تحریر: مولانا بشیر دولتی
حوزہ نیوز ایجنسی। ہمارے پیارے نبی حضرت مُحَمَّد (ص) افصح العرب ہی نہیں بلکہ کاٸنات کے فصیح و بلیغ خطیب و مبلغ تھے۔ آپ (ص) علم و حکمت کا شہر تھے تو آپ (ص) کے شاگرد خاص حضرت علی المرتضی (ع) اس شہر کا دروازہ تھے۔فصاحت و بلاغت کے اس عظیم دروازے کی جو پہچان ہے اسے کتابوں کی دنیا میں ”نہج البلاغہ یعنی بلاغت کا راستہ“ کہتے ہیں۔قرآن اگر افصح الکتاب ہے تو اس افصح الکتاب کا دروازہ نھج البلاغہ ہے۔اس کتاب میں توحید اپنی تمام تر صفات میں یکتا و بےنظیر نظر آتی ہے جس میں مختلف علوم و معارف کا دریا بہہ رہا ہے تو تاریخ کے دردناک و اذیت ناک نشیب و فراز بھی لفظوں کے سانچے میں مشخص و عیاں نظر آتے ہیں ۔
یہ کتاب نہ فقط الٰہی تعلیمات کا خزینہ و تاریخ کا زندہ و تازہ مظہر ہے بلکہ تاریخِ ادب میں بھی ادبی کتابوں کے ماتھے کا جھمر و ادبی شاہکار کی حیثیت کا حامل ہے۔
آبِ وحی میں دھلی ہوٸی زبان چوس کر پروان چڑھنے والی ذات نے اس عظیم کتاب کے ذریعے بلاغت کی دنیا میں وہ جوہر دکھائے ہیں کہ جس پر اب تک سینکڑوں کی تعداد میں شروحات لکھی جاچکی ہیں۔ اواٸل کے مصنفین سید رضی کے معاصر علی ابن ناصر کی ”اعلام نہج البلاغہ“ سے لے کر ”شیخ کلام الدین میثم کی شرح ابن میثم تک، ابوحامد عبدالحمید معروف بہ ابن حدید کی شرح ابن ابی الحدید سے لے کر مرزا ابراہیم خوٸی شہید کی درّہ نجف تک سید حبیب اللہ خوٸی کی منہاج البلاغۃ سے لے کر مجتہدین کرام آیت اللہ مصباح یزدی و آیت اللہ مکارم شیرازی تک بلکہ قیامت تک جوں جوں انسانی علم ترقی کرتا جاۓ گا اس عظیم کتاب کے رموز مختلف شارحین آشکار کرنے کی کوشش کرتے رہیں گے ادبی دنیا کے معروف ستارے خلیل جبران خلیل سے لے کر جارج جرداق تک ساٸنسی دنیا کے جابر ابن حیان سے لے کر آٸن اسٹاٸن تک سب نے اس عظیم کتاب کو نہ فقط ادبی دنیا کا ایک شاہکار قراردیا ہے بلکہ اسے تحت کلام خالق کے بعد فوق کلام مخلوق کا خطاب بھی دیا جاچکا ہے۔
مسجد کوفہ کے منبر سے پروردہ آغوش رسالت نے علم و معرفت کے نور کو الفاظ کے پیراۓ میں جو بیان کیا وہ عرب کی ریگستانوں سے گونجتا ہوا مختلف جگہوں ملکوں شہروں درسگاہوں لاٸبریریوں اور علما ٕ ادبا ٕ وخطبا ٕ کے سینوں اور مختلف زبانوں میں سفر کرتا ہوا جب بلند ترین پہاڑی سلسلے کوہ قراقرم و کوہ ہمالیہ کے دامن میں موجود جنت نظیر وادی یعنی ارض بلتستان پہنچا تو یہاں کے مومنین اور علماۓ کرام نے اس کتاب کے ساتھ اپنی قلبی وابستگی کا والہانہ اظہار کیا۔ پھر ارض بلتستان کے ایک عظیم فرزند حجت الاسلام والمسلمین قبلہ شیخ حسن زاہدی نے اس عظیم کتاب کو ہماری مادری زبان یعنی بلتی زبان میں اس کا ترجمہ کرنے کا بیڑہ اٹھالیا یوں قبلہ شیخ صاحب نے دم توڑتی بلتی زبان پر محترم جناب یوسف حسین آبادی و قبلہ حجت الاسلام شیخ احمد حسین مظہری (مرحوم) کے بلتی قرآنی ترجمے کے بعد ایک اور احسان کر کے ہماری زبان کو تاریخ میں زندہ کرنے میں اپنا حصہ ڈالا۔
چونکہ بلتی زبان اپنے اصلی رسم الخط کو کھونے کے بعد اب عالمی استعماری سازشوں کے طفیل اپنے موجودہ رہی سہی وجود بھی کھورہی ہے تو ایسے میں اس فصیح و بلیغ کتاب کا بلتی ترجمہ کرنا یقیناً ایک گراں قدر خدمت ہے۔
آپ کی دن رات کی انتھک کوشش و محنت کے سبب اب تک ایک جلد باقاعدہ چھپ کر خواص کے درمیان مقبولیت حاصل کرچکی ہے۔مکتب امام جعفر صادق ع کے طالب علم ، دامن دین و شریعت کے پرورش یافتہ ، اسلامی تہذیب و تمدن سے ابتدا ٕ سے آپ کی آشناٸی اور بلتی ادب سے آپ کے لگاٶ کے سبب اس عظیم کتاب کے بلتی ترجمے کو آپ نے انتہاٸی شیریں بیانی ، سہل نگاری و ذوق ایمانی اور والہانہ وابستگی کے ساتھ یوں کیا ہے کہ پڑھنے والا پڑھنا شروع کریں تو مادرانہ گفتگو و انسیت کااحساس یوں ہونے لگتا ہے کہ گویا ہم منبر کوفہ کے گرد ہوں اور امیرالبیاں ہمیں بلتی زباں میں سمجھا رہے ہوں کہ ہم اپنے ارد گرد کے ماحول سے بےخود ہوکر ایسی خودی میں کھوجاٸیں کہ گویا درس توحید ہمیں گھول کر پلایا جارہا ہو۔تاریخ ذہن کے پردہ اسکرین پر چل رہی ہو اور ہم ہی خطیب و ہم ہی سامع ہم ہی منظور اور ہم ہی ناظر ہوں۔
اس عظیم کتاب کا بلتی ترجمہ ابھی جاری ہے ایک جلد زیور طبع سے آراستہ ہوچکی ہے ۔
قبلہ شیخ محمد حسن زاہدی صاحب کا تعلق رزسنا گمبہ سکردو سے ہے۔جہاں آپ 1965میں پیدا ہوۓ ۔آپ نے ابتداٸی تعلیم قبلہ شیخ حسن ذاکری امام جمعہ گمبہ سکردو سے حاصل کی ۔تقریباً چھے سال تک آپ ان سے کسب فیض کرتے رہے ۔پھر آپ مشہد مقدس تشریف لے گٸے وہاں تقریبا تین سال تک مختلف اساتید سے کسب فیض حاصل کرتے رہے۔ اس کے بعد آشیانہ آل محمد (ص) سرزمین علم و انقلاب قم المقدسہ آۓ ۔یہاں آپ نے دس سال کے عرصے میں سطحیات کے دروس مکمل کر لئے اور اس وقت آپ آیت اللہ جواد لنکرانی آیت اللہ مکارم شیرازی اور دیگر اساتذہ کرام سے درس خارج پڑھ رہے ہیں۔
آپ نے نہج البلاغۃ کے ترجمے کے ساتھ مولا امیرالمٶمنین کی ایک عرفانیت و بندگی سے لبریز دعا ”دعاۓ صباح“ کا بھی بلتی زبان میں ترجمہ کیا ہے جو کہ کتاب کی شکل میں بھی چھپ چکی ہے۔ مجمع طلاب سکردو کے شعبۂ تحقیق کی جانب سے نہج البلاغۃ اور دعاۓ صباح کا بلتی ترجمہ کرنے پر آپ کی تجلیل اور قدردانی کے لٸے ایک پررونق محفل کا اہتمام بھی کیا گیا ۔جس میں مختلف مہمان خطیبوں نے آپ کی خدمات کو خوب سراہتے ہوئے قلمی آثار میں مزید اضافہ کی آرزو بھی کی۔
آپ کو شعر و شاعری سے بھی ایک خاصا لگاٶ ہے۔ آپ کا پہلا مجموعہ بلتی زبان میں نوحے اور مرثیے پر مشتمل ”مخزن غم آل مُحَمَّد (ص)“ کٸی سال پہلے چھپ چکا تھا اور دوسرا شعری مجموعہ ”قصاٸد المعصومین“ زیر طبع ہے۔
آپ بہترین عاشق اہلبیت مدرس، شاعر اور مبلغ ہیں۔آپ نے قم المقدسہ میں تحصیل علم اور تصنیف و تالیف میں مشغول ہونے کے باوجود تبلیغ عملی کو فراموش نہیں کیا۔یہی وجہ ہے کہ آپ ہرسال ماہ محرم اور رمضان المبارک میں بلتستان تبلیغ کے لٸے تشریف لے جاتے ہیں۔ہماری دعا ہے کہ اللہ تعالٰی آپ کو تعلیم و تبلیغ کے ساتھ ساتھ نہج البلاغۃ کے ترجمے کو آخری مراحل تک پہنچانے کی توفیق عطا فرمائے۔
نوٹ: حوزہ نیوز پر شائع ہونے والی تمام نگارشات قلم کاروں کی ذاتی آراء پر مبنی ہیں حوزہ نیوز اور اس کی پالیسی کا کالم نگار کے خیالات و مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔