۱ آذر ۱۴۰۳ |۱۹ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 21, 2024
محمد بشیر دولتی

حوزہ/علماء دین کے اور کسی بھی معاشرے کا ایک اہم ستون، ذمہ دار و مقدس سمجھے جانے والے لوگ ہیں، اسی وجہ سے امام خمینی نے روحانیت کو ان کی اہم ذمہ داریوں سے آگاہ کرانے کی پوری کوشش کی ہے۔

حوزہ نیوز ایجنسی

تحریر: محمد بشیر دولتی

مقدمہ:
ہربندہ صاحب نظر نہیں ہوتا۔ صاحب نظر وہی ہوتا ہے جو عالم و فاضل ہونے کے ساتھ بابصیرت بھی ہو۔ ہر بابصیرت عالم بھی صاحب نظر نہیں ہوتا جب تک اس میں اپنے نظریات کو بیان کرنے کی جرأت نہ ہو۔ ہر بابصیرت و جرأت مند عالم کے نظریات میں اثر نہیں آتا جب تک وہ تقویٰ و پرہیز گاری کی صفات سے مالا مال نہ ہو۔ پس جس میں یہ تمام صفات موجود ہوں وہ کبھی اپنے نظریات کو بیان کرنے میں جھجھک محسوس نہیں کرتا۔ وہ کبھی حقاٸق کو بیان کرنے میں کوتاہی نہیں کرتا۔
امام خمینی رحمة اللہ علیہ میں یہ تمام صفات بطریق اتم موجود تھیں۔
علماء، دین اور کسی بھی معاشرے کا ایک اہم ستون، ذمہ دار اور مقدس سمجھے جانے والے لوگ ہیں۔ امام خمینی نے روحانیت کو ان کی اہم ذمہ داریوں سے آگاہ کرانے کی پوری کوشش کی ہے۔ امام کی نظر میں ایک عالم معاشرے کا رہبر، رہنما اور پیشوا ہوتا ہے۔
اسی لٸے آپ نے علما ٕ کرام کو معاشرے میں پیغمبرانہ کردار ادا کرنے کی تلقین کرتے رہے ہیں۔ میں اپنے اس مختصر مضمون میں امام خمینی کی نظر میں علماۓ کرام کی چند اہم ذمہ داریوں کا ذکر کروں گا۔ تاکہ ہم معاشرے میں ان ذمہ داریوں کو بطریق احسن ادا کرسکے۔

1.سازشوں کے مقابلے میں احساس ذمہ داری

امام خمینی علماۓ کرام سے مخاطب ہوتے ہوۓ”منشور روحانیت“ میں فرماتے ہیں کہ:معاشرے میں علما ٕ کرام کا نفوذ اور عزت واحترام نہ بزور طاقت ہے نہ دولت اور ثرماۓ کی وجہ سے ہے بلکہ یہ نفوذ اور احترام ہنر سچاٸی و حق گوٸی اور اپنے تعہد یعنی ذمہ داریوں کی بےلوث اداٸیگی کی وجہ سے ہے۔
قدیم علماۓ کرام کی جانب سے کچھ جدید اور مغربی پیشرفتہ آلات جیسے ریڈیو اور ٹی وی وغیرہ کی مخالفت بھی مغرب کی ہمارے معاشرے میں نفوذ اور پھر ہماری تہذیب و ثقافت کے مقابل میں مغربی تہذیب و ثقافت کے پرچار کی خوف کے سبب تھا۔ چونکہ استعمار کسی بھی صورت قابل اعتبار نہیں جیسے{ہندوستان میں تجارتی کمپنی”ایسٹ انڈیا کمپنی“ کے نام سے آیا۔ہندووں اور مسلمانوں کی تجارت کے ساتھ ہماری حکومت اور زمین پر بھی قبضہ کیا ۔ اہل ہندوستان کو اپنا غلام اور خود آقا بن کر سوسال تک حکومت کی}
بہت ساری خصوصیات جیسے قناعت،بہادری،صبر ، تقوای ، علم کی تلاش، دنیاوی نام و نمود سے دوری اور ان سب سے اہم ترین صفت استعمار اور دین دشمنوں کے مکر و فریب کے مقابلے میں بصیرت کے ساتھ اپنی ذمہ داریوں کے احساس اور اداٸیگی نے علما ٕ کو بلند ترین عزت بخشی۔ علماء انتہاٸی کم وسائل اور سہولیات کے باوجود خالص اسلام کی فکر کو مسلمانوں کے زھنوں تک پہنچاکر قبول کرایا۔فقاہت کے مقدس گلستان حیات میں ایسا پودا لگایا جس پر ہزاروں محققین اسلام پھول یا ثمر کی شکل میں موجود ہیں۔ایسے میں اگر کوٸی یہ سمجھے کہ علما ٕ کی اس عظمت و پیشرفت اور نفوذ کی مخالفت میں ان کے خلاف چال نہیں چلے گی۔ سازش نہیں کرےگا؟اگر کوٸی اس کی نفی کرے تو یہ انتہاٸی سادگی ہے۔(منشور روحانیت صفحہ 7، 8)

2.عالم دین سیاست سے کنارہ کشی اختیار نہ کرئے

امام خمینی دین اور سیاست میں جداٸی کے قاٸل نہیں تھے۔ آپ ہر دور اور ہرماحول میں علماء کو سیاست سے دور رکھنے کی فکر و فلسفے کے مخالف تھے۔ آپ فرماتے ہیں کہ ” سیاست اور علماء کی جدائی کا مسٸلہ کوٸی نٸی بات نہیں ہے یہ نعرہ بنی امیہ کے دور میں اٹھایا گیا تھا اور تقویت بنی عباس کے دور میں ہوٸی۔ امام خمینی فرماتے ہیں کہ : حالیہ زمانے میں جب استعمار و اغیار دوسرے ممالک میں نفوذ کرنے لگے تو انہوں نے بھی یہی کہا! اس وجہ سے بعض متدین افراد اور علما ٕ کو بھی یقین ہوگیا کہ اگر ایک عالم دین سیاسی امور میں حصہ لےگا تو نقصان اٹھاۓ گا۔یہ استعماری طاقتوں کی ایک بڑی سازش تھی کہ جس کے چکر میں بعض افراد آگٸے۔(صحیفہ امام جلد 16 )
آج الحَمْدُ ِلله لبنان، عراق، اور یمن میں استعماری ظلم و استبداد اور پروپیگنڈوں کے باوجود علماۓ کرام ملکی سیاست میں استعمار کے خلاف سیسہ پلاٸی ہوٸی دیوار بنے ہیں۔ پاکستان میں بھی شہید عارف حسین الحسینی کے حکم پر علماۓ کرام نے ملکی سیاست میں حصہ لینا شروع کیا مگر استعمار کے ہتھکنڈوں اور پروپیگنڈوں اور اپنی کچھ کمزوریوں کے سبب ابھی تک شیعہ علماۓ کرام کامیاب نہیں ہیں ۔
اس ضمن میں امام خمینی مزید فرماتے ہیں کہ ”دین کا سیاست سے جدا ہونے کا مسٸلہ ایسا ہے کہ جسے پوری کوشش و سازش کے ساتھ پیش کیاگیا یہاں تک کہ ہمیں بھی شک میں ڈال دیاگیا۔ ہمارے ماحول و معاشرے میں ”سیاسی عالم دین“ ایک گالی ہے۔ (صحیفہ امام جلد 6 صفحہ 41)

3.علما ٕ کو ہر انقلاب کا علمبردار ہونا چاہٸے

امام خمینی رحمة اللہ علیہ علما ٕ کی ذمہ داریوں کو بیان کرتے ہوۓ منشور روحانیت میں فرماتے ہیں کہ ” ہر دینی و عوامی نقلاب و تحریکوں میں علما ٕ ہی پہلا دستہ ہوتا تھا جو ماتھے پر شوق شہادت نقش کر کے نکلتے تھے۔ کس عوامی اور دینی انقلاب میں علما ٕ کرام سولی پر نہیں چڑھے یا ان کے جسد کے خون نے زمین کو رنگین نہیں کیا؟
خدا کا شکر ہے کہ مدرسہ فیضیہ کی دیواروں سے شاہ کے ذاتی عقوبت خانوں تک، سڑکوں اور گلیوں سے لے کر مسجد کے محرابوں تک، اپنے دفتروں سے لے کر جنگ کے اگلے مورچوں تک ہر جگے کو شہید علما ٕ کے خون نے رنگین کیا ہے۔
علما ٕ کی یہ قربانی بتاتا ہے کہ علما ٕ دین اور ملکی دفاع کے لٸے کس قدر آمادہ و تیار ہیں۔
آج بھی اسی طرح استعمار کے آلہ کار پوری دنیا میں مصر سے پاکستان تک، افغانستان سے لبنان تک، عراق سے حجاز و ایران تک شیر دل علما ٕ و دین کے اصل محافظوں کے خلاف برسر پیکار ہیں۔
لیکن حقیقی علماۓ کرام کبھی سرمایہ پرستوں کے زیر اثر نہیں آۓ گا۔(منشور روحانیت صفحہ 6)
یہاں پر امام خمینی علما ٕ کو ایک اہم ذمہ داری کی طرف متوجہ فرماتے ہیں تاکہ علما ٕ دینی اور عوامی تحریکوں میں پیچھے نہ رہیں بلکہ ہر اول دستہ ثابت ہو۔ کبھی بھی ثرمایہ داروں کے زیر اثر نہ آٸیں بلکہ اپنے علم و تقوای کے ذریعے اپنی مسٸولیت کو ادا کرتے رہیں۔

4.مقدس نمائی و تحجر گرائی سے پرہیز:

ہم نے تین صفات مثبت کا ذکر کیا ہے اب دو ایسی صفتوں کو یک جا کر کے ذکر کر رہا ہوں جو منفی ہیں۔امام خمینی کی نظر میں یہ دو صفات علما ٕ میں نہیں ہونی چاہٸے۔
تحجر گرائی، یعنی علماءٕ کو قدامت پرست نہیں ہونا چاہٸے۔تحجر حجر سے ہے حجر پتھر کو کہا جاتا ہے۔تحجر گرائی سے مراد پتھر کا زمانہ ہے۔ اسلام میں اس کی مثال سلفیت ہے مگر یہ نظریہ رفتہ رفتہ تشیع میں بھی سرائیت کرتاجارہا ہے۔ علما ٕ کو قدیمی سوچ فکر و روش سے نکل کر دین کے سانچے میں رہتے ہوۓ معاشرے میں جدید دور کے تقاضوں کے مطابق ذمہ داریاں بھی ادا کرنی چاہٸے۔
مقدس نمائی ایک منفی صفت مقدس نمائی ہے یعنی اپنے آپ کو ایک تقدس دےکر معاشرے سے الگ کردینا اور فقط مدرسے کی چاردیواری اور محراب تک محدود رہنے کی سوچ و فکر کی بھی نفی کی گٸی ہے۔
منشورِ روحانیت میں امام خمینی فرماتے ہیں کہ ”اگر استعمار کا بس چلے تو صنف روحانیت و علماء کو جڑ سے ہی ختم کرلے لیکن خدا ہمیشہ اس مقدس چراغ کی حفاظت کرتا رہا ہے اور کرتا رہے گا۔ البتہ اس شرط کے ساتھ کہ استعمار کے مکر و فریب اور چالبازیوں کو سمجھیں۔
اس کا ہرگز یہ معنی نہیں کہ ہم سارے روحانیوں کی حمایت کریں چونکہ استعمار سے پیوستہ ، مقدس نما و تحجر گرا علماء بھی کم نہ تھے آئندہ بھی ایسے علماء کم نہیں ہونگے۔ خود حوزہ علمیہ میں ایسے لوگ ہیں کہ جو انقلاب اور دین خالص اسلام کے خلاف جدوجہد کر رہے ہیں۔ آج کل بعض تقدس کے پیکر میں دین اور انقلاب کی جڑوں پہ کلہاڑی چلارہے ہیں گویا اس کے علاہ ان کی کوٸی ذمہ داری ہی نہ ہو۔ تحجر گرائی اور مقدس نمائی کے احمق ،حوزے میں کم نہیں ہے۔ طلاب عزیز! ایک لحظہ بھی ان خوشنما سانپوں کی نسبت کوتاہی نہ کریں۔ یہ لوگ دراصل اسلام آمریکاٸی کے ترویج کرنے والے اور رسول خدا کے دشمن ہیں۔ان کوبرا سانپوں کے مقابلے میں کیا علماء و طلاب کا اتحاد محفوظ نہیں ہونا چاہٸے؟(منشور روحانیت صفحہ نمبر 8،9)

مقدس نمائی کی چند مثال:

استعمار اپنے جاسوسوں اور آلہ کاروں کے ذریعے دین اسلام اور اسلامی ملکوں میں سازش اور مداخلت کرتا رہتا ہے یہ کوٸی نٸی بات نہیں ہے۔ ہمفرے کے اعترافات سے لے کر سید جیکاک کی کرامات تک اس پہ شاہد ہیں۔
مصدق کے دور میں ایک برطانوی جاسوس سید جیکاک اپنی شعبدہ بازی کے ذریعے اصفہان میں عالم دین کی صورت میں نامور ہوجاتا ہے۔ مصدق جب پٹرول کو برطانیہ کے ہاتھ سے لے کر قومیانہ لے رہا تھا تو سید جیکاک نے کہا تھا کہ امام علی ع نے رات کو خواب میں آکر مجھ سے فرمایا کہ : ہمارے ماننے والوں سے کہو کہ تیل و پٹرول جیسی نجاست سے دور رہیں ہمارے ماننے والوں کو اس کی ضرورت نہیں“
حزب اللہ لبنان نے جب پارلیمانی الیکشن میں حصہ لینا چاہا تو شورای کے ممبر شیخ صبحی طفیلی نے اسے ناجاٸز و حرام قرار دےکر شورای سے نہ فقط مستعفی ہوۓ بلکہ اخبارات و منبر سے حزب اللہ کے خلاف ہرزہ سراٸی کرتے رہے۔(حمید داٶد آبادی کی کتاب سید عزیز صفحہ 38)

مسجد شیخ مرتضی نجف میں خطاب:

جس وقت امام خمینی نجف میں تھے مسجد شیخ انصاری میں علماء سے مخاطب ہوکر فرمایا کہ ”کٸی سالوں سے اس طرح تبلیغ ہو
رہی ہے کہ اور علما ٕ یقین کرنے لگے ہیں کہ ” ہمیں سیاست سے کیا کام؟ اس کا مطلب ہے کہ اسلام کو ایک کونے میں رکھیں۔ ہمیں سیاست سے کیا کام؟ جو اس کا اہل ہے وہی سیاست کرے۔امام زمانہ اگر اسے ضروری سمجھیں تو خود آجاٸیں مگر ہمیں سیاست سے کوٸی سروکار نہیں(مہدویت در منظر امام خمینی صفحہ 147)

نتیجہ

امام خمینی کی نگاہ میں علماء چونکہ انبیاء کے وارث ہیں اس لٸے علما ٕ کی ذمہ داری بھی بہت زیادہ ہیں۔ علما ٕ کو چاہٸے کہ ہمیشہ لوگوں کی رہنمائی اور تبلیغ دین کے لٸے مصروف عمل رہیں۔ علماء اپنے آپ کو تقدس دے کر عوام سے دور نہ رہیں۔ مسجد و مدرسہ اور منبر تک خود کو محدود نہ کریں۔ اسلامی انقلاب کے لٸے اٹھانوے فیصد لوگوں نے ووٹ دۓ ہیں تو اس میں ان علماۓ کرام کا بھی کلیدی کردار ہے جو شاہ کے دور میں بھی شاہ کے خلاف بولتے ہوۓ عوامی سہولت اور دین کی بقا و تشخص کی برقراری کے لٸے لاکھوں طعنے سن کر بھی سیاست اور الیکشن میں حصہ لیتے رہے۔ یہاں اگر شہید آیت للہ حسن مدرسی کا ذکر نہ کروں تو زیادتی ہوگی جو عوامی خدمت اور دینی تشخص کی بقاء کے لٸے تہران سے الیکشن میں آۓ۔ پہلےالیکشن میں چودہ ہزار ووٹ سے جیتے اس کے بعد آپ عوامی بہبود اور شاہ اور استعمار کے ظالمانہ رویوں اور اقدامات کے خلاف پیش پیش رہے۔ دوسری مرتبہ شاہ اور استعمار کے گٹھ جوڑ سے آپ کو ایک ووٹ بھی نہ ملاتو شہید نے الیکشن کمشنر سے مخاطب ہوکر اپنا تاریخی جملہ کہا تھا کہ ” پچھلی دفعہ مجھے چودہ ہزار ووٹ ملے تھے مگر اس دفعہ مجھے کم از کم میرا اپنا ووٹ ملنا چاہٸے تھا لذا میرا ایک ووٹ کدھر گیا؟ ایسے علما ٕ کرام کی مسلسل جدوجہد سے اسلامی انقلاب وجود میں آیا ہے۔اگر ہمارے علما ٕ بھی مدرسہ و مسجد سے نکل کر مسلسل جدوجہد کرتے رہے تو ایک دن پاکستان میں بھی اسلامی انقلاب آۓ گا۔ لذا ہمارے علماء کو چاہٸے کہ ہر سطح پر ہر وقت باطل سے مقابلہ، لوگوں کی خدمت، تقوای، پرہیز گاری، حق گوٸی اور مسٸولیت کی اداٸیگی سے خود کو بری الذمہ نہ سمجھیں۔ بالخصوص پاکستانی علما ٕ و طلاب کو چاہٸے کہ استعمار کے خود ساختہ نعروں اور فکروں کے دھوکے میں آنے کی بجاۓ ایران عراق اور لبنان کے باشعور علماء و طلاب کو موجودہ دور میں بہترین نمونہ عمل قرار دےکر معاشرہ اور عملی میدان میں اپنی سیاسی، ملکی و دینی شناخت کے لٸے مل کر جدوجہد کریں۔ ان شاء اللہ پاکستان میں بھی ایک دن اسلامی انقلاب آۓ گا۔

حوالہ:

1.سید روح اللہ، خمینی،منشور روحانیت،مٶسسہ تنظیم و نشر آثار امام خمینی، قم، چاپ سینتیسواں،1397م
2.روح اللہ،خمینی،ترجمہ سلیم علوی،مٶسسہ تنظیم و نشر آثار امام خمینی، 2008 ع۔( صحیفہ نور)
3.ہدایتی،ابوالفضل،مہدویت در منظر امام خمینی،معاونت فرہنگی،1394
4.حمید، داٶد آبادی،سید عزیز،ترجمہ فضل عباس،بی نا،بی تا۔

نوٹ: حوزہ نیوز پر شائع ہونے والی تمام نگارشات قلم کاروں کی ذاتی آراء پر مبنی ہیں حوزہ نیوز اور اس کی پالیسی کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .