تحریر: محمد بشیر دولتی
حوزہ نیوز ایجنسی। کیا آپ جاننا چاہتے ہیں کہ چالیس ملکی اسلامی اتحاد یمن پر حملہ کرنے پر مجبور کیوں ہوا؟ اس جنگ کا اصل قصور وار کون ہے؟ان سوالوں کا جواب جاننے کے لئے ہمیں کچھ حقاٸق کو دیکھنا ہوگا۔ افکار سے کرداروں تک ایک فکری سفر کرنا ہوگا۔ سعودی عرب، عرب امارات اور اتحادیوں نے مارچ 2015ء میں ”عاصفة الحزم“ یعنی فیصلہ کن طوفان کے نام سے یمن پر حملہ کیا، اس حملے کے اسباب، عوامل اور اصل ذمہ داروں کو جاننے اور پہچاننے سے پہلے ہمیں کچھ حقاٸق کو جاننا ہوگا۔
آئیں ان حقائق پر ایک طائرانہ نظر ڈالتے ہیں۔
یمن ایک قدیمی تہذیب و تمدن کا حامل ایک تاریخی ملک ہے، یہ دنیا میں تیل کے ذخاٸر کے چونتیسویں حصے کا تنہا مالک ہے۔ یوں تیل برآمد کرنے والا سولہواں بڑا ملک ہے۔ دنیا کی سب سے بڑی آبی گزرگاہ ”باب المندب“یہاں واقع ہے۔
یمن کی آبادی اس وقت تین کروڑ کے لگ بھگ ہے۔جبکہ رقبہ پانچ لاکھ ستاٸیس ہزار نوسو اٹھاسٹھ مربع کلومیٹر پر مشتمل ہے۔ یمن کی دولاکھ تین ہزار آٹھ سو پچاس مربع میل سرحد عمان اور سعودی عرب سے ملتی ہے۔
قدیم تاریخ کے مطابق ملکہ بلقیس کی سرزمین پر رومی، ایتھوپین، عیساٸیوں اور عثمانیوں کی حکومت رہی ہے۔ سنہ 1839ء سے یہاں برطانیہ پھر سنہ 1979ء میں سویت یونین کی داداگیری رہی ہے۔
سنہ 1962ء میں جمال عبدالناصر کے حامی فوجی افسران نے یہاں بغاوت کی۔اس وقت سعودی عرب کے یمن کے زیدیوں سے نہ فقط قریبی تعلقات تھے بلکہ زیدیوں کے زبردست حامی بھی تھے۔
زیدی مکتب فقہی اعتبار سے حنفی اور مالکی مکاتب سے قریب ہے۔ سنہ1967ء میں اسراٸیل سے شکست کھانے کے بعد جمال عبدالناصر کی فوج یمن سے نکل گٸی، پھر سعودی عرب اور مصر نے مل کر یمن کو دوحصوں میں تقسیم کیا۔
سنہ 1990ء میں ایک معاہدے کے تحت شمالی اور جنوبی یمن میں اتحاد ہوگیا۔ یوں 22 مٸی 1990ء کو علی عبداللہ صالح متحدہ یمن کا صدر بن گیا۔
22 مٸی 1990ء سے 27 فروری 2012 ء تک جدید یمن پر بلاشرکت غیری حکمرانی کرنے والا سعودی عرب کا لاڈلا عبداللہ صالح کا تعلق زیدی فرقہ سے ہی تھا۔
جب صدام نے سنہ 1990ء میں کویت پر ناجاٸز قبضہ کیا تو عرب ممالک کے برعکس یمن کا جھکاٶ صدام کی طرف رہا جو ایران کا سب سے بڑا دشمن بھی تھا۔صدام کی طرف جھکاٶ کے سبب یمن اور سعودی عرب میں فاصلے بڑھنے لگے۔اسی دوران عربوں نے سعودی عرب، کویت اور امارات سے یمنی باشندوں کو ملک بدر کردیا ۔جس کے سبب یمنی کافی تعداد میں بےروز گار ہوگٸے۔ یوں عوام اور پڑھے لکھے جوانوں میں بےچینی پھیل گٸی۔ عبداللہ صالح مذہب کے لحاظ سے زیدی ہونے کے باوجود انصار اللہ کا مخالف اور سعودی عرب کا قریبی دوست تھا۔ سنہ 2004ء میں ان کی فوج نے حوثیوں کے مذہبی امام بدرالدین کو شہید کیا جو یمنی نوجوانوں کی تربیت اور ملکی تعمیر و ترقی میں نمایاں کردار ادا کررہا تھا بدرالدین کی شہادت کے بعد انکے بھاٸی عبدالمالک حوثی نے قیادت سنھبالی۔ عبدالمالک حوثی اور یمنی عشق رسول و اہلبیت سے سرشار تھے جس کے سبب اسراٸیل کے جانی دشمن تھے۔
ایران اور انصاراللہ اسی عقیدتی اور فکری قربت کے سبب ایک دوسرے سے نزدیک ہوۓ۔ اسی دوران سعودی عرب اور دیگر چند مغربی ممالک نے یمن میں القاعدہ کی مقامی شاخ ”انصار الشریعہ“ کی سرپرستی شروع کی۔
”عرب سپررنگ“ کے بعد یمن میں بھی عبداللہ صالح کے خلاف عوامی احتجاج کا نہ رکنے والا سلسلہ شروع ہوگیا۔
اس تحریک کے بعد نٸی قاٸم ہونے والی حکومت کا صدر منصور ہادی مسلک کے اعتبار سے شافعی تھا۔جبکہ وزیر اعظم کا عہدہ اخوان المسلمین کی یمنی شاخ جماعت الاصلاح کے پاس آگیا۔واضح رہے سعودی عرب سمیت عرب ممالک اخوان کے نظریات رکھنے والے کسی نظریاتی، انقلابی و مذہبی شخصیت کو پسند نہیں کرتے۔اس کی واضح مثال سعودی عرب کا اخوان المسلمین مصر کو دہشت گرد جماعت قرا دینا اور اس کے بعد مصر میں مرسی کا تختہ الٹ کر من پسند شخصیت جرنیل سیسی کی حکومت لاکر اخوانیون کو بےدردی سے کچل دینا ہے۔
یہاں منصور ہادی سعودی کا یار بن گیا۔بعض تجزیہ نگاروں کے مطابق منصور ہادی اور سعودیہ کی اندرونی ملی بھگت سے وزیر اعظم کی برطرفی کے بعد اقوام متحدہ کے خصوصی ایلچی جمال بن عمر کی زیر نگرانی خلیج تعاون کونسل کی ضمانت و حمایت سے ایک دستاویز لکھی گئی جسے ”معاہدہ امن و اشتراک“ کا نام دیا گیا۔
یوں ایک ٹیکنو کریٹ حکومت کے قیام کی راہ ہموار کی گٸی۔چونکہ یمن کے عوامی اکثریت انصاراللہ کے ساتھ تھی جو آزادانہ الیکشن کے خواہاں تھی۔انہیں بٹھانے کے لٸے ٹیکنو کریٹ حکومت کا وزیر اعظم حوثی ہونا قرار پایا، مگر نہ ٹیکنوکریٹ حکومت بنا کر حوثیوں کو صدارت دی نہ ہی آزاد جمہوری الیکشن کرواٸے گٸے۔ جس پر حوثیوں اور یمنی عوام نے پرامن احتجاجات شروع کٸے۔ آہستہ آہستہ انصاراللہ کے اس جمہوری احتجاج میں علی عبداللہ صالح اور ان کی وفادار فورس بھی شامل ہوگئی۔
کٸی مہینوں تک پرامن احتجاج کو منصور ہادی کی حکومت اور عالمی میڈیا دبانے کی کوشش کرتے رہے۔
تنگ آمد بہ جنگ آمد 2014ء میں انصاراللہ اور عبداللہ صالح کی وفادار فورس نے دارالحکومت صنعا پر قبضہ کرلیا۔ یہ ایک ٹرنینگ پواٸنٹ تھا۔ اس کے بعد آہستہ آہستہ مقامی قباٸل اور عوام بھی ان کے ساتھ مل گٸے۔ منصور ہادی کو بھاگ کر سعودی عرب میں پناہ لینی پڑی۔ عوامی اور جمہوری حکومت کی تشکیل کے لٸے پرامن کوشش کرنے کے جرم میں سعودی عرب نے متحدہ عرب امارات کے ساتھ مل کر 25 مارچ 2015ء کو فیصلہ کن طوفان کے نام پر وحشت ناک فضاٸی حملہ شروع کیا۔
اگست 2015ء میں چالیس ملکی اتحادیوں کے زمینی دستے یمن کی جنوبی بندرگاہ والے شہر عدن میں اترے۔ پھر مقامی القاعدہ کے ذریعے کچھ علاقوں پر فراری صدر کی حکومت قاٸم کی۔
نومبر 2017ء میں انصاراللہ اور ان کے اتحادی عبداللہ صالح کے درمیان ایک مسجد پر قبضے کے لٸے جھڑپ ہوٸی جس میں عبداللہ صالح اور اس کے سپاہی مارے گٸے۔
جون 2018ء میں حدیدہ شہر پر حملہ کیا۔ مگر پا برہنہ لڑنے والی انصاراللہ اپنے ایمانی جذبے کے تحت استقامت کے ساتھ لڑتی رہی ۔ادھر جنوبی یمن میں امارات اور سعودی فورسز کے آپس میں بھی جھڑپیں شروع ہوئیں، چونکہ دونوں کے مفادات مختلف تھے۔ سعودی عرب اپنی مرضی کی حکومت مسلط کر کے یمنی تیل و گیس کے ذخاٸر کو ہتھیانا چاہتا ہے اور عرب امارات یمنی بندرگاہ پہ قبضہ کر کے اپنی بندرگاہوں کو محفوظ اور بین الاقوامی بنانا چاہتا ہے۔ انصاراللہ یمن کے جوان چالیس ملکی اتحاد اور ان کی پشت پر موجود امریکہ و اسراٸیل کی ناک میں دم کرتے رہے۔ قریبی چوکیوں اور قصبوں پر قبضے کے ساتھ اب ان کا ڈرون اور میزاٸل آرامکو اور دبٸی ائرپورٹ تک پہنچ گٸے، جس کے نتیجے میں جولاٸی 2019ء میں عرب امارات نے یمن سے فوج نکالنے کا اعلان کردیا، لیکن حال ہی میں عرب امارات کے ایک بحری مال بردار جہاز کو اسلحہ و بارود اسمگلنگ کرتے ہوۓ انصاراللہ نے رنگے ہاتھوں پکڑ لیا۔اسکے بعد عرب امارات پھر سے اس جنگ میں کود گیا۔
2015ء سے جاری جارحیت میں یمن کے ساٹھ فیصد سے ذیادہ بنیادی تنصیبات تباہ ہوچکے ہیں۔اب تک سعودی اتحاد کے محاصرہ اور بمباری کے نتیجے میں چارلاکھ کے قریب یمن میں اموات ہوٸی ہیں، جن میں بچے بوڑھے مرد عورت سب شامل ہیں۔اب تک یمن کے عوامی مقامات مواصلاتی مراکز، جیل، اسکول، ہسپتال اور جلوس جنازے پر بمباری کر چکے ہیں۔ بھوکے اور ننگے پیر لڑنے والے اب روز بروز مضبوط ہورہے ہیں۔یمن سے اب بلیسٹک میزاٸل اور ڈرون کے ذریعے حملہ ہورہا ہے۔سعودیہ اور عرب امارات کے اسراٸیل سے گہرے تعلقات روز بروز عیاں ہورہے ہیں۔انصاراللہ کے ساتھ اب تمام یمنی قباٸل متحد ہوچکے ہیں۔یمنیوں کو سعودی عرب کے خلاف متحد کرنے میں ”وکی لیکس“ کا بھی اہم کردار ہے۔ وکی لیکس کے مطابق سعودی عرب نے یمن انرجی کے خزانوں پر امریکہ کے ساتھ ایک خفیہ معاہدہ کیا تھا ۔جس کے مطابق آٸندہ تیس سال تک یمن تیل و گیس نہیں نکال سکے گا، اس وجہ سے بھی یمن کے سنی قباٸل بھی انصاراللہ کے شانہ بشانہ ہیں۔
یمن کی صورت حال کا سب سے زیادہ فاٸدہ اسراٸیل کو ہوا۔یمن میں موجود سو سے زیادہ یمنی یہودیوں کو نکال کر لے جانے میں اسراٸیل کامیاب ہوگیا۔
تاریخ اب الٹی دہرائی جارہی ہے۔خدا کے گھر کے رکھوالے اب دین و شریعت کا مذاق اڑا رہے ہیں۔سرزمین وحی میں جوا خانے اور عیاش خانے کھل رہے ہیں۔تبلیغی جماعتوں پر پابندی اور ہالی ووڈ و بالی ووڈ اداکاروں و گلوکاروں کا استقبال کیا جارہا ہے۔ ابرہہ اب حجاز سے یمن کی طرف بڑھ گیا ہے۔ یمن سے اب ڈرون کی ابابیلیں آرامکو اور دبٸی ائیرپورٹ کے اوپر محو پرواز ہیں۔ دنیا میں سب سے بڑا عید میلادالنبی کا جلوس نکالنے والی اویس قرنی کی عشق محمدی ص سے سرشار اولادیں،یارسول اللہ کے نعروں کی گونج میں یہودیوں، عیساٸیوں اور ان کے غلاموں کے سامنے محمدی استقامت کے ساتھ کھڑی ہیں۔
نوٹ: حوزہ نیوز پر شائع ہونے والی تمام نگارشات قلم کاروں کی ذاتی آراء پر مبنی ہیں حوزہ نیوز اور اس کی پالیسی کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔