۱۰ فروردین ۱۴۰۳ |۱۹ رمضان ۱۴۴۵ | Mar 29, 2024
شهید حاج قاسم سلیمانی

حوزہ/ شہید سلیمانی اور اسکی فورس نے نہ صرف پاکستان کی نظریاتی حدود کی حفاظت کی ہے بلکہ جغرافیائی حدود کی بھی حفاظت کی ہے۔  انہیں نوجوانوں کی حب الوطنی اور آئین سے پاسداری باعث بنی کہ آج ہم سکون سے جی رہے ہیں۔  سلام پیش کرنا چاہئیے ایسے جوانوں کو جنہوں نے اپنا جان کا نذرانہ پیش کر کے ملک عزیز کو بچایا۔ 

تحریر: عارف بلتستانی

حوزہ نیوز ایجنسی صبح سویرے قرآن کی تلاوت کے بعد موبائل اٹھایا۔ گوگل پر جاکر روزنامہ سلام گلگت بلتستان سرچ کرنے لگا۔ سرچنگ کے دوران ٹیوٹر پر بھی ایک نظر دوڑائی۔ پاکستان کے سینئیر صحافی حامد میر نے ایک ٹویٹ پر ریٹویٹ کیا تھا۔ اوپن کیا تو نادر بلوچ کا ٹویٹ تھا۔
"‏ہم ریاست اور ریاستی اداروں سے سوال کرتے ہیں، آخر کیوں؟
کلبھوشن سمیت دیگر غیر ملکی مجرموں کیلیے قانون سازی تو کی جاسکتی ہےلیکن لاپتہ افراد کے اہلخانہ کو ملک میں یہ حق بھی حاصل نہیں کہ انکے لاپتہ افراد کو نہ صرف منظر عام پر لایا جائے بلکہ انکے ساتھ ملکی آئین کے تحت رویہ اختیار کیا جائے۔" ۱

میں اس طرف دھیان دیئے بغیر آفس کی طرف چل پڑا۔ دوپہر کو نماز ظہر پڑھنے مسجد گیا۔ واپسی پر دیکھا احتجاج ہو رہا تھا۔ سٹیج پر ایک جوان لڑکا سپیچ کر رہا تھا۔ کہہ رہا تھا؛ " وطن عزیز کے غداروں اور جاسوسوں کو تو آزاد کیا جا رہا ہے، لیکن آئین پاکستان کے پاسداروں کو لاپتہ۔ غیر ملکی مجرموں کو تو آزاد کیا جا رہا ہے، لیکن آئین و نظریات کے مدافعین کو سلاخوں کے پیچھے بند ۔"
مجھے اس کی باتیں سمجھ نہیں آرہی تھیں ۔ وہ جوان اپنی تقریر کو جاری رکھتے ہوئے کہہ رہا تھا؛ "مکتب سلیمانی کا شاگرد محب وطن تو ہو سکتا ہے لیکن غدار کبھی نہیں ہو سکتا۔ مکتب سلیمانی کا شاگرد آئین پاکستان کا پاسدار تو ہو سکتا ہے لیکن مجرم کبھی نہیں ہو سکتا۔"

چند کلمات (جیسے؛ مکتب سلیمانی، نظریات کا مدافع، آئین کا پاسدار) نے مجھے سوچنے پہ مجبور کر دیا۔ اپنے آپ سے سوال کیا، یہ مکتب سلیمانی کونسا مکتب ہے؟ اس مکتب کی خاصیت کیا ہے؟
واپس ہاسٹل کی طرف آیا۔ روم میں پہنچنے کے بعد لیپ ٹاپ اوپن کیا۔ گوگل پہ جا کے مکتب سلیمانی سرچ کیا۔ سب سے پہلے ایک ویڈیو دیکھنے کو ملی۔ جس میں اہل تشیع کے دینی مرجع (آیت اللہ سید علی حسینی خامنہ ای ) نماز جمعہ کے خطبے میں کہہ رہے تھے؛ "شہید سلیمانی را به یک فرد نگاہ نکنیم بلکہ به یک مکتب نگاہ کنیم" "ہم شہید سلیمانی کو ایک فرد کی حیثیت سے نہ دیکھیں بلکہ ایک مکتب کی حیثیت سے دیکھیں" ۲

میرے تعجب میں اور بھی اضافہ ہوا۔ اھل تشیع کے دینی مرجعیت نے ایک شخص کے بارے اسطرح بات کی ہے! آخر اس شہید کی کیا خصوصیت ہے، جسکو ایک مکتب کی حیثیت سے دیکھنے کی تاکید کر رہے ہیں۔
میں نے شہید کے بارے میں تحقیق کرنا شروع کی ۔ ایک کتاب ملی جس کا نام"ہمارا خوش نصیب دوست" تھا۔ اس کتاب میں شہید کے بارے میں کچھ یوں لکھا تھا؛

شہید کمانڈ ر قاسم سلیمانی ۱۱ مارچ ۱۹۵۷ ء کو ایران کے صوبہ کرمان کے نواحی شہر "را بڑ" کے سلیمانی قبیلے میں پیدا ہوۓ ۔ ۱۸ سال کی عمر میں آب رسانی کے محکمے میں بھرتی ہوۓ ۔ایران کے اسلامی انقلاب کے دنوں میں آپ کی ملاقات مشہد سے تعلق رکھنے والے"رضا کامیاب" نامی عالم دین سے ہوئی جس نے انہیں انقلابی معاملات کی طرف راہنمائی کی ۔ انقلاب اسلامی کے دنوں میں کرمان شہر کی احتجاجی ریلیوں اور مظاہروں میں آپ کا اہم کردار ہوتا تھا ۔ جنرل قاسم نے ۱۹۸۰ ء میں پاسداران انقلاب اسلامی فورس میں شمولیت اختیار کی۔ ( ایران عراق جنگ کے آغاز پر آپ کرمان کی دوفوجی بٹالین کے کمانڈر تھے ۔ بعد ازآں آپ نے شہید کمانڈرحسن باقری کے مشورے پر کرمان فورس کی ایک نئی بریگیڈ تشکیل دی۔اس کے محض ایک سال بعد ۱۹۸۱ ء میں کمانڈرمحسن رضائی کے حکم سے آپ سپاہ انقلاب کے کمانڈر اور ۲۵ سال کی عمر میں بریگیڈ"۴۱ ثار اللہ" کے کمانڈر مقرر ہوۓ۔ابتداء ہی سے مثالی قوت اور بہادری کے ساتھ آپ نے اس ڈویژن کی کمان سنبھالی ، جس میں کرمان ، سیستان اور بلوچستان اور ہرمزگان کی فوجیں شامل تھیں۔اس جنگ کے دوران آپ والفجر ۸ ، کر بلا ۴ اور کر بلا ۵ نامی کاروائیوں کے کمانڈرتھے ۔ ۳

کتاب پڑھتا جا رہا تھا اور تھکنے کا نام نہیں لے رہا تھا۔ 106 صفحات پر مشتمل یہ کتاب میں نے ڈیڑھ گھنٹے میں ختم کی۔ قرآن کی تلاوت کے بعد اس کتاب کے مطالعے کا ایک الگ ہی مزہ تھا۔ صبح اس آیت کی تلاوت کی تھی؛
" وَ لَا تَحۡسَبَنَّ الَّذِیۡنَ قُتِلُوۡا فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ اَمۡوَاتًا ؕ بَلۡ اَحۡیَآءٌ عِنۡدَ رَبِّہِمۡ یُرۡزَقُوۡنَ
اور جو لوگ راہ خدا میں مارے گئے ہیں قطعاً انہیں مردہ نہ سمجھو بلکہ وہ زندہ ہیں، اپنے رب کے پاس سے رزق پا رہے ہیں۔" ۴

شہید سلیمانی اس آیت کا مکمل مصداق تھے۔ آپ شہادت کے عاشق تھے۔ اس کی دلیل انہیں کی زبانی سنتے ہیں۔ جب شہید سلیمانی سے کہا گیا کہ؛ "ہر جگہ یہ بات پھیل گئی ہے اور لوگوں کے درمیان مشہور ہوگیا ہے کہ آپ شہید ہو گئے ہیں۔" وہ مسکرائے اور کہنے لگے؛ " یہ وہ چیز ہے جسکی تلاش میں ، میں نے صحراؤں اور پہاڑوں کی خاک چھانی ہے۔" ۵

شہادت ہے مطلوب و مقصود مومن
نہ مال غنیمت نہ کِشور کشائی!

میں اھل سنت مکتب اور تاریخ کا اسٹوڈنٹ ہوں۔ شہید کی زندگی نے اھل تشیع کے بارے میں میری بہت سی نظریات بدل کر رکھ دی۔ شہید کا کردار و گفتار و رفتار قرآنی تعلیمات اور سیرت صحابہ کا مکمل عکس تھا۔ یہ کتاب ختم کرنے کے بعد اور کتاب سرچ کی۔ مجھے فارسی تو آتی نہیں تھی۔ میں نے اردو میں ایک کتاب ڈانلوڈ کی۔ کتاب کا نام " گمنامی سے دلوں کی حکمرانی تک" تھا۔ جو 266 صفحات پر مشتمل تھی۔
جب اس کتاب کی فہرست دیکھا، تو میں دنگ رہ گیا۔ فہرست میں نہ صرف پاکستان کے بلکہ بین الاقوامی سطح پر تمام مکاتب فکر کے شخصیات، جس میں علماء، سیاستدان، قلمکار، آرمی آفیسرز اور وزراء سب نے شہید سلیمانی کی شخصیت پر روشنی ڈالی تھی۔ تحریر کی طولانی کو مد نظر رکھتے ہوئے میں دو، تین شخصیات کے تاثرات کو پیش کر رہا ہوں۔

"پاک فوج کے سابق سر براہ *جزل ریٹائرڈ مرزا اسلم بیگ* نے امریکی حملے میں شہید ہونے والے القدس بریگیڈ کے سربراہ قاسم سلیمانی کوخراج تحسین پیش کرتے ہوۓ کہا ہے کہ قاسم سلیمانی پاکستان کے قریبی دوست تھے ۔ قاسم سلیمانی نے الہی بصیرت اور شجاعت سے عالمی دہشتگرد فتنوں کا نا صرف مقابلہ کیا بلکہ ان کا خاتمہ بھی کیا ۔ جزل اسلم بیگ نے کہا کہ سردار قاسم سلیمانی میں اسلامی فوجی اتحاد کا سر براہ بنے کی انتہائی صلاحیت تھی ۔ پاکستان میں داعش کے نفوذ کے حوالے سے سردار قاسم سلیمانی ہمیشہ فکرمند رہتے تھے ۔اگر شام وعراق میں جزل سلیمانی کی قیادت میں داعش کا راستہ نا روکا جاتا امریکی آلہ کار داعش کے ہاتھوں بے گناہ پاکستانیوں کا بدترین قتل عام ہوتا۔"

*ڈاکٹر سلیم سہیل* شہید سلیمانی کے بارے بیاں کرتے ہیں؛ "قاسم سلیمانی سپاہ حسین ع کا وہ جری سپاہی ہے جس نے عالمی استعمار سے آزادی حاصل کرنے کی خاطر بدیسی غاصبوں کے خلاف صف آراء کی۔ خیر اور شر کی اس جنگ میں ان کو شہادت نصیب ہوئی اوران کے پیغام کی روشنی کو کروڑوں فرزندان ملت اسلامیہ ، حرمتِ مزاراتِ خانوادہ پیغمبر حضرت محمد ص کے تحفظ میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں رکھیں گے ۔ قاسم سلیمانی کا پیغام ، پیغام عمل ہے اور ہر اس غاصب کے نام کھلا خط ہے جس کی آنکھ پسے ہوۓ اور دبے ہوۓ انسانوں کی زمین چھیننے پر ہے ۔ یہ شہادت عمل خیر کا تسلسل ہے اور جنت کا راستہ۔
آئیں اپنے راستے کو پہچانیں ، اپنے دوست کو پہچانیں ، اپنے دشمن کو پہچانیں اور فرقہ واریت کا پہنا یا ہوا استعماری طوق اپنے گلے سے اتار پھینکیں اور اپنی زندگیوں کو اتحاد کی عملی تصویر بنالیں ۔"


*رائے محمد یوسف رضا دھنیالہ* نے لکھا ہے۔ "قاسم سلیمانی نے شیعہ یا ایران کی جنگ نہیں لڑی تھی بلکہ اس نے یہودیوں اور عیسائیوں کے خلاف آج کی ایک صلیبی جنگ لڑی ہے جس میں سرخرو ہوا کیونکہ صلاح الدین ایوبی کے وطن پر داعش کی صورت میں جس طرح یہودی و عیسائی قابض ہو چکے تھے۔ ان سے عراق و شام کا قبضہ چھڑانے کا سہرا قاسم سلیمانی کے سر ہے۔" ۶

میں مکتب سلیمانی کا معنی جان چکا تھا۔ ایک فرد نے ایک مکتب سے بڑھ کر کام کئے تھے۔ عصر حاضر کی ایک صلیبی جنگ جیت چکے تھے۔ حرمین الشریفین، ملک عزیز پاکستان کی مکمل حفاظت کی تھی۔ ورنہ پھر مزارات مقدسہ زمین بوس کیا جاتا۔ آرمی پبلک سکول کا واقعہ پھر دہرایا جاتا۔ *سابق آرمی چیف* کے مطابق، پاکستان میں داعش کے نفوذ کے حوالے سے سردار قاسم سلیمانی ہمیشہ فکرمند رہتے تھے ۔اگر شام وعراق میں جزل سلیمانی کی قیادت میں داعش کا راستہ نا روکا جا تا امریکی آلہ کار داعش کے ہاتھوں بے گناہ پاکستانیوں کا بدترین قتل عام ہوتا۔"

شہید سلیمانی اور اسکی فورس نے نہ صرف پاکستان کی نظریاتی حدود کی حفاظت کی ہے بلکہ جغرافیائی حدود کی بھی حفاظت کی ہے۔ انہیں نوجوانوں کی حب الوطنی اور آئین سے پاسداری باعث بنی کہ آج ہم سکون سے جی رہے ہیں۔ سلام پیش کرنا چاہئیے ایسے جوانوں کو جنہوں نے اپنا جان کا نذرانہ پیش کر کے ملک عزیز کو بچایا۔

خون دل دے کر نکھارینگے رخ برگ گلاب
ہم نے گلشن نہ تحفظ کی قسم کھائی ہے

یہ کہاں کا صلہ ہے اسیے جوانوں کو غدار قرار دے۔ محبوں کو جیل کے سلاخوں کے پیچھے بند کیا جائے۔ ایسے نوجوانان کبھی بھی وطن عزیز کا غدار نہیں بن سکتا جو اپنا سب کچھ اس وطن پر قربان کر دے ۔ اگر ایک ملک کے ادارے اسطرح کے جوانوں کو لاپتہ کر رہا ہے تو میں سمجھتا ہوں ، یہ ادارے خود آئین پاکستان کے خلاف کام کر رہے ہیں۔ آئین پاکستان باب نمبر 1 بنیادی حقوق شق نمبر 20 کے مطابق، "قانون، امن عامہ اور اخلاق کے تابع ہر شہری کو اپنے مذہب کی پیروی کرنے، اس پر عمل کرنے اور اسکی تبلیغ کرنے کا حق ہوگا" ۷

ان جوانوں نے یہی کام انجام دیا ہے ۔ اپنے مقدسات کی حفاظت کی ہے۔ اگر کل مکہ وہ مدینہ پہ خدا نخواستہ دشمن حملہ کر دیں، تو سب سے پہلے اھل سنت اور شیعہ جوان مل کر دفاع کرینگے۔ کیا اُسوقت بھی یہی سلسلہ جاری رکھا جائے گا؟

اگر میری جگہ کوئی اور اس کتاب کو پڑھ رہا ہوتا اور یہ صورت حال دیکھتا تو اسکا بھی یہی نظریہ ہوتا جو میرے قلم نے قلب کی ترجمانی کرتے ہوئے تحریر کیا۔ میں نے شہید کے بارے میں تحقیق کی اور مطالعہ بھی کیا۔ جب میں اس فضا سے باہر آیا، تو اس ٹویٹ پر جب میری نظر دوبارہ پڑی۔ جس میں لکھا ہوا تھا "لاپتہ افراد کے اہلخانہ کو یہ حق بھی حاصل نہیں کی لاپتہ افراد کو منظر عام پر لایا جائے ؟"
اس جملے نے مجھے آئین پاکستان کی طرف مراجعہ کرنے پر مجبور کیا۔ میں نے آئین پاکستان ڈانلوڈ کی اور پڑھنا شروع کیا۔ باب نمبر ایک، شق نمبر 10، جز نمبر 2 میں درج تھا۔ " "ھر اس شخص کو جسے گرفتار کیا گیا ہو، نظر بند رکھا گیا ہو، مذکورہ گرفتاری سے چوبیس گھنٹے کے اندر کسی مجسٹریٹ کے سامنے پیش کرنا لازم ہوگا" ۸

جب میں نے آئین کا مطالعہ کیا تو عدالت پر ایک سوالیہ نشان اٹھ گیا۔ خیر ! میں اسطرف دھیان نہیں دیا۔ لیکن اب جاکے وہ ٹویٹ اور اس جوان کی تقریر سمجھ آگئی۔ اب مجھے یقین آیا مکتب سلیمانی کا شاگرد کبھی بھی غدار نہیں بن سکتا۔ کیونکہ دین و قرآن غداری کی اجازت نہیں دیتا۔

لیکن ایک بات پھر بھی سمجھ نہیں آئی۔ آخر ان جیسے پاکیزہ جوانوں کو کس کے اشارے پر لاپتہ کرتے ہیں ؟ کونسے عوامل ہیں، جنکو مجسٹریٹ کے سامنے لانے نہیں دیتے؟ ہاسٹل کے روم میں لاپتہ افراد کی بازیابی اور انکے اہل خانہ کی ہمت و مدد کےلئے دعا کرتا رہا۔ ملک میں جنگل راج پر سرد آہ بھرتا رہا۔


۱۔ https://t.co/1jaDHCTM7b‎

۲۔ ہمارا خوشبخت ساتھی، ص 11/ Khamenei.ir

۳۔ ہمارا خوشبخت ساتھی ص 12

۴۔ سورہ آل عمران 169

۵۔ ہمارا خوشبخت ساتھی ص 15

۶۔ گمنامی سے دلوں کی حکمرانی تک، ص 147, 234

۷۔ آئین پاکستان، 11

۸۔ آئین پاکستان، ص 6

تبصرہ ارسال

You are replying to: .