تحریر: محمد بشیر دولتی
انقلابِ اسلامی ایران:
دنیا کے تمام انقلابات کے مقابلے میں انقلابِ اسلامی ایک عظیم انقلاب ہے، یہ اب تک کا وہ عظیم انقلاب ہے جو دین یعنی اسلام کے نام پر وجود میں آیا۔
انقلابِ اسلامی کی چند بنیادی خصوصیات درج ذیل ہیں:
1-اس انقلاب کا خالص مذہبی ہونا۔
2-ایک خاص مذہبی آٸیڈیالوجی و طرز حکومت و معاشرت کا حامل ہونا۔
3-قرآن و حدیث جیسے الہی و دینی منابع کا حامل ہونا۔
4-انقلاب کے اصولوں کا قرآن و حدیث کے اصولوں سے ہم آہنگ ہونا۔
5-امام مہدی ع کی عالمی عادلانہ حکومت کے لٸے ضمیمہ بننا۔
دوانقلابوں اور اسلامی انقلاب کا بنیادی فرق:
اسلامی انقلاب کا الہی مبدای و مبنا اور اس کے اصولوں کے تحت ہونا ہی اس انقلاب کی اہم خاصیت ہے۔یہی وجہ ہے کہ یہ انقلاب دوسرے انقلابات کے برعکس کسی خاص طبقہ فکر یا عوام کے کسی خاص جزوی ضرورت کے لٸے نہیں آیا۔بلکہ اسلام جیسے آفاقی مذہب کے تمام قوانین اور انسان کے جسمانی و روحانی ارتقا ٕ کے تمام تقاضوں کے تکامل کے لٸے ہزاروں جانوں کا نذرانہ پیش کر کے وجود میں لایا گیا۔اس انقلاب کے لٸے کسی خاص عمارت پہ قبضہ نہیں کیا گیا۔نہ ہی کسی خاص خاندان کا قتل عام کیا گیا نہ ہی کسی کا سرقلم کر کے نیزے پہ پھرایا گیا۔جب شاہ ایران رضا شاہ پہلوی نے عوام پر گولیاں برساٸی جارہی تھی تو خمینی بت شکن کے حکم پر شاہی افواج کو گولیوں کے جواب میں پھول پیش کیا گیا۔اسی طرح سرکاری و قومی املاک کو بھی انقلابیوں کی طرف سے کوٸی نقصان نہیں پہنچایا گیا۔
اسلامی انقلاب کے مبانی ان چار چیزوں پر مشتمل ہیں:
1-قرآن
2-سنت (حدیث)
3-اجماع
4-عقل
قرآن مجید اور حکومت کی تشکیل:
قرآن کی نظر میں حاکمیت و حکومت کے حقدار حکم اولی کے مطابق خدا کو حاصل ہے۔
اس پہ ہم چند آیتیں پیش کریں گے۔
ان الحکم الااللہ،حکم فقط خدا کی طرف سے ہے۔(سورہ انعام آیت نمر 57) فااللہ ھو الولی،پس خدا ہی حاکم ہے۔(سورہ شورای آیت نمبر 9)،الالہ الخلق والامر،خبردار!اسی کے لٸے خلق اور امر ہے۔ان آیتوں سے خدا کی حاکمیت واضح ہوتی ہے۔
حاکمیت کے حقدار:
خدا کے علاوہ حاکمیت کا حق انہیں حاصل ہیں جنہیں خدا و رسول اجازت دیں۔جو قرآنی آیات اور روایات و احادیث سے ثابت ہو۔ جیسے «اطیعوا اللہ واطیعوا الرسول واولی الامر منکم»اللہ کی اطاعت کرو اور رسول اور جو تم میں سے صاحبان امر ہیں ان کی اطاعت کرو۔ (سورة النسا ٕ آیت نمبر 59) إِنَّما وَلِيُّكُمُ اللَّهُ وَرَسولُهُ وَالَّذينَ آمَنُوا الَّذينَ يُقيمونَ الصَّلاةَ وَيُؤتونَ الزَّكاةَ وَهُم راكِعونَ. صرف اللہ تمھارا ولی اور اس کا رسول اور وہ باایمان لوگ جو نماز قاٸم کرتے اور زکواة دیتے ہیں درحالانکہ وہ رکوع میں ہوتے ہیں۔(سورہ ماٸدہ آیت نمبر 55) فَلَا وَ رَبِّکَ لَا یُؤۡمِنُوۡنَ حَتّٰی یُحَکِّمُوۡکَ فِیۡمَا شَجَرَ بَیۡنَہُمۡ ثُمَّ لَا یَجِدُوۡا فِیۡۤ اَنۡفُسِہِمۡ حَرَجًا مِّمَّا قَضَیۡتَ وَ یُسَلِّمُوۡا تَسۡلِیۡمًا۔ (اے رسول) تمہارے رب کی قسم یہ لوگ اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتے جب تک اپنے باہمی تنازعات میں آپ کو منصف نہ بنائیں پھر آپ کے فیصلے پر ان کے دلوں میں کوئی رنجش نہ آئے بلکہ وہ (اسے) بخوشی تسلیم کریں۔(سورہ نسا ٕ آیت نمبر 65) «النبی اولٰی بلمٶمنین نبی تمھارے نفسوں پر تم سے ذیادہ حق رکھتا ہے۔(احزاب آیت نمبر 6) «اِنَّاۤ اَنۡزَلۡنَاۤ اِلَیۡکَ الۡکِتٰبَ بِالۡحَقِّ لِتَحۡکُمَ بَیۡنَ النَّاسِ بِمَاۤ اَرٰىکَ اللّٰہُ ؕ وَ لَا تَکُنۡ لِّلۡخَآئِنِیۡنَ خَصِیۡمًا»،اے رسول)ہم نے یہ کتاب حق کے ساتھ آپ کی طرف نازل کی ہے تاکہ جیسے اللہ نے آپ کو بتایا ہے اسی کے مطابق لوگوں میں فیصلے کریں ۔(النسا ٕ آیت نمبر 105)
مرسلہ صدوق میں رسول خدا کی اس حدیث کو امیرالمٶمنین کےذریعے نقل کیا ہے کہ امیر المٶمنین فرماتے ہیں: رسول خدا نے تین مرتبہ فرمایا: اے پروردگار میرے خلفا ٕ پہ رحم فرما۔پوچھا گیا کہ اے اللہ کے رسول آپ کے خلفا ٕ کون ہیں؟ فرمایا: وہ افراد جو میرے بعد آٸیں گے اور میری حدیث اور سنت کو نقل کریں گے۔( صدوق،عیون اخبارالرضا ج ٢۔صدوق، من لا یحضرالفقیہ ج ٤۔)
یہ مرسلہ صدوق بہت سے علماۓ کرام کے لٸے قابل اعتبار ہیں۔ بہت سے فقہا ٕ جیسے صاحب جواہر ملااحمد نراقی ،صاحب عناوین یعنی میر عبدالفتاح مراغی، آیت اللہ گلپاٸیگانی اور امام خمینی نے حکومت ولایت فقیہ کے اثبات کے لئے اس روایت سے استدلال کیا ہے۔.العلما ٕ حکام علی الناس۔
علما ٕ لوگوں پر حاکم ہیں۔(آمدی،غررالحکم ج ١)الملوک حکام علی الناس والعلما ٕ حکام علی الملوک۔ بادشاہ لوگوں پر حاکم ہوتے ہیں اور علما ٕ بادشاہوں پر حاکم ہوتے ہیں۔(کراجکی،کنزالفواٸد ج ٢)امام حسین ع نے مقام منی پہ علماۓ کرام سے خطاب کرتے ہوۓ فرمایا: امور کی تدبیر اور احکام کا اجرا ٕ ان علماۓ ربانی کے ہاتھ میں ہوتا ہے جو خدا کے حلال و حرام کے امین ہوتے ہیں۔پس تم سے یہ مقام و مرتبہ چھین لیا گیا اور اس کی وجہ یہ ہے کہ تم نے حق سے منہ پھیر لیا۔(حرانی، تحف العقول عن آل الرسول ج ١،ص 238)
عقل و اجماع:
عقل بھی شرعی احکام کے منابع میں سے ہے اور شارع مقدس کی نظر کو کشف کرسکتی ہے۔اس پر علم اصول میں مستقلات عقلیہ و غیر مستقلات عقلیہ کے نام سے ایک معرکة الآرا ٕ بحث موجود ہے۔شرعی حکم کے استنباط میں عقلی دلیل کا بھی وہی کردار ہے جو دوسری شرعی ادلہ کا ہے۔شارع مقدس کی نظر کو کشف کرنے میں عقلی دلیل کا قابل اعتبار ہونا اپنی جگہ پر ثابت ہوچکا ہے بنابر ایں ولایت فقیہ پر دلیل عقلی محض مستقلات عقلیہ کی قسم سے ہے اور مستقلات عقلیہ میں کسی نقلی دلیل سے مدد لینے کی ضرورت نہیں رہتی۔
نبوت عامہ کی ضرورت پر فلاسفہ کی مشہور برہان کو یوں بھی بیان کیا جاسکتا ہے کہ جس کا نتیجہ نہ صرف ضرورت نبوت بلکہ ضرورت امامت پھر ضرورت نصب فقیہ عادل کی صورت میں بھی نکلتا ہے۔
مرحوم محقق نراقی پہلی شخصیت ہے کہ جنہوں نے حکومت اسلامی یا ولایت فقیہ کی اثبات کے لٸے عقلی دلیل کا سہارا لیا ہے۔ان کے بعد دوسرے فقہا نے اسے آگے بڑھایا ہے۔مختلف طرز کی عقلی ادلہ کی وجہ ان کے مقدمات کا مختلف ہونا ہے اور قاعدہ لطف و حکمت الہی سے بھی مدد لی گٸی ہے۔
بقول امام خمینی کے کہ”عقل کے واضح احکام میں سے کہ جن کا کوٸی انکار نہیں کرسکتا یہ ہے کہ انسان کے بیچ ایک حکومت کا ہونا ضروری ہے اور بنی نوع انسان نظم و نسق، قانون، ولایت اور بنیادی حکومتوں کا ضرورتمند ہے۔(خمینی،کشف الاسرار ص ٢٢٢)
ضرورت حکومت امام علی کی نگاہ میں:
مولا علی ع نہج البلاغہ میں فرماتے ہیں کہ ”لوگوں کے لٸے حاکم کا ہونا بہت ضروری ہے۔خواہ وہ اچھا ہو یا برا۔(رضی،خطبہ ٤٠)پس حکومت اسلامی کی بنیاد بھی انہیں منابع اربعہ یعنی قرآن، سنت، عقل و اجماع پر ہے۔
عادلانہ حکومت کی تشکیل:
از روۓ قرآن و حدیث عادلانہ حکومت کی تشکیل تمام مسلمانوں بلاخص علماۓ حقہ کی زمہ داریوں میں سے ہے۔جیسا کہ ارشاد ہوتا ہے کہ«وَمَنْ لَمْ يَحْكُمْ بِمَا أَنْزَلَ اللَّهُ فَأُولَٰئِكَ هُمُ الْكَافِرُونَ»۔ جولوگ خدا کے نازل کردہ احکام کے مطابق فیصلہ نہ کریں، پس وہ لوگ ہی کافر ہیں۔(سورہ ماٸدہ آیت نمبر 44)«وَمَنْ لَمْ يَحْكُمْ بِمَا أَنْزَلَ اللَّهُ فَأُولَٰئِكَ هُمُ الْظالمون»۔ جولوگ خدا کےنازل کردہ احکام کے مطابق فیصلہ نہ کرے پس وہ لوگ ہی ظالم ہیں۔(سورہ ماٸدہ آیت نمبر 45)
وَمَنْ لَمْ يَحْكُمْ بِمَا أَنْزَلَ اللَّهُ فَأُولَٰئِكَ هُمُ الْفاسقون۔پس خداوند عالم نے بہت سی آیات میں لوگوں کو گناہ گاروں اور ہوس پرست افراد کی اطاعت سے منع کیا ہے۔یہ تما امور بےعدالتی کی علامت ہیں۔
جیسا کہ ارشاد ہوتا ہے: «ولاتطیعوا أمر المسرفین* الذین یفسدون فی الارض ولا یصلحون»،اور زیادتی کرنے والوں کی اطاعت نہ کرو۔جو زمین میں فساد پیدا کرتے ہیں اور اصلاح نہیں کرتے۔(سورہ شعرا ٕ آیت 151،152)
دوسری جگہ فرماتا ہے کہ «ولاتطع مناغفلنا قلبہ عن ذکرنا واتبع ھواہ وکان امرہ فرطا»
اور اس کی اطاعت نہ کرو جس کے قلب کو ہم نے اپنی یاد سے غافل کردیا ہےوہ اپنی خواہشات کا تابع ہے اور اس کا کام سراسر زیادتی کرنا ہے۔(سورہ کہف آیت نمبر 28)
امام حسین ع فرماتے ہیں کہ”فلعمری ما الامام الّا الحاکم بالکتاب،القاٸم باالقسط والداٸن بدین اللہ“ مجھے اپنی جان کی قسم امام وہی ہوسکتا ہےجو قرآن کے مطابق فیصلہ کرے۔عدل و انصاف قاٸم کرے اور دین خدا پر عمل کرے۔(ارشاد مفید،ج 2،ص 39)
فقاہت:
جس طرح اسلامی معاشرے کا حاکم اصلی خدا اور قانون اصلی قرآنی تعلیمات و سنت رسول و آٸمہ ہیں اسی طرح اس معاشرے کی باگ دوڑ جس کے ہاتھ میں ہو عقلا اس کا دین کی اعلی تعلیمات سے آگاہ ہونا بھی ہہت ضروری ہے۔ لذا اس حاکم کو ولی فقیہ بھی کہا جاسکتا ہے۔اس پر دلالت کرنے کے لٸے بہت سی روایات موجود ہیں۔
مقبولہ عمر ابن حنظلہ: امام معصوم فرماتے ہیں کہ« من کان منکم ممن قد روای حدیثنا و نظر فی حلالنا و حرامنا وعرف احکامنا فلیرضوا بہ حکما ،فانّی قد جعلتہ علیکم حاکما» تم میں سے جس شخص نے ہماری احادیث کی روایت کی ہو اور ہمارے حلال و حرام میں غور و فکر کیا ہو اور ہمارے احکام سے واقف ہو اسے اپنا حاکم قرار دو کیونکہ میں نے اسے تم پر حاکم بنایا ہے۔(حرعاملی ، وساٸل الشیعہ ،ج 27،ص 136، باب 11،از ابواب صفات قاضی)
مشہورہ ابی خدیجہ:
امام صادق ع فرماتے ہیں کہ «ولکن انظروا الیرجل منکم یعلم شیٸا من قضاٸنا فاجعلوہ بینکم»لیکن دیکھو تم میں سے جو شخص ہماری قضاوت سے واقف ہو اسے اپنے درمیان قاضی قرار دو“(کلینی،اصول کافی ج 7، ص 412،کتاب الاقضاوالاحکام باب کراھیہ الارتفاع الی قضاة الجور)
توقیع امام زمانہ:
«اماالحوادث الواقعہ فارجعوا فیھا الی رواة احادیثنا»لیکن پیش آنے والے نٸے واقعات میں ہماری احادیث کے راویوں کی طرف رجوع کرو۔(صدوق،عیون اخبار الرضا ج 2، ص37، باب31)
جس طرح مندرجہ بالا آیات قرآنی اور روایات سے اسلامی معاشرے کے حاکم کا عالم فقیہ و عادل ہونا ثابت ہوتا ہے۔اسلامی انقلاب بھی انہیں آیات و روایات کے عین مطابق ولایت فقیہ کی حکومت کو انہی مبانی سے استنباط کرتے ہیں۔انقلاب اسلامی اور مسٸولین کی ذمہ داری کوٸی بھی حکومت جب اسلام کے نام پر وجود میں آۓ تو دینی مبنا ٕ کے تحت ان کی کیا ذمہ داری ہیں۔یہ قرآنی آیات و روایات کی روشنی میں واضح ہیں۔ حضرت علی ع اور ابن عباس کے درمیان مقام ”ذی قار“ میں جو مکالمہ ہوا تھا اس میں آپ نے حکومت کرنے کا مقصد حق کا قیام اور باطل کو روکنا قرار دیا تھا۔
اسی طرح رسول خدا نے معاذ ابن جبل کو یمن کا والی بناکر بھیجاتو انہیں نصیحت کرتے ہوۓ فرمایا کہ ”اے معاذ لوگوں کو قرآن کی تعلیم دینا۔اچھے اخلاق سکھانا ۔اچھے اور برے افراد کو ان کے مقام پر رکھنا۔جاہلیت کی ہر رسم کو فنا کردینا مگر جس کی اسلام نے اجازت دی ہے۔اسلام کے چھوٹے بڑے ہر حکم کو قاٸم کرنا۔(حرانی،تحف العقول ص 26)
خمینی بت شکن کا پیغام حکومت و وزرا ٕ کے نام:
اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد عظیم فقیہ اور مجاہد اسلام خمینی بت شکن نے اسلامی منابع کی روشنی میں وزارتوں کی ذمہ داریوں سے بابت ارشاد فرمایا کہ ”حکومت کے ذمہ دار گناہ سے دور رہیں۔اس مقام پر برہنہ عورتیں نہ لاٸی جاٸیں۔عورتیں رہیں تو حجاب کے ساتھ ،کام کریں تو اسلامی حجاب کے ساتھ شریعت میں رہتے ہوۓ کریں۔ یہاں سونے اور چاندی کے برتن استعمال نہ کی جاٸیں۔بےشمار سجاوٹیں اور دوسری چیزیں جو وہاں ہیں سب حکومتی خزانے میں رکھوادی جاٸیں۔تاکہ عوام کے لٸے خرچ ہو۔عوام عدالت کے خواہاں ہیں۔ انہیں بڑے بڑے کمرے کی خواہش نہیں ہے۔انہیں اسلامی حکومت کی ضرورت ہے۔(خمینی،صحیفہ امام ، ج 6،ص 329)
اس دور اور آنے والے دور کےوزرا ٕ سے میری وصیت ہے کہ یہ جو پیسہ آپ خرچ کر رہے ہیں یہ سب قوم کا ہے۔آپ سبھی حضرات قوم خاص کر غریبوں کی خدمت میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں ۔انہیں مشکل میں نہ ڈالیں۔اپنی ذمہ داری کے برخلاف کام نہ کریں۔کیونکہ یہ حرام ہیں۔(خمینی،صحیفہ امام ،ج 9،ص 451)
اسلام کی بنیاد پر امور کی اصلاح:
انقلاب اسلامی کے بانی امام خمینی رح نے فرمایا کہ”ہمیں اب باور کر لینا چاہٸے کہ طاغوت کی بساط اب لپیٹ دینی چاہیے ۔طاغوت کا دور ختم ہوگیا۔ایسانہ ہو کہ فقط اونچے عہدہ کے افراد چلے جاٸیں باقی سبھی اپنی جگہ قاٸم رہیں ، تو ہم اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہوۓسبھی افراد، سبھی ادارے، بازار سمیت سبھی جگہیں ایسی ہو جاٸیں کہ جب بھی کوٸی دیکھے تو اس کو محسوس ہو یہ ایک اسلامی حکومت ہے۔اس میں سبھی چیزیں اسلامی ہیں۔یہاں نہ ناپ تول میں کمی زیادتی ہو نہ جھوٹ بولے ، نہ دھوکے بازی ہو۔(خمینی،صحیفہ امام ، ج 9، ص 451)
نتیجہ:
اس بدلتی دنیا میں روزنت نٸی چھوٹے بڑے انقلابات آتے رہے ہیں اور آتے رہیں گے۔انقلاب فرانس و انقلاب روس جیسے بڑے انقلاب آۓ اور گزر گٸے۔ جب کہ ان کا کوٸی خاص شدید قسم کا دشمن بھی نہیں تھا۔اس کے باوجود اس دنیا سے مٹ گٸے اور قصہ پارینہ ہوگیا مگر انقلاب اسلامی ایران قدیم و جدید ہرقسم کی دشمنوں کی لاکھ کوششوں کے باوجود آج ایک مضبوط و مستحکم تناور درخت کی شکل اختیار کرچکا ہے۔اس انقلاب نے نہ اواٸل میں کسی خاص عمارت کو فتح کیا نہ ہی قتل عام کیا نہ ہی سطحی مطالبات لے کر اٹھے بلکہ یہ انقلاب تمام مستضعفین جہاں کی آزادی اور ظالم و ستمگر طاغوتی طاقتوں کے خلاف اسلام کے واضح احکامات کی روشنی میں رونما ہوا۔جو انسان کے جسمانی و روحانی دنیاوی و اخروی زندگی کی کامیابی و کامرانی اور ارتقا ٕ و تکامل کے لٸے برگزار ہوا۔ہزاروں شھدا ٕ کے خون مطہر کے نتیجے میں چیدہ چیدہ شخصیات کی شہادت اور آٹھ سالہ عالم استکبار کی مسلط کردہ جنگ اور دیگر تمام تر مکر و فریب کے باوجود آج باقی ہے۔اور اس کی بقا ٕ کا راز اس کا اسلامی مبانی کے تحت ہونا اور امام مہدی ع کی عالمی عادلانہ حکومت کے لٸے راہ ہموار کرنے کا جذبہ ، شوق ، لگن اور ایمان ہیں”گام دوم“ انہی دینی مبنا ٕ کےتحت ایک عالمی اسلامی تمدن ،تہذیب اور ثقافت کو وجود میں لانے کے لٸے عملی کوشش اور اپنی مسٸولیت کی اداٸیگی کا نام ہے۔ہماری دعا ہے کہ خدا اس عظیم انقلاب کو انقلاب مہدوی سے متصل کرے۔آمین۔
حوالہ جات:
قرآن مجید
1.صفی پوری ، عبدالرحیم بن عبدالکریم،منتھی الارب،بی جا
2.رامپوری ، غیاث الدین محمد بن جلال الدین ، فرھنگ غیاث الغات،تھران ، امیر کبیر 1363ش
3.بیہقی،احمد بن علی،تاج المصادر،بی جا،پژوھش گاہ علوم انسانی،و مطالعات فرھنگی،1376 ش
4.ٹینڈ گرانٹ،روس انقلاب سے رد انقلاب تک،لاہور،طبقاتی جدوجہد پبلشر۔ اردو ترجمہ
5.حرانی،ابومحمد حسن بن علی ،تحف العقول عن آل رسول، قم ،
6.مفید،محمد بن نعمان،الارشاد فی معرفة حجج اللہ علی العباد،قم،گنگرہ شیخ مفید
7حرعاملی،.محمد بن حسن،وساٸل الشیعہ،قم،مٶسسہ آل بیتلاحیا ٕ الاثرات
8.کلینی ،محمد بن یعقوب،اصولکافی ،قم،اسوہ
9.صدوق،محمد بن علی ابن بابویہ،عیون اخبار الرضا،تھران،دارالکتب الاسلامی
10.خمینی،روح اللہ،صحیفہ امام،تھران،مٶسسہ تنظیم و نشر آثار امام خمینی
نوٹ: حوزہ نیوز پر شائع ہونے والی تمام نگارشات قلم کاروں کی ذاتی آراء پر مبنی ہیں حوزہ نیوز اور اس کی پالیسی کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔