:
علم، انسانی روح کو وہ پرواز عطا کرتا ہے کہ وہ زمان و مکان کی تمام سرحدیں پھلانگ کر ازل و ابد کے سمندروں میں گم ہو جاتی ہے۔ یہ ایسا نور ہے کہ جو ہر عہد کو منور کرتا ہے مگر خود کبھی بھی ماند نہیں پڑتا۔

شہادت

بروایت29 ذوالقعدہ 220 ہجری کو بغداد میں آفتابِ علم بظاہرغروب ہوگیا، لیکن آپ کا نورانی سفر آج بھی جاری ہے۔ آپ کی علمی میراث ایک ایسا چشمۂ صفا ہے جس سے علم کی پیاس ہر دور میں بجھائی جاسکتی ہے۔
آپ نے ثابت کر دیا کہ حقیقی علم وہ ہے جو انسان کو خدا تک پہنچائے، اور امامت وہ راستہ ہے جو اس سفر میں کامل رہنمائی فراہم کرتی ہے۔

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha