۱۰ فروردین ۱۴۰۳ |۱۹ رمضان ۱۴۴۵ | Mar 29, 2024
محمد بشیر دولتی

حوزہ/ کسی بھی دینی و مذہبی شخصیت کی عظمت و اہمیت کو بیان کرنے کے لٸے ذاتی جذبات و عقیدت کا اظہار کرنا درست نہیں ہے۔دینی شخصیات کی عظمت و اہمیت کو بیان کرنے کا اصلی و علمی  معیار و میزان قرآن و حدیث اور سیرت پیمبر اکرم ہے۔

تحریر: محمد بشیر دولتی

حوزہ نیوز ایجنسی کسی بھی دینی و مذہبی شخصیت کی عظمت و اہمیت کو بیان کرنے کے لٸے ذاتی جذبات و عقیدت کا اظہار کرنا درست نہیں ہے۔دینی شخصیات کی عظمت و اہمیت کو بیان کرنے کا اصلی و علمی معیار و میزان قرآن و حدیث اور سیرت پیمبر اکرم ہے۔میں نے اپنے اس مختصر مقالے میں حضرت فاطمہ زہرا کی عظمت کو قرآن مجید کی آیات و سورتوں کی روشنی میں بیان کیا ہے۔ میں نےکوشش کی ہے کہ حضرت فاطمہ کی عظمت کو اہل سنت مفسرین و محدثین کی نگاہ میں واضح کروں تاکہ مسلمانوں کے درمیان قرآن مجید کی رو سے آپ کی مسلم عظمت سب پر واضح اور آشکار ہو۔

تمہید:

اہل سنت کی تفاسیر اور احادیث کے منابع میں حضرت فاطمہ کی شان اقدس میں تقریبا ایک سو پینتیس آیات اور انچاس سورے ذکر ہوۓ ہیں۔یہ وہ تعداد ہے جو فقط اہل سنت کی کتابوں میں آٸی ہے۔اہل تشیع کے نزدیک یہ تعداد اس سے کٸی گنا ذیادہ ہے۔ان آیتوں اور سوروں کی تعداد کو ہم روش تفسیر قرآن کےمطابق چار حصوں میں تقسیم کرسکتے ہیں۔
1.سبب نزول یعنی اہل سنت مفسرین کے نزدیک وہ آیات کہ جن کے نزول کا سبب ذات حضرت فاطمہ زہرا ہیں۔
2.شان نزول۔یعنی اہل سنت مفسرین و محدثین کے نزدیک وہ آیات جو حضرت فاطمہ کی شان میں نازل ہوٸی ہیں۔
3.تطبیقی۔یعنی اہل سنت مفسرین و محدثین کے نزدیک وہ سورے یا آیتیں جن کی مصداق اولی خارج میں حضرت فاطمہ کی ذات ہے۔
4.باطن۔ یعنی وہ قرآنی سورے یا آیات جن کی باطنی مراد حضرت فاطمہ کی ذات ہے۔
لیکن مقالے میں گنجاٸش نہ ہونے کی وجہ سے فقط سبب نزول و شان نزول سے متعلق چند آیات و سوروں کو اہل سنت کے منابع اصلی سے بیان کروں گا۔

شان نزول:

نزول فعل نَزَلَ کا مصدر ہے۔یہ لفظ اگرچہ قرآن پاک میں نہیں آیا مگر اس کے مشتقات قرآن پاک میں تین سو دو دفعہ آےہیں۔

لغوی معنی:

اس کا معنی اوپر سے کسی چیز کا نیچے آنا جبکہ متضاد صعود یعنی کسی چیز کا اوپر جانا ہے۔

اصطلاحی معنی:

قرآنیات میں نزول سے مراد آیات مجیدہ کا لوح محفوظ سے حکم خدا پر جبرٸیل یا فرشتہ کے ذریعے رسول خدا پر اترنا ہے۔

شأن نزول اور سبب نزول:

سبب نزول۔یعنی کوٸی واقعہ یا ذات کسی آیہ یا سورے کے نازل ہونے کا سبب بنے۔

شأن نزول:

اکثر علماۓ علوم قرآن کے نزدیک شان نزول و سبب نزول میں کوٸی فرق نہیں ہے لیکن بعض مفسرین نے ان میں فرق کو بیان کیا ہے۔ان کے نزدیک شان نزول سبب نزول سے اعم ہے۔سبب نزول میں سبب بننے والی شخصیت یا کسی ایک واقعے تک محدود ہوتا ہے جبکہ شان نزول میں حال اور آٸندہ کے مربوط تمام واقعات شامل ہوسکتے ہیں۔اسی کو تنزیل و تاویل بھی کہا جاتا ہے۔تنزیل یعنی خاص واقعہ جس وجہ سے آیت نازل ہوٸی ۔تأویل یعنی وہ معنی جو مختلف معنی و مفاہیم اور موارد پر قابل تطبیق ہے۔قرآنیات کی زبان میں اسے ظاہر و باطن بھی کہا جاتا ہے۔(ہادی معرفت۔علوم قرآنی،صفحہ ٥٠،٥١)

وہ سورہ جن کے نزول کا سبب حضرت زہرا ہیں:

سورہ دھر؛
قرآن کا چہترواں سورہ جس میں اکتیس آیات ہیں جمہور علما ٕ کے نزدیک یہ مدنی سورہ ہے ۔اکثر راویان و مفسرین شیعہ و اہل سنت کے مطابق اس سورے کا سبب نزول پنجتن پاک بالخصوص حضرت فاطمہ زہرا کی طرف سے روزے کی حالت میں افطار کیٸے بغیر کسی اسیر کو مسلسل کھانا کھلانا ہے۔
بالخصوص آیات نمبر آٹھ اور نو اسی خالص عمل کے اخلاص کو بیان کررہی ہیں جیسے
یُوۡفُوۡنَ بِالنَّذۡرِ وَ یَخَافُوۡنَ یَوۡمًا کَانَ شَرُّہٗ مُسۡتَطِیۡرًا﴿۷﴾
جو نذر پوری کرتے ہیں اور اس دن سے ڈرتے ہیں جس کی برائی ہر طرف پھیلی ہوئی ہو گی۔
وَ یُطۡعِمُوۡنَ الطَّعَامَ عَلٰی حُبِّہٖ مِسۡکِیۡنًا وَّ یَتِیۡمًا وَّ اَسِیۡرًا﴿۸﴾
اور اپنی خواہش کے باوجود مسکین، یتیم اور اسیر کو کھانا کھلاتے ہیں۔(ترجمہ الکوثر۔شیخ محسن)حضرت زہرا اور اہلبیت علیہم السلام کی قربانی و ایثار اور انفاق کے سبب یہ مکمل سورہ نازل ہوا۔

اہل سنت محدثین و مفسرین:

بہت سارے اہل سنت مفسرین و محدثین کا کہنا ہے کہ یہ سورہ حضرت فضہ سمیت پنجتن پاک بالخصوص حضرت فاطمہ زہرا کی شان میں نازل ہوا ہے۔جیسے
مقاتل بن سلیمان متوفی 150 ہجری۔۔اسی طرح ابو جعفر اسکافی متوفی 240 ہجری۔زمخشری متوفی 538 ہجری اپنی کتاب الکشاف جلد چہارم میں۔امام فخر رازی متوفی 604 ہجری اپنی کتاب تفسیر فخر رازی جلد 30 میں۔ابن اثیر متوفی 630 ہجری اپنی کتاب اسدالغابہ جلدپنجم میں۔علامہ جلاالدین سیوطی نے اپنی کتاب در منثور جلد 8 میں۔ ان کے علاوہ سینکڑوں دیگر اہل سنت کے مفسرین و محدثین نے اپنی کتابوں میں اس کا ذکر کیا ہے ان سب کے نام لکھنے کا یہاں گنجاٸش نہیں ہے۔(بشوی،شخصیت حضرت زہرا،صفحہ٥٤ تا ٥٥)

سورہ کی شان نزول سے متعلق حدیث:

ابن عباس سے جو روایت ہے اس کا مختصر مفہوم یہ ہے کہ حضرات حسنین جب بیمار ہوۓ تو حضرت رسول خدا نے حضرت علی ع کو حکم دیا کہ بچوں کی صحت یابی کے لٸے تین دن روزہ رکھنے کی نذر کریں۔یوں حضرت فضہ خادمہ سمیت پنجتن پاک نے نذر کا روزہ رکھا ۔ تینوں دن اسیر و فقیر و مسکین کے مانگنے پر افطاری کا کھانا فقیر و اسیر کو دے کر پانی سے افطار کیا تو یہ سورہ نازل ہوا۔(زمحشری ، الکشاف ،جلد ٤۔صفحہ 169) یہ حدیث عظیم مفسر قرآن و محدث ابن عباس کے علاوہ زید بن ارقم ،مجاہد ،ابی صالح ،ضحاک ،سعید بن جبیر، ابن مہران اصبغ بن نباتہ، اور جابر جعفی سے بھی روایت ہوٸی ہے۔ ابن عباس سے مروی اس حدیث کو عبداللہ بن مبارک جیسے فقیہ عالم عابد و زاہد شخصیت اور یعقوب بن قعقاع جیسا ثقہ مجاہد بن جبرالمکی جیسی ثقہ شخصیت نے ابن عباس جیسے صحابی رسول و مفسر قرآن و محدث سے بیان کیا ہے ۔اس لٸے یہ صحیح السند حدیث ہے۔

وہ آیات جن کا سبب نزول حضرت فاطمہ ہیں:

آیہ تطہیر؛
وَ قَرۡنَ فِیۡ بُیُوۡتِکُنَّ وَ لَا تَبَرَّجۡنَ تَبَرُّجَ الۡجَاہِلِیَّۃِ الۡاُوۡلٰی وَ اَقِمۡنَ الصَّلٰوۃَ وَ اٰتِیۡنَ الزَّکٰوۃَ وَ اَطِعۡنَ اللّٰہَ وَ رَسُوۡلَہٗ ؕ اِنَّمَا یُرِیۡدُ اللّٰہُ لِیُذۡہِبَ عَنۡکُمُ الرِّجۡسَ اَہۡلَ الۡبَیۡتِ وَ یُطَہِّرَکُمۡ تَطۡہِیۡرًا ﴿ۚ۳۳﴾
اور اپنے گھروں میں جم کر بیٹھی رہو اور قدیم جاہلیت کی طرح اپنے آپ کو نمایاں کرتی نہ پھرو نیز نماز قائم کرو اور زکوٰۃ دیا کرو اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو، اللہ کا ارادہ بس یہی ہے ہر طرح کی ناپاکی کو اہل بیت ! آپ سے دور رکھے اور آپ کو ایسے پاکیزہ رکھے جیسے پاکیزہ رکھنے کا حق ہے۔(تفسیر الکوثر)
سورہ کوثر کے بارے میں سینکڑوں روایات اہل سنت و اہل تشیع کے مطابق بہت سارے اصحاب و تابعین سے تواتر کی حد تک روایات موجود ہیں کہ آیہ تطہیر اہل کسا ٕ بالاخص حضرت فاطمہ زہرا کی شان میں نازل ہوٸی ہے۔جس میں پنجتن کے پاک و پاکیزہ ہونے کااعلان ہے۔آیت کے جس حصے میں کلمہ ”انما“ آیا ہے یہ آیت کے معنی کو ماقبل سے کاٹ رہا ہے۔معروف لغت دان ابن منظور اور جوہری کے مطابق ”ان“ کے ساتھ ”ما“ کا اضافہ ہو تو حصر اور تعیین پر دلالت کرتا ہے۔فیروز آبادی اور ابن ھشام کے مطابق بھی انما حصر کا فاٸدہ دیتاہے(لسان العرب،مادہ أن،نجلد۔1.ص ٢٤٥جوہری الصحاح۔مادہ أ،ن، ن)۔لذا اس جگہ بھی حصر کے ذریعے آیت کے ماقبل حصے کو جو ازواج نبی سے متعلق ہے اسے طہارت و عصمت کے حکم سے جدا کر کے اہلبیت رسول سے مختص کیا گیا ہے۔یہی وجہ ہے کہ امہات المٶمنین میں سے کسی نے بھی عصمت کا دعوای نہیں کیا ہے۔
محمد بن جبیر طبری نے جامع البیان میں ابوسعید خدری کی حدیث ام المٶمنین حضرت ام سلمہ سے روایت کی ہے جسکا مختصر مفہوم یہ ہے کہ آیہ تطہیر حضرت ام سلمہ کے گھر پہ نازل ہوٸی ۔حضرت ام سلمہ فرماتی ہے کہ میں نے پوچھا یارسول اللہ کیا میں بھی اس چادر میں شامل ہوجاٶں؟ تو رسول خدا نے فرمایا کہ نہیں۔آپ ازواج نبی میں شامل ہو۔اہلبیت رسول میں علی فاطمہ و حسن و حسین شامل ہیں۔(جریر طبری ،جامع البیان،ج ١٢،ص ٧)
اسی طرح عبداللہ ابن جعفر سے بھی یہی روایت نقل ہوٸی ہے۔
حاکم نیشابوری نے اپنی مستدرک کی تیسری جلد کے صفحہ ١٤٨ پر اس حدیث کو صحیح السند قرار دیا ہے، اسی طرح اصحاب کرام میں ابن عباس،انس بن مالک،ابوھریرہ، ثوبان غلام پیامبر اعظم ، زید بن ارقم ،سعد بن ابی وقاص،جابر بن عبداللہ انصاری سمیت دیگر کٸی اصحاب سے بھی نقل ہوٸی ہے۔امہات المٶمنین میں سے ام المٶمنین حضرت ام سلمہ، ام المٶمنین ام سلیم، ام المٶمنین زینب، ام المٶمنین حضرت عاٸشہ اور ام المٶمنین حضرت صفیہ سے بھی نقل ہوٸی ہے۔(بشوی، شخصیت حضرت زہرا،صفحہ ٩٠)

حضرت فاطمہ کی شان میں نازل سورتیں:

1.سورہ کوثر

قرآن مجید کے ایک سو چودہ سوروں میں یہ سب سے چھوٹا سورہ ہے۔مگر معنی و مطالب کے لحاظ سے اپنے اندر ایک بحر بیکراں رکھتا ہے ۔قرآن کے زندہ معجزہ ہونے کے دلاٸل میں سے ایک اہم دلیل بھی ہے۔اکثر علماۓ مفسرین کے مطابق عاص بن واٸل اور اس کے ساتھی جن میں ولیدبن مغیرہ ،ابوجھل،ابولہب اور دیگر کٸی مشرکین حضرت رسول خدا کو ان کے بیٹوں قاسم و عبداللہ کی رحلت کے بعد ابتر و دم بریدہ کہا کرتے تھے۔ ان باتوں کو جلال الدین سیوطی نے درالمنثور میں اور آلوسی نے روح المعانی ،محمد امین ھرری نے تفسیر حداٸق روح و ریحان میں اور طنطاوی نے کتاب جواہر میں ذکر کیا ہے۔تب خدا نے ان دشمنوں کو جواب دینے کے لٸے حضرت فاطمہ کو کوثر یعنی خیر کثیر کے عنوان سے عطا کیا اور رسول خدا کے دشمنوں کو ابتر قرار دیا۔آج بھی دنیا لاکھ قتل و غارتگری کے باوجود اولاد فاطمہ سے بھری ہے اور ان کے دشمن ابتر یعنی بےنام و نشان ہوگٸے ہیں۔(ابن ابی الحدید،شرح نہج البلاغہ،جلد ٢٠ صفحہ٣٣٤)
اہل سنت کے دیگر معروف مفسرین جیسے امام فخرالدین رازی نے تفسیر کبیر نیشابوری نے غراٸب القرآن جلد ششم میں جبکہ دیوبندی نے تفسیر کابلی جلد ہشتم میں۔مولانا مودودی نے معارف القرآن جلد ہشتم میں حضرت فاطمہ کے خیر کثیر اور رسول خدا کو طعنہ دینے والوں کے ابتر و دم بریدہ ہونے کو بیان کیا ہے۔

حضرت فاطمہ کی شان میں نازل آیتیں:

آیہ ذی القربٰی

وَاٰتِ ذَاالۡقُرۡبٰی حَقَّہٗ وَ الۡمِسۡکِیۡنَ وَ ابۡنَ السَّبِیۡلِ وَ لَا تُبَذِّرۡ تَبۡذِیۡرًا﴿سورہ بنی اسراٸیل ۲۶﴾
۔اور قریب ترین رشتے دار کو اس کا حق دیا کرو اور مساکین اور مسافروں کو بھی اور فضول خرچی نہ کیا کرو۔
بہت سارے اہل سنت مفسرین نے اپنی کتابوں میں یہ روایت لاٸی ہے جو ابن عباس اور ابو سعید خدری سے مختلف طریقوں سے نقل ہوٸی ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوٸی تو رسول خدا نے حضرت فاطمہ زہرا کو بلایا اور فدک آپ کو ہبہ کیا۔(ابن کثیر دمشقی،تفسیر القرآن العظیم،جلد٣،صفحہ٣٩)اسی طرح سیوطی نے درالمنثور، آلوسی نے روح المعانی میں۔متقی ہندی نے کنزالعمال میں۔ھیتمی نے مجمع الزواٸد جبکہ حاکم حسکانی نے شواہد التنزیل میں اسی روایت کو نقل کیا ہے۔
آیہ مودت
ذٰلِکَ الَّذِیۡ یُبَشِّرُ اللّٰہُ عِبَادَہُ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ ؕ قُلۡ لَّاۤ اَسۡـَٔلُکُمۡ عَلَیۡہِ اَجۡرًا اِلَّا الۡمَوَدَّۃَ فِی الۡقُرۡبٰی ؕ وَ مَنۡ یَّقۡتَرِفۡ حَسَنَۃً نَّزِدۡ لَہٗ فِیۡہَا حُسۡنًا ؕ اِنَّ اللّٰہَ غَفُوۡرٌ شَکُوۡرٌ﴿۲۳﴾
۲۳۔ یہ وہ بات ہے جس کی اللہ اپنے ان بندوں کو خوشخبری دیتا ہے جو ایمان لاتے ہیں اور اعمال صالح بجا لاتے ہیں، کہدیجئے: میں اس (تبلیغ رسالت) پر تم سے کوئی اجرت نہیں مانگتا سوائے قریب ترین رشتہ داروں کی محبت کے اور جو کوئی نیکی کمائے ہم اس کے لیے اس نیکی میں اچھا اضافہ کرتے ہیں، اللہ یقینا بڑا بخشنے والا، قدردان ہے۔
اس آیہ کو آیہ مودت کہا جاتا ہے۔اہل سنت کے بہت سارے مفسرین نے اس آیہ کے شان نزول میں بیان کیا ہے کہ یہ اہلبیت علیھم السلام باالخصوص حضرت فاطمہ کی شان میں نازل ہوٸی ہے۔صحابی رسول خدا حضرت ابن عباس سے یہ روایت ہے کہ جب یہ آیہ نازل ہوٸی تو ہم نے پوچھا کہ یارسول اللہ آپ کے وہ کونسے قرابت دار ہیں جن کی محبت و اطاعت اس آیہ کے تحت واجب ہے؟تو رسول خدا نے فرمایا کہ ”علی و فاطمہ اور ان کے بچے “(سیوطی،الدرالمنثور،جلد٧،ص ٣٤٧)
بعض روایات کے مطابق رسول خدا نے اسے تین بار دھرایا کہ ”علی و فاطمہ اور ان کے بچے“(حاکم حسکانی،شواہد التنزیل،جلد ٢،صفحہ ١٣٠)
اس آیت کے شان نزول کی روایات رسول خدا و اہلبیت کے علاوہ اصحاب و تابعین سے کٸی انداز میں روایت ہوٸی ہے۔جن میں ابن عباس،حضرت جابر،عبداللہ ابن مسعود،سعید بن جبیر،عمرو بن شعیب جیسے کٸی افراد شامل ہیں۔
مفسرین میں سےابن جوزی ،زمحشری،ابن کثیر،نیشابوری،فخر رازی،ابن عطیہ اندلسی سمیت سینکڑوں مفسرین شامل ہیں۔
آیہ مباھلہ
فَمَنۡ حَآجَّکَ فِیۡہِ مِنۡۢ بَعۡدِ مَا جَآءَکَ مِنَ الۡعِلۡمِ فَقُلۡ تَعَالَوۡا نَدۡعُ اَبۡنَآءَنَا وَ اَبۡنَآءَکُمۡ وَ نِسَآءَنَا وَ نِسَآءَکُمۡ وَ اَنۡفُسَنَا وَ اَنۡفُسَکُمۡ ۟ ثُمَّ نَبۡتَہِلۡ فَنَجۡعَلۡ لَّعۡنَتَ اللّٰہِ عَلَی الۡکٰذِبِیۡنَ﴿۶۱﴾
۶۱۔ آپ کے پاس علم آجانے کے بعد بھی اگر یہ لوگ (عیسیٰ کے بارے میں) آپ سے جھگڑا کریں تو آپ کہدیں: آؤ ہم اپنے بیٹوں کو بلاتے ہیں اور تم اپنے بیٹوں کو بلاؤ، ہم اپنی بیٹیوں کو بلاتے ہیں اور تم اپنی بیٹیوں کو بلاؤ، ہم اپنے نفسوں کو بلاتے ہیں اور تم اپنے نفسوں کو بلاؤ، پھر دونوں فریق اللہ سے دعا کریں کہ جو جھوٹا ہو اس پر اللہ کی لعنت ہو۔
بعض مفسرین و راویان کے مطابق جب آیہ مباھلہ نازل ہوٸی تو رسول خدا نے حضرت علی حضرت فاطمہ اور امام حسن و امام حسین کو طلب کیا اور مباھلہ کےلٸے آمادہ ہوۓ جب عیساٸیوں یا یہودیوں(اہل سنت روایات کے مطابق) کو معلوم ہوا تو وہ ڈر گٸے کہ کہیں ہم بھی مسخ نہ ہوجاٸیں۔بعض روایات میں پنجتن پاک کے جانے کا انداز بھی ذکر ہوا ہے۔
روایت مباھلہ اکیاون مختلف طریقوں کے ساتھ سینتیس نفر سے نقل ہوٸی ہے۔
ان میں سے ہم اہل سنت کے تین روایات علبا ٕ بن احمرالیشکری،جابر بن عبداللہ انصاری،سعد بن ابی وقاص ان تینوں سے جوروایات نقل ہوٸی ہیں ان کے مطابق اصحاب کسا ٕ کی شان میں یہ آیت نازل ہوٸی ہے۔ ان روایات کو جریر طبری نے جامع البیان ،سیوطی نے درالمنثور،ابن کثیر نے تفسیر القرآن میں بیان کیا ہے۔( بشوی،شخصیت حضرت زہرا،صفحہ ٢١٥)
سعد بن ابی وقاص کی روایت کے مطابق جب یہ آیت نازل ہوٸی تو رسول خدا نے حضرت علی ، حضرت فاطمہ اور (امام) حسن و (امام) حسین کو بلایا پھر فرمایا کہ ”اللھم ھٶلا ٕ أھلی“یعنی پروردگار یہی میرے اہلبیت ہیں۔(صحیح مسلم،جلد ١٥،صفحہ ١٨٥۔سنن ترمذی،جلد ٥،صفحہ ٤٠٧)
ان کے علاوہ بھی سینکڑوں ایسی آیتیں ہیں جن کا سبب نزول و شان نزول اہلبیت علیھم السلام اور بالاخص حضرت فاطمہ زہرا کی ذات گرامی ہیں، یہی آپ کی عظمت پر بہترین دلیل ہے۔خدا ہمیں حضرت فاطمہ کی معرفت حاصل کرنے کی توفیق عطا فرماۓ۔

حوالہ جات:

قرآن مجید
1۔ معرفت،محمد ہادی،علوم قرآن،مٶسسہ فرہنگی تمہید قم،١٣٨٩
2.بشوی،محمد یعقوب،شخصیت حضرت زہرا،مٶسسہ بوستان کتاب قم،١٣٩٢
3.زمحشری،محمود،
4.ابن منظور،محمد،لسان عرب،نشرادب الحوزہ،١٤٠٥ھ
5.جوہری،اسماعیل،الصحاح،دارالعلوم للملایین،بیروت،١٩٨٧م
6.طبری،محمد بن جریر،جامع البیان عن تأویل آیات القرآن،دارالفکر،بیروت١٩٨٨م
7.ابن ابی الحدید،عزالدین،شرح نہج البلاغہ،دارالاحیا ٕ التراث العربی،بیروت،١٩٦٧م
8.ابن ابی حاتم،عبدالرحمن،تفسیر القرآن العظیم،المکتبة العصریہ،بیروت ١٩٩٩م
9.سیوطی،جلاالدین،الدرالمنثور فی تفسیرالمٶثر،دارالفکر، بیروت ١٩٩٣م
10.حسکانی،حاکم،شواہدالتنزیل،مٶسسة الاعلمی للمطبوعات،بیروت۔بی تا۔
11.محمد بن سورہ،سنن ترمذی،دارالفکر،بیروت١٩٩٤م.

نوٹ: حوزہ نیوز پر شائع ہونے والی تمام نگارشات قلم کاروں کی ذاتی آراء پر مبنی ہیں حوزہ نیوز اور اس کی پالیسی کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .