حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، عشرۂ فجرِ انقلاب اور انقلاب اسلامی ایران کی سالگرہ کی مناسبت سے، حوزہ نیوز ایجنسی نے یمنی وزارت صحت کے سابق ترجمان جناب ڈاکٹر یوسف الحاضری کے ساتھ خصوصی گفتگو کی ہے، جس کا تفصیلی متن مندرجہ ذیل ہے:
حوزہ: آپ انقلاب اسلامی ایران کے چالیس سال سے زیادہ کے دورانیے کو اس کے شعار، مسائل اور کامیابیوں کے حوالے سے کیسے دیکھتے ہیں؟
انقلاب اسلامی ایران بہت ہی متأثر کن تھا اور ہماری انقلابی تحریک بھی اسی انقلاب کا نتیجہ ہے، انقلاب اسلامی سے جو کچھ حاصل ہوا وہ عرب اور دنیا کے کسی بھی انقلاب سے حاصل نہیں ہوا، کیونکہ ان انقلابات میں بیرونی مداخلتیں تھیں لیکن انقلاب اسلامی ایران میں بیرونی مداخلت نہ ہونے کی وجہ سے ہم تمام شعبہ ہائے زندگی میں ترقی و پیشرفت اور اندرونی استحکام اور استقامت کا مشاہدہ کر رہے ہیں اور اب اسلامی جمہوریہ ایران کو ایک عالمی طاقت کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔
حوزہ: خطے اور عالم اسلام پر انقلاب اسلامی کے اثرات، اس انقلاب کے بارے میں عوامی تاثرات اور موجودہ حالات میں مزاحمتی محاذ کی تشکیل کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟
1980ء کی دہائی میں امریکیوں اور انگریزوں کے خدشات اور خوف و ہراس کی وجہ یہ تھی کہ انقلاب اسلامی پچھلے انقلابات سے بالکل مختلف تھا اور وہ دنیا پر اپنا تسلط برقرار رکھنا چاہتے تھے؛ اس سلسلے میں اگر وہ کسی نظام سے مطمئن نہیں ہوتے تو مخالفین کو اکساتے اور ان حکمرانوں کے خلاف ایک نیا انقلاب برپا کراتے اور اپنے کٹھ پتلیوں کو اسی ملک میں دوبارہ برسر اقتدار لے آتے اور یہ سب استکبار جہاں امریکہ کے توسط سے ہوتا تھا؛ اس کی مثالیں ہمیں لیبیا، تونس اور مصر میں ملتی ہیں، لیکن جب انہوں نے انقلاب اسلامی کو کامیاب ہوتے دیکھا تو صدام کی حکومت کو اسلامی جمہوریہ ایران کے خلاف اکسایا۔ یمن میں بھی یہی صورتحال ہے۔ جو کوئی بھی الہی نقطۂ نظر اور عوامی امنگوں کے مطابق انقلاب لانے کا ارادہ رکھتا ہے اسے امام خمینی (رح) کی قیادت میں برپا ہونے والے انقلاب اسلامی ایران سے درس لینا اور اس انقلاب کو نمونۂ عمل قرار دینا چاہئے اور ہم اس کی مثالیں لبنان میں حزب اللہ اور فلسطین اور یمن میں مزاحمت و مقاومت کی شکل میں دیکھ رہے ہیں۔
حوزہ: آپ حالیہ عالمی انقلابات کے تناظر میں انقلاب اسلامی کو آگے بڑھانے اور مؤثر بنانے میں قیادت کے کردار کو کیسے دیکھتے ہیں؟
فطری طور پر، کسی بھی تحریک اور تنظیم کی بنیاد، قیادت ہوتی ہے، سب سے پہلے ہمیں قوموں کی اجتماعی اور اندھی تحریک نظر آتی ہے اور دوسرے مرحلے میں ہمیں قوموں کے لئے ایک دیانتدار، مؤمن، مخلص اور بے باک قیادت کی ضرورت ہے کہ جو ایرانی قائدین کی طرح بیرونی سیاست اور تدابیر کی تلاش میں نہ رہیں اور ایرانی قیادت کی طرح خداوند کریم سے مدد حاصل کریں اور اگر قیادت میں ایرانی قائدین جیسی خصوصیات نہ ہوں تو قوموں کو لیبیا جیسے ہی چیلنجز اور بحرانوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔
حوزہ: مزاحمتی اور مقاومتی محاذوں کے خلاف دشمنوں بالخصوص امریکہ اور صہیونیوں کے عزائم کو کیسے ناکام بنایا جا سکتا ہے؟ آپ مزاحمتی محوروں اور دنیائے اسلام کے مستقبل کے بارے میں کیا کہیں گے؟
خطے میں بہت سی سازشوں کو ناکام بنایا جا چکا ہے اور نئی سازشوں کو بیداری اور مقاومت کے ذریعے ناکام بنایا جائے گا۔ امریکہ، اسرائیل اور برطانیہ اسلام اور انقلاب کے ازلی دشمن ہیں اور ہمیں اسلام اور انقلاب دشمنوں کی سازشوں کو ناکام بنانے کے لئے جہاد اور اسلامی، قرآنی اور نبوی اصولوں کے مطابق آگے بڑھنا ہوگا، تاکہ دشمنوں کے ناپاک عزائم کو خاک میں ملایا جا سکے اور جنگ اور پابندیوں کے خطرات بے اثر ہوں۔ مزاحمت و مقاومت کا مستقبل، الٰہی وعدے کے مطابق، اللہ کی زمین پر تسلط، طاقت اور فتح ہے۔ ہم اولیاء اللہ علیہم السلام اور اپنے ازلی دشمنوں کے راستے کو جانتے ہیں اور ہمارا مستقبل فتوحات پر مبنی ہے اور غاصب صہیونی، سعودی اور اماراتی حکومتیں تباہی کے دہانے پر کھڑی ہیں۔
حوزہ: مجاہدِ اسلام شہید جنرل قاسم سلیمانی کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے جنہوں نے اپنی زندگی فلسطین کی آزادی اور اقوام عالم کو انصاف دلانے کے لئے وقف کر دی؟
شہید قاسم سلیمانی انقلاب اسلامی کے اہم نتیجوں میں سے ایک تھے اور اگر انقلابِ اسلامی نہ ہوتا تو ایسے شہدائے مقاومت بھی نہ ہوتے جو ذاتی مفادات کے بغیر اقوام عالم کی آزادی کے لئے مزاحمت و مقاومت کی راہ میں جدوجہد کرتے رہے۔ شہید قاسم سلیمانی انقلابی سفیر اور انقلابِ اسلامی کے نتائج میں سے ایک تھے اور ان کی شہادت نے مجاہدین اور جنگجوؤں کی رگوں میں خون کو مزید گرما دیا ہے شہید قاسم سلیمانی کی شہادت کو ایک مثبت کردار اور ایک نقطۂ نظر کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔