بدھ 31 دسمبر 2025 - 10:18
نظامِ ولایت؛ مقصدِ تخلیق سے فلاحِ انسانیت تک

حوزہ/ انسان کی تخلیق کا مقصد محض مادی آسائشیں حاصل کرنا نہیں، بلکہ دنیاوی کامیابی کے ساتھ ساتھ آخرت کی سرفرازی اور ابدی نجات کا حصول ہے۔ انسان کو اس منزل تک پہنچانے کے لیے خالقِ کائنات نے ابتداء خلقت کے ساتھ ہی ایک مکمل ضابطہ حیات فراہم کیا ہے جسے نظامِ ولایت کہا جاتا ہے۔

تحریر: مولانا محمد وقار مفکری

حوزہ نیوز ایجنسی|

اللہ تعالیٰ نے بنی نوع انسان کو بے مقصد پیدا نہیں کیا، بلکہ اسے ایک اعلیٰ و ارفع مقصد کے ساتھ اس کائنات میں بھیجا ہے۔

اَفَحَسِبْتُمْ اَنَّمَا خَلَقْنٰكُمْ عَبَثًا وَّاَنَّكُمْ اِلَيْنَا لَا تُرْجَعُوْنَ° المؤمنون 115"تو کیا تم یہ گمان کرتے ہو کہ ہم نے تمہیں بے مقصد (عبث) پیدا کیا ہے اور یہ کہ تم ہماری طرف لوٹ کر نہیں آؤ گے؟"

آیات قرآنی اور احادیث معصومین علیہم السلام انسان کی تخلیق کے اعلیٰ مقصد کو واضح طور پر بیان کرتی ہیں۔

سورۃ الذاریات آیت 56 میں ارشاد ہوتا ہے: "وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِيَعْبُدُوْنِ" ترجمہ: اور میں نے جنوں اور انسانوں کو پیدا نہیں کیا مگر اپنی عبادت کے لیے۔

روایات ائمہ معصومینؑ کے مطابق یہاں "لیعبدون" (تاکہ وہ عبادت کریں) کا مطلب "لیعرفون" (تاکہ وہ معرفت حاصل کریں) ہے۔

حدیثِ قدسی میں مروی ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: "میں ایک چھپا ہوا خزانہ تھا، میں نے چاہا کہ پہچانا جاؤں، پس میں نے مخلوق کو پیدا کیا" (تاکہ وہ میری معرفت حاصل کریں)۔

اللہ کی معرفت اور بندگی ہی وہ "ہدف" ہے جو انسان کی دنیاوی کامیابی اور آخرت کی سرفرازی کا ضامن بن سکتا ہے۔

کیونکہ انسان کی تخلیق کا مقصد محض مادی آسائشیں حاصل کرنا نہیں، بلکہ دنیاوی کامیابی کے ساتھ ساتھ آخرت کی سرفرازی اور ابدی نجات کا حصول ہے۔ انسان کو اس منزل تک پہنچانے کے لیے خالقِ کائنات نے ابتداء خلقت کے ساتھ ہی ایک مکمل ضابطہ حیات فراہم کیا ہے جسے 'نظامِ ولایت' کے نام سے جانا جاتا ہے۔ "اِنَّ عَلَیْنَا لَلْہُدٰی" الیل 12 ترجمہ: بیشک ہدایت دینا ہمارے ذمہ ہے۔

لہٰذا کائنات کا پہلا انسان ہادی کی شکل میں دنیا میں آیا۔

نیز سورہ انبیاء آیہ، 73 سورہ سجدہ آیہ 24 میں ارشاد رب العالمین ہے: "وَجَعَلْنٰهُمْ اَئِمَّةً يَّهْدُوْنَ بِاَمْرِنَا"اور ہم نے انہیں امام (پیشوا) بنایا جو ہمارے حکم سے ہدایت کرتے تھے۔

نظام ہدایت اور انسانی رہنمائی

نظامِ ولایت دراصل الٰہی سرپرستی اور رہبری کا وہ سلسلہ ہے جو انسان کو بھٹکنے سے بچاتا ہے۔ ابتدائی طور پر اس کی دو صورتیں نمایاں رہیں۔

رسالت و نبوت" اور پھر "امامت"

انبیاء کرامؑ نے الٰہی پیغامات پہنچا کر ہدایت کی بنیاد رکھی اور ائمہ طاہرینؑ نے اسی نظام کو تحفظ فراہم کیا۔

نظام رسالت وامامت کی تفاصیل فی الحال موررد نظر نہیں۔۔۔

زمانہ غیبت اور ولایت فقیہ

موجودہ زمانہ غیبت کبریٰ کا زمانہ ہے اس زمانے میں ہدایت و رہنمائی کا یہ نظام ختم نہیں ہوا بلکہ "ولایت فقیہ" کی شکل میں بشری ہدایت کے لیے ایک مظبوط پلیٹ فارم مہیا کرتا ہے۔ یہ تصور اس بات پر مبنی ہے کہ جب تک امامِ وقت پردہ غیب میں ہیں معاشرے کی سیاسی، سماجی اور مذہبی رہنمائی کی ذمہ داری ایک ایسے عادل، باخبر اور متقی فقیہ پر عائد ہوتی ہے جو قرآنی تعلیمات اور سیرتِ معصومینؑ کا گہرا ادراک رکھتا ہو نیز زمانے کے پیچ و خم سے باخبر ہو۔

امام حسن عسکری علیہ السّلام ارشاد فرماتے ہیں:

فَأَمَّا مَنْ كَانَ مِنَ الْفُقَهَاءِ صَائِناً لِنَفْسِهِ، حَافِظاً لِدِينِهِ، مُخَالِفاً لِهَوَاهُ، مُطِیعاً لِأَمْرِ مَوْلَاهُ، فَلِلْعَوَامِّ أَنْ يُقَلِّدُوهُ۔" الإحتجاج: علامہ طبرسی، جلد 2، صفحہ 263۔

ترجمہ: "پس فقہاء میں سے جو کوئی اپنے نفس کی حفاظت کرنے والا (باکردار) ہو، اپنے دین کا نگہبان ہو، اپنی خواہشاتِ نفسانی کا مخالف ہو اور اپنے مولیٰ (خدا اور امام) کے امر کا فرمانبردار ہو، تو عوام پر لازم ہے کہ وہ اس کی تقلید کریں۔"

اس کے علاوہ مقبولہ عمر بن حنظلہ میں امام جعفر صادق علیہ السلام نے دین شناس(عارف احکام الٰہی) کو حاکم مقرر کرتے ہوئے فرماتے ہیں: فَإِنِّي قَدْ جَعَلْتُهُ عَلَيْكُمْ حَاكِماً..." الکافی، جلد 1، صفحہ 67؛ وسائل الشیعہ، جلد 27، صفحہ 136۔

نظریہ ولایت فقیہ کو مشروعیت کی سند دینے کے ساتھ ساتھ عوامی دخالت سے بھی زینت دی گئی ہے، جس کی وجہ عوام اور خواص کے درمیان اختلاف رائے کا پیدا ہونا ایک فطری امر ہے۔

ذیل میں اس شبہ کو دفع کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔

نظامِ ولایت فقیہ اور جمہوریت کے درمیان ہم آہنگی

عام طور پر ولایت فقیہ اور جمہوریت کو متضاد نظام سمجھا جاتا ہے، لیکن معاصر سیاسی فکر میں ان دونوں کے درمیان ایک متوازن رشتہ قائم کیا جا سکتا ہے۔ اس ہم آہنگی کے لیے درج ذیل پہلوؤں پر غور کرنے کی دعوت دی جاتی ہے:

عوامی مقبولیت اور انتخاب

اسلامی طرزِ فکر میں "مشروعیت" (Legitimacy) خدا کی طرف سے آتی ہے، لیکن اس کے "نفاذ" (Implementation) کے لیے عوامی مقبولیت اور بیعت ناگزیر ہے۔

لوگوں کی تائید کے بغیر امام معصوم بھی امامت کا نفاذ نہیں کرسکتا۔

لہٰذا ولایت فقیہ کے نظام میں فقیہ کا انتخاب بالواسطہ یا بلاواسطہ عوام کی رائے سے ہی مربوط رکھا گیا ہے (جیسے ماہرین کی کونسل کا انتخاب)، یہ طریقہ کار اسے جمہوری عمل سے جوڑتا ہے۔

قانون کی بالادستی

جمہوریت کی ایک بنیادی قدر اور ستون "قانون کی حکمرانی" ہے۔ ہر چند وہ قانون عوامی ہے یا الٰہی یہ موضوع بحث نہیں۔

نظام ولایت فقیہ میں بھی ولی فقیہ قانون (شریعت) سے بالاتر نہیں ہوتا بلکہ وہ پابند احکام شریعت ہوتا ہے۔

مشاورت کا اصول (شوریٰ)

قرآن کریم اور فرامین معصومین علیہم السلام میں مشاورت کی بہت تاکید ہوئی ہے۔ "وامرہم شوریٰ بینہم" مشاورت کی روش کو مروجہ جمہوریت میں بہت اہمیت دی جاتی ہے۔ اسی طرح ولایت فقیہ کے تحت نظام میں بھی پارلیمنٹ اور مشاورتی اداروں کی موجودگی یہ ثابت کرتی ہے کہ یہ نظام فردِ واحد کی سوچ کے بجائے اجتماعی دانش پر یقین رکھتا ہے۔

لہٰذا مغربی جمہوریت کے بنیادی ارکان کے ساتھ یہ روشن اور واضح دستورات الٰہیہ نتھی ہو کر مغربی جمہوریت کو اسلامی

جمہوریت" (Religious Democracyسے ممتاز کرنے کے ساتھ ساتھ مغربی لبرل جمہوریت کا ایک مضبوط متبادل فراہم کرتے ہیں۔

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha