۱ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۱ شوال ۱۴۴۵ | Apr 20, 2024
انٹرویو

حوزہ/شامی سوشل ایتھنک پارٹی کے شعبۂ خارجہ کے سربراہ طارق الاحمد نے کہا کہ مزاحمتی اور مقاومتی محوروں کے ذریعے امریکہ اور صہیونی دشمنوں کے ناپاک عزائم کو ناکام بنایا جا سکتا ہے اور ہمیں اس راہ میں مزید جدوجہد کرنے کی ضرورت ہے۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،انقلابِ اسلامی ایران کے تعلق سے حوزہ نیوز ایجنسی نے شامی سوشل ایتھنک پارٹی کے شعبۂ خارجہ کے سربراہ طارق الاحمد کے ساتھ خصوصی گفتگو کی ہے، جس کا تفصیلی متن حسب ذیل ہے:

حوزہ: خطے اور عالم اسلام پر انقلاب اسلامی کے اثرات، اس انقلاب کے بارے میں عوامی تاثرات اور موجودہ حالات میں مزاحمتی محاذ کی تشکیل کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟

خطے میں انقلابِ اسلامی ایران کا سب سے اہم اثر، لوگوں کو ناامیدی کی کیفیت سے نکالنا اور مغرب کی خواہشات اور ان کی پیروی کرنے سے گریز کرنا ہے اور اس کا مطلب، ایک مضبوط محاذ کی تشکیل کے لئے جدوجہد کرنا ہے۔ میں نے شامی مزاحمتی جماعت نیشنل سوشلسٹ پارٹی کی قیادت سے مقاومت کا آغاز کیا کہ جس نے گزشتہ تیس صدیوں کے دوران اپنی مزاحمت کا آغاز کیا اور اب بھی جاری ہے۔ ہم فلسطین اور لبنان میں مزاحمتی قوتوں کے ساتھ مل کر انقلابِ اسلامی ایران کے زیر سایہ اسی محور کے تحت شامی حکومت کے ساتھ تعاون کر رہے ہیں، کیونکہ یہ ایک بنیادی تحریک ہے اور یمن میں بھی ایک مزاحمتی محاذ تشکیل پا رہا ہے اور یہ محاذ دن بدن مضبوط ہوتا جارہا ہے۔

حوزہ: آپ حالیہ عالمی انقلابات کے تناظر میں انقلابِ اسلامی کو آگے بڑھانے اور مؤثر بنانے میں قیادت کے کردار کو کیسے دیکھتے ہیں؟

میں یقین سے کہتا ہوں کہ ایرانی قیادت کا باقی ممالک کی مزاحمتی تحریکوں کے ساتھ ہم آہنگی کے فارمولے کو حاصل کرنے میں کلیدی کردار رہا ہے۔ یہ نہیں کہا جا سکتا کہ عالم اسلام کے انقلابات عوام کے حق یا ان کے مفادات میں تھے۔ ہم مقاومت و مزاحمت کے محوروں کے علاوہ کچھ نہیں جانتے جس نے ابتدا میں فلسطین کی آزادی کے لئے مزاحمت کی اور صہیونی تحریک اور استکبار جہاں سمیت سامراجی طاقتوں کا مقابلہ کیا۔

حوزہ: مزاحمتی اور مقاومتی محاذوں کے خلاف دشمنوں بالخصوص امریکہ اور صہیونیوں کے عزائم کو کیسے ناکام بنایا جا سکتا ہے؟ آپ مزاحمتی محوروں اور دنیائے اسلام کے مستقبل کے بارے میں کیا کہیں گے؟

امریکہ اور صہیونی دشمنوں کے ناپاک عزائم کو مزاحمتی قوتوں کے ذریعے بے اثر کیا جا رہا ہے اور ہمیں اس راہ میں مزید جدوجہد کرنے کی ضرورت ہے، کیونکہ ہم ابھی اس راستے کے آغاز میں ہیں۔ میں خطے میں مزاحمتی اور مقاومتی قوتوں اور ان کی بااثر شخصیات کے درمیان مسلسل ہم آہنگی اور اسی طرح سے آگے بڑھنے کو ضروری سمجھتا ہوں، کیونکہ مراکش سے لے کر الجزائر، تیونس، یمن، سوریہ اور عراق تک ہماری ثقافتیں مختلف ہیں، لہذا ہم سب ایک ہی ماڈل اور نمونہ پیش نہیں کر سکتے، لیکن ایک ہی مقصد اور ہدف کے لئے ایک ہی پلیٹ فارم پر متحد ہو سکتے ہیں اور وہ ہدف صہیونی غاصب حکومت سے اقوام عالم اور مقبوضہ علاقوں کی آزادی اور رہائی ہے۔

حوزہ: مجاہدِ اسلام شہید جنرل قاسم سلیمانی کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے جنہوں نے اپنی زندگی فلسطین کی آزادی اور اقوام عالم کو انصاف دلانے کے لئے وقف کر دی؟

عظیم مجاہد شہید قاسم سلیمانی ایک بہت ہی اعلیٰ نمونۂ عمل ہیں۔ شہید سلیمانی صرف صاحبِ فکر مجاہد ہی نہیں تھے، بلکہ اپنے نظریات اور افکار کو عملی جامہ پہنانے میں ایک بہترین نمونہ تھے۔ دلوں کے سردار شہید قاسم سلیمانی اپنے نظریات و افکار کو عملی جامہ پہنانے، اقوام عالم کی فتح اور آئیڈیالوجی کے لئے مختلف سہولیات سے استفادہ کرنے میں کامیاب رہے۔ شہیدِ مقاومت سردار قاسم سلیمانی ایک ایسا ماڈل اور نمونہ ہیں جسے تاریخ ہمیشہ کے لئے لافانی رکھے گی اور طویل عرصے تک، شہید میجر جنرل قاسم سلیمانی کی شہادت سے نہ صرف ایران بلکہ پوری دنیا کی نسلیں درس حاصل کرتی رہیں گی۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .