۱ آذر ۱۴۰۳ |۱۹ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 21, 2024
News ID: 379846
22 اپریل 2022 - 11:52
محمد بشیر دولتی

حوزہ/شہید قاسم سلیمانی ایک ہمہ جہت شخصیت کی حامل  ذات تھے۔ انسانی فطرت میں بہت سی متضاد صفات موجود ہیں۔ اسلام نے بھی ان متضاد صفات کو وقت اور جگہے کی مناسبت سے اظہار کرنے کو بہترین حکمت عملی و بصیرت قرار دیا ہے۔

تحریر: محمد بشیر دولتی

حوزہ نیوز ایجنسی

تمہید:

شہید قاسم سلیمانی ایک ہمہ جہت شخصیت کی حامل ذات تھے۔ انسانی فطرت میں بہت سی متضاد صفات موجود ہیں۔ اسلام نے بھی ان متضاد صفات کو وقت اور جگہے کی مناسبت سے اظہار کرنے کو بہترین حکمت عملی و بصیرت قرار دیا ہے۔ قاسم سلیمانی کی ذات جہاں مخفی و پوشیدہ تھی وہیں آپ کی ذمہ داریاں بھی مخفیانہ و پوشیدہ تھیں، لیکن بوقت ضرورت آپ کی ذات اور ذمہ داریاں سب پہ عیاں اور آشکار بھی ہوئیں۔
مکتب علوی کا یہ سپاہی، عصر حاضر کا مالک اشتر جہاں رحم دل و نرم مزاج تھے وہیں دشمن کے لٸے سخت دل اور سخت مزاج بھی تھے۔ مولی علی ع کی سیرت پر چلتے ہوۓ آپ راتوں کو اٹھ کر جا نماز پر رو رو کر خدا سے راز و نیاز کرنے والے تھے وہیں آپ شب و روز دشمن کے قلب میں گھس کر انہیں زیر و زبر کرنے والے بھی تھے۔توحید سے بےانتہا ٕ عشق و محبت کے ساتھ اہلبیت کے بےانتہا ٕ عاشق بھی تھے۔آپ فکروں کو جہت دینے کے لٸے دلوں کو مسحور کرنے اور پگھلانے والے سخنور کے ساتھ جوش و جذبے کی مد و جزر کو طوفان میں بدلنے والے خطیب بھی تھے۔شہدا ٕ کے ننھے منھے بچوں کو دیکھ کر ان کے لٸے رنجیدہ و شرمندہ ہونے والے سرپرست کے ساتھ قاتلوں و ظالموں کو ان کے انجام تک پہنچانے والے قہرمان و دلاور بھی تھے۔ دشمن کے آلہ کاروں کے خلاف مٹھی بھر جوانوں کو متحد کر کے انہیں رسوا کرنے والے کمانڈر ہونے کے ساتھ داعشی جیسے خونخواروں کوجان سے مارنے کی بجاۓ گرفتار کر کے ان کے ذہنوں کو بیدار کر کے اسلام کے حقیقی پرچم تھام کر یہود و ہنود سے مقابلہ کرنے کا درس دینے والے بہترین مدرس بھی تھے۔ عراق و شام کے مقدس مقامات کے محافظ ہونے کے ساتھ خانہ کعبہ و بیت المقدس کے حقیقی نگہبان و پاسبان بھی تھے۔میدان جنگ کے غازی ہونے کے ساتھ سیاست کے میدان کا شاہسوار بھی تھے۔جنگی میدان کے بہترین مدبر بھی تھے تو پر امن خارجہ پالیسی کے پالیسی ساز بھی تھے۔عراق و شام و لبنان کو متحد کرنے کے ساتھ ایران و سعودی عرب کے درمیان بہتر تعلقات کے لٸے ثالثی کا کردار بھی تھے۔مشرق وسطی میں استعماری سازشوں کے لٸے سب سے بڑی رکاوٹ کے ساتھ مسلمانوں کے درمیان اتحاد کے بہترین داعی بھی تھے۔
مکتب اسلام کے بہترین متعلم کے ساتھ بےمثال ، بےلوث و شفیق معلم بھی تھے۔آپ نے مکتب اسلام سے جو سیکھا اس پر یوں عمل کیا کہ رہبر معظم سید علی خامنہ ای نے آپ کو تنہا ایک ”مکتب“ قرار دیا۔ اب ہم اس مکتب کی کچھ خصوصیات کو مختصر بیان کریں گے۔

ملت کی تعریف:

لغوی تعریف:

ملت لغت میں طریقہ اور آٸین کو کہا جاتا ہے۔

اصطلاحی معنی:

اصطلاح میں تمام ادیان توحیدی کے پیروکاروں کو ملت کہا جاتا ہے۔ اسی لٸے اہل کتاب یعنی عیساٸی یہودی یا صاٸبین میں سے کوٸی اسلام قبول کرے پھر دوبارہ اپنے سابق مذہب کی طرف جاٸے تو فقہ تشیع میں اسے ”مرتد ملی“ کہا جاتا ہے۔
فارسی زبان میں کسی بھی ملک کے عوام کےلٸے بھی ملت کہا جاتا ہے۔(حسین توفیقی، آشناٸی با ادیان بزرگ، صفحہ٤)

مکتب کی تعریف:

لغوی معنی:

مکتب لغت میں ”پڑھنا لکھنا“ سیکھنے کی جگہ کو کہا جاتا ہے۔

اصطلاح:

اصطلاح میں مکتب اسکول یا مدرسے کو کہا جاتا ہے جہاں بچہ ابتداٸی طور پر پڑھنا لکھنا سیکھتا ہے۔

مکتب شہید سلیمانی:

رہبر معظم سید علی خامنہ ای نے شہید قاسم سلیمانی کو تنہا ایک مکتب اور ملت قرار دیا۔وہ قاسم سلیمانی جس نے مشرق وسطی میں کیمبرج یونیورسٹی اور یونیورسٹی جیسے معروف مغربی درسگا ہوں اور امریکہ فرانس برطانیہ اور اسراٸیل سمیت یورپ کے معروف عسکری ادروں سے فارغ التحصیل اور تربیت پانے والے سینکڑوں تھنک ٹینکس کے بناۓ ہوۓ نقشے کو مشرق وسطی میں پارہ پارہ کرتے ہوۓ دشمن کو ناکام و نامراد کیا۔نہ فقط ناکام کیا بلکہ ایران کی ایک عام درسگاہ سے واجبی تعلیم حاصل کرنے والی اس شخصیت نے اپنے نقشے اور ہدف کو کامیاب بھی کیا۔ یوں دنیا کے نام نہاد عسکری تجزیہ نگاروں کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا۔
شہید قاسم سلیمانی کی یہ مخلصانہ و دلیرانہ کوشش و جدوجہد دراصل مغرب کے تمام علمی و فوجی قوتوں کی ناکامی اور بےاہمیت ہونے پر واضح دلیل ہے۔ایران کی جنگی، علمی اور اسلحے کے میدان میں ترقی و پیشرفت کو ہم مکتب سلیمانی کی ترقی و پیشرفت بھی کہ سکتے ہیں، لہذا میں اس مکتب کی چندچیدہ خصوصیات کو یہاں ذکر کروں گا۔

مکتب سلیمانی اور کربلا:

قاسم سلیمانی راہ کربلا کے راہی اور مکتب عاشورا ٕ کے سپاہی تھے۔آپ کی پوری زندگی عاشوراٸی و کربلاٸی تھی۔آپ عاشوراٸی سانچے میں یوں ڈھل کر نکھر گٸے تھے کہ مکتب کربلا کا عملی مقصد، ہدف اور اثرات آپ کی زندگی میں کامل نظر آتے ہیں۔کربلاٸی مکتب کا رنگ آپ کی زندگی میں بدرجہ اتم موجود تھا۔امام حسین علیہ سلام کی پیروی کرتے ہوۓ آپ باطل طاقتوں کے سامنے سیسہ پلاٸی دیوار کی مانند کھڑے ہوۓ ۔اپنے لٸے شہادت کے راستے کا انتخاب کیا۔آپ بھی امام حسین کی طرح مہمان بن کر عراق گٸے تھے۔جس طرح امام حسین کے لٸے خود عراق سے کچھ مددگار میسر ہوۓ تھے آپ کو بھی عراق سے کچھ باوفا جانثار و مدد گار میسر تھے۔
آپ کے جسم بھی حضرت قاسم کی طرح ٹکڑے ٹکڑے ہوۓ۔آپ کی شہادت کے فورا بعد تہران میں استعمار کے چند آلہ کاروں نے خوشی کا اظہار کیا۔دجالی میڈیا نے اسے دنیا میں دکھا کر یزیدی پروپگنڈوں کی طرح پروپیگنڈہ کرنے کی ناکام کوشش کی کہ خاکم بدھن کہ ”ایک دھشت گرد مارا گیا“ پھر عراق سے لے کر ایران تک انسانوں کے سمندر نے آپ کے جسد خاکی کا یوں استقبال کیا کہ رہتی دنیا تک کے لٸے ایک مثال بن گیا۔ ایشیا سے افریقہ تک، پاکستان سے ہندوستان تک، یورپی ممالک سے خود امریکا تک ،فلسطین سے اسراٸیل تک ہر باضمیر انسان نے صداۓ احتجاج بلندی کی ۔ دجالی میڈیا کے نہ چاہنے کے باوجود شہید کی میت کا استقبال و تاریخی تشییع جنازہ کا عظیم تاریخی مناظر دکھانے پر مجبور ہوا۔جس طرح یزیدی لشکر واقعہ کربلا کو کربلا میں دفن کرنے میں نہ فقط ناکام ہوۓ بلکہ کوفہ سے شام کے بازاروں و درباروں تک حقاٸق کو بیان کرنے سے نہ روک سکے ویسے ہی شہید قاسم سلیمانی کا ذکر اور مشن کو سوشل میڈیا سے الیکٹرونک میڈیا، ایران و عراق کی سرحدوں سے باہر دیگر ملکوں بلکہ خود امریکہ اور یورپ میں پہنچنے سے نہ روک سکے۔جس طرح کربلا والے شہید ہوکر یزیدیت کے لٸے پہلے سے زیادہ خطرناک بن گٸے۔قاسم سلیمانی بھی شہید ہونے کے بعد جغرافیاٸی سرحدوں سے نکل کر دوسرے ممالک کی عوامی اجتماعات، اسمبلیوں،اخباروں اور چینلوں تک پہنچ گٸے۔استعمار کی لاکھ کوشش کے باوجود عوام کے دلوں سے اس بےلوث شخصیت کی محبت کو نہیں نکال سکا۔قاسم سلیمانی پہلے ایرانی و اسلامی تھا مگر شہادت کے بعد ”سلیمانی عالمی“ بن گیا۔

صالح و نڈر رہنما:

کسی بھی مکتب یا ملت کے لٸے ایک صالح و بےخوف رہنما کا ہونا ضروری ہے۔ صالح و نڈر رہنما ہی قاسم سلیمانی جیسی شخصیات کو تربیت کرسکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ شہید قاسم سلیمانی اپنے وصیت نامے میں ایک جگہ لکھتے ہیں کہ ”اے میرے اللہ میں تیرا شکر ادا کرتا ہوں کہ تونے اپنے عبدصالح خمینی رح کے بعد مجھے ایک اور عبد صالح یعنی خامنہ ای کی راہ پر گامزن کیا کہ جس کی مظلومیت بہت بڑی ہے۔ ان دو عظیم شخصیات کی تربیت کے سبب شہید قاسم سلیمانی ایک عالمی اور بےمثال کمانڈر بن کے ابھرا۔ جس نے علوی صفات کے رنگ میں رنگتے ہوۓ حضرت مالک ابن اشتر اور شہید مصطفی چمران کی یاد کو دوبارہ زندہ کیا۔

ولایت فقیہ:

نظام ولایت فقیہ کی حفاظت کو آپ اپنی زندگی کا مقصد و محور سمجھتے تھے۔واقعا آپ نے اپنی زندگی کو اسی نظام کی حفاظت کےلٸے وقف کی تھی۔آپ مجتہدین کو دینی اساس مانتے تھے مگر نظام ولایت فقیہ کو اس دین اور مکتب کی روح سمجھتے تھے۔اسی لٸے آپ نے اپنی وصیت نامے کے ایک حصے میں ایرانی بہن بھاٸیوں سے مخاطب ہوتے ہوۓ فرمایا کہ ”اے میرے پیارے ایرانی بہن بھاٸیوں!اے سربلند اور پر افتخار لوگو! آپ پر میری جان اور مجھ جیسوں کی جان ہزار مرتبہ نثار ہو۔جیسے تم لوگوں نے ہزاروں جانیں اسلام اور ایران پر قربان کی ہیں۔اس اصول یعنی ولی فقیہ کی حفاظت کرناخاص طور پر اس حکیم مظلوم دین، فقہ،عرفان، معرفت میں ممتاز، عزیز خامنہ ای کو اپنی جان سے ذیادہ عزیز رکھنا، اس کے احترام کو مقدسات میں سے شمار کرنا“ ان کلمات سے اس نظام اور رہبر معظم سے آپ کے قلبی و روحی وابستگی کا بخوبی اندازہ کیا جاسکتا ہے۔

مکتب قاسم کی مناجات:

جس نے مکتب علوی سے صحیفہ سجادیہ اور دعاۓ کمیل جیسی دعاٸیں پڑھی اور سیکھی ہو۔ایسا بندہ ہی توحید شناس و توحید پرست بن سکتا ہے۔اس کی مناجاتوں میں بھی صحیفہ سجادیہ اور دعاۓ کمیل کی چاشنی و روانی ہوگی جیسا کہ شہید اپنی وصیت نامے میں فرماتا ہے کہ ”اے میرے مہربان ! میں پیچھے رہ جانے کی بےقراری اور رسواٸی کی وجہ سے سڑکوں پر آوارہ ہوگیا ہوں۔میں گرمیوں سردیوں میں ایک موہوم امید لٸے ہوۓ اس شہر سے اس شہر اس صحرا سے اس صحرا میں دربدر پھر رہا ہوں۔
اےکریم حبیب! تیرے کرم سے امید لگا رکھی ہے۔توخود جانتا ہے کہ میں تجھ سے پیار کرتا ہوں ۔اچھی طرح جانتے ہو کہ میں تیرے علاوہ کسی کو نہیں چاہتا۔ مجھے اپنا وصل عطا فرما۔
الله أكبر اپنے رب سے یوں راز و نیاز علوی مزاج شہید قاسم سلیمانی کا ہی طرہ امتیاز تھا۔

دوستوں کا انتخاب:

دوست انسانی زندگی میں بہت اثر انداز ہوتا ہے۔اسی لٸے اسلام نے بھی دوستوں اور ساتھیوں کے انتخاب کو خاص اہمیت دی ہے۔دوستی کوٸی خونی رشتہ داری یا علاقاٸی وابستگی کی بنیاد پر نہیں ہوتی بلکہ فکری و نظریاتی اور کردار و عمل میں ہم آہنگی کی بنیاد پر ہوتی ہے۔ ایسے دوست پھر سکون و قوت کا باعث بنتے ہیں۔شہید قاسم سلیمانی خود سب کے لٸے بےلوث دوست تھے اور بہت سارے آپ کے بےلوث دوست تھے۔ہم جیسے ان دیکھے لوگ جب ان کی عشق میں گرفتار ہیں تو ان کے ساتھی اور دوست ان سے کتنے متاثر ہونگے؟ ہم جیسے لوگ سوشل میڈیا اور مختلف چینلز پر آپ کی متاثر کن آواز کے لہجے کے سحر میں جگڑ جاتے ہیں تو ان کی قربت میں نزدیک سے انہیں دیکھنے اور سننے والے کتنے متاثر ہونگے؟
العہد ویب ساٸیٹ عراق کے مطابق ان کے قریبی ساتھی شہید ابومہدی المہندس سے ایک انٹرویو میں جب پوچھا گیا کہ وہ کونسی شخصیت ہے جسے دیکھ کر انہیں سکون ملتا ہے؟ تو ان کا جواب تھا ”قاسم سلیمانی“ اپنے شہید ساتھیوں کے بارے میں شہید قاسم سلیمانی اپنے وصیت نامے میں فرماتے ہیں کہ ”پروردگار تیرا شکر ہے کہ تونے مجھےاپنے بہترین بندوں یعنی اس راہ کے مجاہدین و شھدا ٕ کے ہم نشینی عطا کی ، ان کے جنتی گالوں پر بوسہ لینے اور ان کی الہی خوشبو سونگھنے کے خوبصورت مواقع عنایت فرماۓ۔
ان کلمات اور شہید ابومہندس کے ساتھ شہادت سے ہمیں اس مکتب میں دوستی کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے۔خدا ہمیں بھی بےلوث دینی دوست بننے اور بنانے کی توفیق عطاکرے۔

انسان دوست:

شہید قاسم سلیمانی انسانیت سے بھرپور صفات و جذبات کے حامل انسان تھے۔آپ کے پاس جنگ اور صلح میں معیار اساسی انسانیت تھی۔آپ کا دل ایران کے شیعوں، عراق کے کردوں ،عیساٸیوں، شام کے سنیوں و علویوں، فلسطین کے سنیوں اور یمن کے زیدیوں کے لٸے یکساں دھڑکتا اور تڑپتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ آپ کبھی ایران کے سیستان میں تو کبھی افغانستان کے قندھار میں، کبھی عراق کے کردستان میں تو کبھی شام کے حلب و جولان میں، کبھی فلسطین کے غزہ کے زیر زمین بنکروں میں تو کبھی یمن کے پہاڑوں میں ہوتے تھے۔
یہ کوٸی لفاظی نہیں بلکہ اس پر ثبوت بھی ہمارے پاس موجود ہیں۔
اپریل 2019 میں امریکی وزیر خارجہ ماٸیک پومپیو نے قاسم سلیمانی کی قدس فورس اور ایرانی پاسداران انقلاب کو دھشت گرد قرار دیا اس الزام کے ساتھ کہ یہ لوگ اسراٸیل مخالفت تنظیموں یعنی لبنان کے حزب اللہ اور فلسطین کے حماس والجہاد کی مدد کرتے ہیں۔
امریکی محکمہ دفاع نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ ”قاسم سلیمانی عراق اور پورے خطے میں امریکی مفادات و فوجیوں پر حملے میں شریک ہے۔
بی بی سی فارسی کی ایک دستاویزی فلم کے لٸے ایک انٹرو دیتے ہوۓ عراق میں سابق سفیر ”رٸن کروکر“ نے بھی کہا تھا کہ جرنل سلیمانی کا بغداد مزاکرات میں اہم کردار تھا۔ان کے مطابق جب وہ افغانستان میں امریکی سفیر تھے تو انہوں نے وہاں بھی طالبان اور افغانیوں میں جرنل قاسم سلیمانی کے اثر ورسوخ کو محسوس کیا تھا۔
آپ کی شہادت کے بعد تمام اقوام عالم نے گہرے دکھ و رنج کا اظہار کیا۔ فلسطین کے حماس کے سیاسی نے شہید کو شہید فلسطین و مسجد اقصٰی قرار دیا تھا۔ شہید قاسم سلیمانی دناۓ اسلام کےواحد جرنل تھے جہنوں نے دو دفعہ سرزمین غزہ کا خفیہ دورہ کیا اور زیرزمین بینکرز بنانے میں بنیادی کردار ادا کیا تھا۔

سادگی:

کہتے ہیں کہ شہید انتہاٸی سادہ زندگی کیا کرتے تھے۔ کتاب سردا دلھا میں ایک واقعہ یوں رقم ہے کہ مصر سے ایک گروہ حکومتی سطح پر ایران آیا۔حکومتی افراد سے ملنے کے بعد اگلے روز پھر اسی دفتر میں آیا تو رٸیس دفتر نے متعجب انداز میں پوچھا کہ ہمارے معاملات تو کل ختم ہوگٸے تھے۔تو ایک مصری جوان نےجو فارسی بول سکتا تھا اس مسٸول سے سرگوشی میں کہا کہ ہماری ایک اہم آرزو ہے آپ اسے پورا کریں گے تو ہم واپس جاٸیں گے۔پوچھنے پر بتایا کہ ہم حاجی قاسم سے ملنا چاہتےہیں۔{اس وقت عالم لوگ شہید کو پہچانتےبھی نہیں تھے}۔المختصر اگلے روز ایک جگہ انہیں بلایا۔یہ لوگ جب پہنچے تو کچھ لوگوں نے استقبال کیا اور دس منٹ کے لٸے ایک کمرے میں بٹھایا تو اس مصری نے مسٸول سے پھر پوچھا حاجی صاحب کب آٸیں گے؟ تب مسٸول نے کہا حاجی صاحب نے ہی آپ لوگوں کا استقبال کیا تھا ابھی دس منٹ میں دوسرے مہمانوں کو فارغ کر کے آٸیں گے۔
کہتے ہیں کہ آپ انتہاٸی سادہ غذا کھاتے تھے۔سادہ لباس پہنتے تھے۔آپ کو قمیص شلوار بھی پسند تھے۔کٸی تصاویر میں آپ کو قمیص شلوار میں بھی دیکھا جاسکتا ہے۔
آپ کی سادگی کا یہ عالم تھا کہ دنیاۓ استکبار کی نیندیں اڑانے والا، ان کے مقاصد کو خاک میں ملانے والا یہ وصیت کرتا ہے کہ میرے قبر کے کتبے پر کوٸی القاب نہ لکھا جاۓ۔سبحان الله۔ اپنے مخصوص لوگوں سے بےتحاشا القابات پر خاموش رہنے والوں کو چاہٸے کہ کم از کم آپ کی اس سیرت سے کوٸی درس ضرور حاصل کریں۔
یقینا ایسے مخلص و بےلوث اور نڈر افراد کو دنیا جینے نہیں دیتی مگرخدا بھی انہیں مرنے نہیں دیتا۔خدا شہادت کی موت دے کر ایسے لوگوں کو زمین و زمان کی حدود سے نکال کر ہمیشہ کے لٸے زندہ و جاوید کرتے ہوۓ اسے عالمی و جہانی بناتا ہے۔

نتیجہ:

شہید قاسم سلیمانی واقعی شجاع،مخلص، بابصیرت، دیندار و ایماندار ، دل سوز ، عاشق اہلبیت تھے۔جنہوں نے اپنی زندگی مسلسل دین پر عمل اور اس کی حفاظت کرتے ہوۓ شہادت کے درجے پہ فاٸز ہوۓ۔رہبر معظم فرماتے ہیں کہ شہید قاسم سلیمانی طرح و عمل دونوں انجام دیتے تھے۔یعنی ایسا نہیں تھا کہ صرف عملی بندہ ہو فکر و سوچ اور بصیرت نہ ہو۔فقط نظریاتی و گفتاری بھی نہیں تھے بلکہ عملی میدان میں ہرجگہ پیش پیش ہوتے تھے۔ یعنی آپ ایک بابصیرت عملی شخصیت تھے۔آپ سخت انقلابی بھی تھے مگر اس وجہ سے کسی کی شخصیت کشی بھی نہیں کرتے تھے۔پرچم ولایت کے حقیقی علمبردار و پشت پناہ تھے مگر عراق شام اور یمن و فلسطین میں موجود حکومتوں کے استحکام بھی چاہتے تھے ان حکومتوں کو جمہوری ہونے کے سبب مشرک و کافر نہیں سمجھتے تھے ۔استعماری سازشوں کے مقابل ان حکومتوں کی بقا ٕ و استحکام کے لٸے عملی جدوجہد بھی کرتے تھے۔خدا ہمیں ان کے نقش قدم پر چلتے ہوۓ خود ساختہ وابستگیوں اور ذات کے داٸرے سے نکل کر معاشرے میں شاٸستگی و بالیدگی ، لطافت و ظرافت کے ساتھ اپنی شرعی زمہ داری کو ادا کرنے اور کسی کی بھی شخصیت کو مجروح کیے بغیر اپنی شخصیت کو بنانے ، سنوارنے اور ہر حال میں مولاعلی ع کی سیرت پر چلتے ہوۓ کبھی میثم کبھی بوذر کبھی سلمان کبھی مقداد کبھی عمار کبھی اشتر کبھی کبھی ابراہیم کبھی مختار یقطین کبھی آیت اللہ مدرس کبھی ابو مہندس تو کبھی قاسم سلیمانی بن کر اپنی شرعی مسٸولیت کو ادا کرنے کی توفیق عطا فرماۓ۔آمین

حوالہ جات:

1.گروہ فرہنگی،سردار دلھا،تقدیر،١٣٩٩تھران
2.وصیت نامہ شہید قاسم سلیمانی
3.sana.ir
4.isna.ir

نوٹ: حوزہ نیوز پر شائع ہونے والی تمام نگارشات قلم کاروں کی ذاتی آراء پر مبنی ہیں حوزہ نیوز اور اس کی پالیسی کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .