۳۱ فروردین ۱۴۰۳ |۱۰ شوال ۱۴۴۵ | Apr 19, 2024
ایران کی حکمت عملی

حوزہ/ دوسرا راستہ یہ تھا کہ اسلامی جمہوریہ ،عراقی حکومت کے ساتھ اپنی آٹھ سالہ دشمنی کو فرامو ش کر ے اور اب جبکہ صدام کی حکومت بڑے شیطان" یعنی امریکہ کے مقابلہ میں قرار پائی تھی،اس کی مدد کے لئے آگے بڑھ کر دونوں ملکوں کے درمیان اتحاد واتفاق بر قرار کر کے امریکہ کے علاقہ میں تجاوز کا مقابلہ کرے ۔بعض داخلی سیاسی شخصیتیں بھی اس نظریہ کی حامی تھیں ۔بعض لوگ صدام کو "خالدبن ولید" کے عنوان سے یاد کرتے تھے ۔اس پالیسی پر عمل کرنے سے بیشک ملک اور اسلامی جمہوریہ کے نظام کو ناقابل تلافی نقصان اٹھانا پڑ تا ۔امریکہ اس بہانہ سے استفادہ کر کے مناسب بین الاقوامی حالات کے پیش نظر عراق وایران دونوں سے نمٹ لیتا۔

حوزہ نیوز ایجنسیl

سید لیاقت علی کاظمی

اگست۱۹۹۰ءمیں عراق کا کویت پر بھر پورحملہ اوراس شیخ نشین اور پیٹرول سے مالامال ملک پر قبضہ کرنے کے مسئلہ نے نہ صرف بین الاقوامی مسائل کے ناظرین اور تجزیہ نگاروں کو،بالخصوص صدام کی حکومت کے ایران کے ساتھ ایک طولانی جنگ میں شکست کھانے کے بعد ،حیرت میں ڈال دیا،بلکہ دنیا کے ممالک اور بین الاقوامی نظام کوبھی اس بحران کے سلسلہ میں رد عمل دکھانے اور براہ راست مداخلت کرنے پر مجبور کیا ۔

ایران کے ساتھ جنگ ہار نے کے بعد صدام نے کیوں یہ دیوانگی کی اور ایسا شرمناک اقدام کیا؟ایک ایسا سوال ہے جس پر ابھی بھی سیاسی مطالعہ کرنے والے دانشورتجزیہ کر رہے ہیں ۔بعض لوگوں کا یہ خیال ہے کہ امریکہ کی طرف سے صدام کی حکومت کو ایران پر حملہ کے وقت ہری جھنڈی دکھانے کے مانند کویت پر حملہ کے وقت بھی امریکہ کا اشارہ اس کو یہ قدم اٹھانے میں ہمت افزائی کا سبب بنا تاکہ امریکہ اپنی حامی اور زیرتسلط حکومتوں کی مدد کے بہانے علاقہ،خاص کر خلیج فارس میں مزید مداخلت کرنے کا جواز پیدا کرسکے اور اس کام کو قانونی حیثیت بخشے،جبکہ اس سے قومی استقلال والا دوسرانظریہ بھی موجود ہے ۔[1]

حقیقت یہ ہے کہ صدام،ایران کے ساتھ آٹھ سالہ جنگ میں اپنے جاہ طلبانہ عزائم کو پورا کرنے میں ناکام رہا ۔اس نے عراقی عوام کے لیے فقر،بدبختی اور بیچارگی اور لاکھوں انسانوں کی قربانی کے علاوہ کچھ حاصل نہیں کیا۔اس کے علاوہ جنگ کے بعد ملک پر کروڑوں ڈالر کے قرضہ کا بوجھ بھی بڑھادیا ۔اس لئے کویت پر حملہ اور اس تازہ جنگ سے وہ نہ صرف اپنی اقتصادی مشکلات کو حل کرنا چاہتاتھا ،بلکہ اپنی دیرینہ آرزؤں کو بھی عملی جامہ پہنانا چاہتا تھا جبکہ وہ اپنی آرزؤں میں سے کسی ایک کو حاصل نہ کرسکابلکہ اس کے بر عکس سلامتی کونسل کی طرف سے عائد کی گئی پابندیوں سے ملک پر ایسادباؤ پڑاکہ دس سال سے زیادہ عرصہ گزر نے کے بعد بھی ،جس ملک کا زرمبادلہ ایران سے جنگ سے قبل تیس ارب ڈالر سے زیادہ تھا آج ایک سو ارب ڈالر کا مقروض ہے ۔

چونکہ صدام نے اسلامی انقلاب کی یلغار اور پھیلاؤ کے سامنے ایک مضبوط رکاوٹ کے عنوان سے رول اداکیاتھا اور قدامت پسند عرب ممالک اوربااثر مغربی طاقتوں کے منافع کو علاقہ میں تحفظ بخشاتھا ،اس لئے اپنے لئے اس حق کا قائل تھا کہ عرب ممالک نہ صرف اس کے قرضوں کو معاف کریں ،بلکہ چاہتاتھا کہ اسے نئے قرضے دے کر ملک کی تعمیر جدید میں اس کی مددکریں ۔دوسری طرف سے ایسا استنباط کرتاتھا کہ امریکی حکومت اس کے اسلامی انقلاب سے مقابلہ کے پیش نظر اس کی مہم جوئی اورخود خواہی کے بارے میں مخالفت نہیں کرے گی۔امریکی عہدہ داروں کی مبہم اور مشکوک پالیسیاں بھی اس کے اس تصور کو تقویت بخشتی تھیں ۔

اس نے مذکورہ استدلال کی بناء پر کویت کے خلاف اچانک حملہ کیا اور ۴۸گھنٹے سے کم وقت میں کویت کی سرزمین پر عراقی فوج کے ذریعہ قبضہ کرلیا۔کویت کا امیرہیلی کاپٹر کے ذریعہ سعودی عرب بھا گ گیا ۔

امریکی حکومت، اس فرصت اور دوقطبی نظام کے زوال سے پورا پورا فائدہ اٹھاتے ہوئے ایک کثیر الاقوام فوج کو تشکیل دے کر میدان میں اترآئی اورایک غیر مساوی جنگ میں عراق کے مقابلہ میں کھڑی ہوگئی۔اگر چہ صدام نے اپنے سیاسی موقف کو بدل کر عراق کے پرچم پر ‘‘اللہ اکبر’’کا لفظ نصب کیا تھااور اسرائیل کے خلاف سخت موقف اختیار کرکے اسلامی اور عرب ممالک کی حمایت حاصل کرنے کی کوشش کی تھی ،لیکن نہ صرف وہ اپنے مقاصدمیں کامیاب نہ ہوابلکہ فوجی ،اقتصادی اور سیاسی لحاظ سے بھی انتہائی کمزورہو گیا ،یہاں تک کہ اس ملک کی قومی حاکمیت کو زبردست نقصان پہنچا اورخودصدام کی تقدیر بھی امریکہ کے رحم وکرم سے وابستہ ہو گئی ۔

اس جنگ نے اسلامی جمہوریہ ایران کے لئے نئے حالات پیداکر دیئے۔اس بحران کے بارے میں نظام کے ذمہ داروں کی حکمت عملی اور تدبیر اس امرکا سبب بنی کہ کارٹر حکو مت کی قومی سلامتی کے مشیر برجنسکی کو یہ کہنا پڑا کہ:‘‘عراق کی کویت اورکثیر الاقوام حکومتوں کے درمیان جنگ میں صرف ایک طرف،یعنی اسلامی جمہوریہ ایران کو فتح حاصل ہوئی۔’’

اس سلسلہ میں اسلامی جمہوریہ کے ذمہ داروں کے لئے تین راہیں تھیں :

اول یہ کہ عراق کے ایک دوسری جنگ میں الجھنے کی وجہ سے اس کے لئے پیدا ہوئے حساس حالات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے عراق کے ساتھ اپنی سرحد پر ایک بھرپورحملہ کر کے اس کی سرزمین میں داخل ہوکر نہ صرف صدام کی حکومت کے ظالمانہ تجاوزات کا انتقام لے لے بلکہ قوی پوزیشن میں قرار پاکر اپنے مطالبات کو عراقی حکومت پر ٹھونس دے ۔صدام کی حکومت کو پہلے سے اس کا احتمال اور خوف تھا اور اسی لئے اس نے ایران کی حکومت کے ساتھ خط وکتابت شروع کر کے سر انجام ایران کے مطالبات من جملہ ۱۹۷۵ء کی الجزائر قرارداد کو پھر سے قبول کرنا ،فوجوں کو قانونی سرحدوں تک واپس بلانا اور طرفین کے جنگی قیدیوں کے تبادلہ کو قبول کرکے اس پر عمل کرنا ،مان لیا۔

دوسرا راستہ یہ تھا کہ اسلامی جمہوریہ ،عراقی حکومت کے ساتھ اپنی آٹھ سالہ دشمنی کو فرامو ش کر ے اور اب جبکہ صدام کی حکومت بڑے شیطان" یعنی امریکہ کے مقابلہ میں قرار پائی تھی ،اس کی مدد کے لئے آگے بڑھ کر دونوں ملکوں کے درمیان اتحاد واتفاق بر قرار کر کے امریکہ کے علاقہ میں تجاوز کا مقابلہ کرے ۔بعض داخلی سیاسی شخصیتیں بھی اس نظریہ کی حامی تھیں ۔بعض لوگ صدام کو "خالدبن ولید" کے عنوان سے یاد کرتے تھے ۔اس پالیسی پر عمل کرنے سے بیشک ملک اور اسلامی جمہوریہ کے نظام کو ناقابل تلافی نقصان اٹھانا پڑ تا ۔امریکہ اس بہانہ سے استفادہ کر کے مناسب بین الاقوامی حالات کے پیش نظر عراق وایران دونوں سے نمٹ لیتا۔

تیسرا راستہ ،جویقینااسلامی جمہوریہ کے لئے کم ترین نقصان پہنچاسکتاتھا ،یہ تھاکہ اس جنگ میں عملاًداخل ہونے سے پرہیز کر کے پہلے دوطریقوں کے خطرات سے اپنے آپ کوبچا ئے ۔یہ وہ پالیسی تھی جسے بالاخرنظام کے ذمہ داروں نے اختیار کیا ،اس طرح کہ عراق کے کویت پر حملہ کی مذمت کرنے کے ضمن میں بڑی طاقتوں کی علاقہ میں مداخلت کو بھی مسترد کیا ۔انقلاب اور اسلامی نظام کے لئے اس پالیسی کے مندرجہ ذیل نتائج نکلے :

۱۔اقوام متحدہ کے جنرل سیکریٹری کی طرف سے بالاخر عراقی حکومت کا ایرانی سرزمین پر حملہ آورکے عنوان سے تعارف کراگیا اور اس طرح اسلامی جمہوریہ کا دیرینہ مطالبہ پوراہوا۔

۲۔۱۹۷۵ءکی الجزائر قرارداد،جسے صدام نے جنگ کے آغازمیں مسترد کر کے پھاڑ ڈالاتھا۔پھر سے قبول کی گئی اور ایران کی تمام مقبوضہ سر زمین دوبارہ ایران کو واپس مل گئی ۔

۳۔جنگی قیدیوں کے تبادلہ کے نتیجہ میں ایران کے آزاد گان سر بلندی کے ساتھ اپنے وطن لوٹے اوران کے خاندان والوں کی فکر وپریشانیاں دورہوئیں ۔

۴۔خلیج فارس کے علاقہ کی عرب حکومتوں کومعلوم ہوا کہ اسلامی جمہوریہ کی حکومت طاقت رکھنے کے باوجود بھی،ان کی طرف سے جنگ کے دوران صدام کو مدد کرنے کی وجہ سے انتقام لینے پر نہیں اتری بلکہ اپنے اصولی موقف پر ڈٹ کر رہی ،اس کا یہ نتیجہ نکلا کہ خلیج فارس کی جنگ کے خاتمہ کے بعد صدام کی حکومت سے خوف کی وجہ سے ان ملکوں کے اسلامی جمہوریہ سے تعلقات بہتر ہوئے۔ اورچپقلش سے اجتناب کی ایرانی پالیسی کامیاب ہوئی اوربڑی طاقتوں کی طرف سے اُکسانے کے باوجود اسلامی جمہوریہ کے اپنے جنوبی ہمسایوں کے ساتھ تعلقات بہتر ہونے لگے۔

۵۔امریکہ کی طرف سے اس دہائی کے دوران عراق وایران دونوں کو کمزور کرنے کی پالیسی کے باوجود ،اسلامی جمہوریہ ایران کے بارے میں اس کی یہ پالیسی نا کام رہی اور اس جنگ میں ایران کے دشمن شمار ہو نے والے ملک ،عراق کے کمزور ہونے اور اس پر مختلف پابندیاں عائد ہو نے کے نتیجہ میں ،آج اسلامی جمہوریہ کو علاقہ کی ایک بڑی طاقت کے عنوان سے قبول کیا گیا ہے ۔یہ ملک،اس مدت کے دوران نہ صرف جنگ کی وجہ سے پیداہوئے اپنے مسائل کو حل کرسکا ہے بلکہ اپنی اقتصادی، فوجی،سیاسی اورثقافتی حالت کو وسعت اورتقویت بخشنے میں کامیاب ہوا ہے اور حقیقت میں بقول برجنسکی :خلیج فارس کی جنگ میں صرف اسلامی جمہوریہ ایران کامیاب تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] مزید مطالعہ کے لٔے پیر سالینجر،اریک لوران کی لکھی گئی کتاب "محرمانہ اسناد کی نگاہ میں جنگ خلیج فارس" ترجمہ ھوشنگ لاہوتی۱۳۷۰ھ ش۔ملاحظہ ہو۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .